لاہور کے جوہر ٹاؤن میں دھماکہ اور تین افراد کی ہلاکت مستقبل کی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کررہا ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے دھماکہ کے دوسرے روز، پرزور دعویٰ کیاکہ پولیس دہشت گردوں کے قریب پہنچ گئی ہے اور دہشت گردی میں ملوث کار کے مالکان کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔
کراچی پولیس نے لاہور پولیس کی اطلاع پر محمود آباد کے علاقہ میں چھاپہ مارا ہے۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی فرمایا کہ کراچی میں بھی دہشت گردوں کے ایک گروپ کا قلع قمع کیا گیا ہے۔ یہ گروہ جس میں ایم کیو ایم کے بعض رہنما شامل ہیں بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے منسلک نیٹ ورک کا حصہ تھا مگر ان تمام دعوؤں کے باوجود جوہر ٹاؤن میں دھماکہ وفاقی اور صوبائی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس نیٹ ورک کی ناکامی ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے والی کار دوسال قبل چوری ہوئی تھی۔
سندھ اور پنجاب پولیس نے اس دھماکہ میں ملوث کئی افراد کی گرفتاری کا دعوی کیا ہے۔ پاکستان میں ادارے دھماکوں کے بعد ملزمان تک پہنچنے کا دعوی کرتے ہیں۔ پنجاب پولیس کے ریکارڈ میں دھماکہ میں استعمال ہونے والی گاڑی سے متعلق معلومات موجود ہونی چاہیے تھی مگر یہ گولہ بارود سے بھری گاڑی تمام چیک پوسٹوں سے گزرتی ہوئی اپنے مقررہ ہدف تک پہنچ گئی۔
ماہرین نے دھماکے کی جگہ اور دھماکہ میں استعمال ہونے والے مواد کے معائنہ کے بعد رائے دی کہ یہ خودکش دھماکہ نہیں تھا بلکہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ کار میں موجود 15کلوگرام بارودی مواد کو دھماکہ سے اڑایا گیا اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دھماکہ کرنے والے انتہائی تربیت یافتہ تھے جنھوں نے ایک بھرے بازار میں پارک کی گئی کار میں دھماکہ کرکے اپنا ہدف پورا کیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کا معاملہ افغانستان کی صورتحال سے منسلک ہے۔ افغانستان میں لڑی جانے والی لڑائی کئی وجوہات کی بناء پر پشاور اورکوئٹہ سے ہوتی ہوئی، کراچی تک پہنچ گئی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکا اور اتحادی افواج کا ساتھ دیا تو پاکستانی طالبان نے ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔ دہشت گردوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی سے لے کر لاہور، ملتان، سکھر اور کراچی تک اپنے اہداف مکمل کیے۔
کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقے مسلسل دہشت گردی کا شکار رہے۔ پشاور آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو جب دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تو منتخب حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہوئیں۔ مسلح افواج نے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کا عہد کیا۔ قبائلی علاقوں، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو تباہ کیا گیا۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث بعض مجرموں کو سزائے موت دی گئی جس سے دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آئی۔ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقے مسلسل دہشت گردی کا شکار رہے مگر ملک کے باقی حصوں میں امن قائم ہوا۔
نیشنل ایکشن پلان میں بہت سے نکات شامل تھے۔ ان نکات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ایک مربوط نیٹ ورک کا قیام، مذہبی اداروں اور علماء کے لیے ضابطہ اخلاق، ملک میں پڑھائے جانے والے نصاب سے انتہا پسندانہ مواد کا اخراج شامل تھا مگر عرصہ دراز تک انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ایک مربوط نیٹ ورک قائم نہ ہوسکا۔ برسر اقتدار حکومتوں کے اہلکار نیشنل ایکشن پلان کے اس فیصلہ پر عملدرآمد میں رکاوٹ کی مختلف تاویلیں پیش کرتے رہے مگر اب بتایا گیا ہے کہ National Intelligence Coordination Committee(N.C.O.C) کا قیام شامل ہے۔
یہ ایک امید افزاء خبر ہے۔ اب NCOC کا دہشت گردوں کے عزائم کو روکنے میں کردار ابھر کر سامنے آنا چاہیے۔ ملک میں اسلحہ گولہ بارود کی فراوانی ہے مگر ملک کے کسی بھی حصے میں غیر قانونی ہتھیار اور گولہ بارود بنانے والے کیمیکلز وغیرہ آسانی سے دستیاب ہوجاتے ہیں۔ ہر حکومت دعوی کرتی ہے کہ اسلحے کی فراہمی کو روکنے کے لیے حتمی اقدامات کیے گئے ہیں مگر پھر کوئی دھماکہ ان کے دعوؤں کی دھجیاں اڑادیتا ہے۔ دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اسلحہ زیادہ تر افغانستان کے راستہ قبائلی علاقوں میں آتا ہے۔
قبائلی علاقوں میں ہتھیار بنانے کے کارخانے ہیں۔ دنیا کا جدید ترین اسلحہ آسانی سے اسمگل ہوتا ہے۔ اس کاروبار میں قبائلی سردار، بڑے پیر، سیاسی رہنما اور بعض سرکاری افسران ملوث ہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رابطہ کمیٹی کے افسران کو بہت پہلے اسلحہ اورگولہ بارود کی اسمگلنگ کے خاتمہ کی حکمت عملی تیار کرلینی چاہیے تھی۔ امریکا اور یورپی ممالک نے اب ہر جگہ بندوق بردار سپاہیوں کو تعینات کرنے کے بجائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید طریقوں پر عملدرآمد کیا ہے، یوں برطانیہ اور یورپی ممالک میں غیر قانونی اسلحہ ناپید ہے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والی تمام ایجنسیاں ایک کمانڈ میں فرائض انجام دیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعہ پاکستان کی سرحد میں داخل ہونے والی ہر گاڑی پر نظر رکھی جائے۔ قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں موجود اسلحے کے اسمگلروں کو گرفتار کیا جائے۔ اسلحہ کے ڈیلروں پر کڑی نظر رکھی جائے اور پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اﷲ بابر نے اسلحہ کی فراہمی کو روکنے کی جو حکمت عملی استعمال کی تھی، اس حکمت عملی کو اپ ڈیٹ کر کے بلاتفریق استعمال کیا جائے۔
ان غیر ریاستی اداکاروں Non-State Actors کو ایکسپوز کیا جائے جو ماضی میں کسی نہ کسی طرح دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ ملک بھر کی پولیس کے ریکارڈ میں ان عناصر کے بارے میں تفصیلات موجود ہونگی۔ حکومت کو ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے کہ دہشت گردی کا پرچار کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے والے عناصر تنہا ہوجائیں۔ اس کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تمام آپریشن غیر جانبدارانہ ہوں، کسی بھی اقدام سے سیاسی انتقام کی بو نہ آئے۔
یورپی ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ محض سڑکوں کو بند کرکے اور عمارتوں کے گرد رکاوٹیں کھڑی کر کے اور نفری تعینات کرنے سے ممکن نہیں ہے۔ دہشت گردوں کو ان کی پناہ گاہوں میں ہی تنہا کرنا تاکہ وہ اپنے عزائم کو عملی شکل کا روپ نہ دے سکیں، یہی دراصل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیابی سمجھی جانی چاہیے۔ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید طریقوں کو استعمال کرکے حقیقی مجرموں تک پہنچا جاسکتا ہے۔
افغانستان میں خانہ جنگی کے اثرات پاکستان میں پہنچنے والے ہیں۔ لاہورکا دھماکہ خطرہ کی گھنٹی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ابھی سے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ جوہر ٹاؤن کے بعد کہیں بھی دھماکہ نہ ہو۔