غربت، افلاس اور جہالت ہی قوموں کی پسماندگی کی بنیادی وجوہات بتائی جاتی ہیں، جو قومیں ان اسباب کا مسلسل شکار رہتی ہیں وہ استعماری طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں، یوں نوآبادیات قائم ہوتی ہیں۔
اس موضوع پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین تعلیم حاصل نہیں کریں گی اور زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ شامل نہیں ہونگی غربت و افلاس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔
یورپ میں صنعتی انقلاب سے پہلے غربت انتہائی گہری تھی۔ آبادی کا بیشتر حصہ زراعت سے متعلق تھا، جہاں جاگیردار محض کسانوں کو زندہ رہنے کے لیے اناج اور دیگر ضروریات فراہم کرتا تھا۔ روایات مردوں سے زیادہ عورتوں کو مفلوک الحال رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی تھیں۔ صنعتی انقلاب شروع ہوتے ہی خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح بڑھی، یہ خواندہ خواتین ملوں میں کام کرتی تھیں مگر ان کے ساتھ مردوں سے زیادہ برا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔
ان خواتین سے 13 سے 14گھنٹے کام لینے کے علاوہ کم اجرت اور کوئی مراعات نہیں ملتی تھیں۔ جب مردوں میں اپنے حقوق کے لیے ٹریڈ یونین کا شعور پیدا ہوا تو برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں اجتماعی جدوجہد شروع ہوئی۔ اس جدوجہد میں خواتین بھی شریک تھیں، یوں 1886میں شکاگو میں مزدوروں کی جدوجہد کو ریاستی مشینری سے کچلنے کی کوشش کی مگر 8 گھنٹے کام 8گھنٹے آرام 8گھنٹے تفریح کا اصول دنیا میں نافذ ہوا مگر خواتین کو مردوں کے برابر اجرت اور دیگر مراعات کا معاملہ حل نہ ہوسکا، یوں یورپ میں خواتین مزدوروں نے طویل جدوجہد کی۔
عظیم فلسفی کارل مارکس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مزدوروں کے استحصال کا خاتمہ، سوشلسٹ نظام کے قیام میں مضمر ہے۔ روس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی سوشل ازم کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے نتیجہ میں اکتوبر 1917میں پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین قائم ہوئی۔ سوویت یونین کے آئین میں ہر قسم کے استحصال کے خاتمہ کا عہد کیا اور خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کی شق شامل کی گئی۔ سوویت یونین نے جو حیرت انگیز ترقی کی اس کی ایک بڑی وجہ خواتین کی زندگی کے ہر شعبے میں برابری کی بنیاد پر شرکت تھی۔
پہلی دفعہ سوویت یونین میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ ہوا۔ بعد میں اقوام متحدہ نے 8مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن طے کردیا۔ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کے زبردست حامی تھے۔ جب برطانوی ہند حکومت نے کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون بنایا تو ہندو انتہاپسند مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مسلمان علماء نے بھی اس کی شدید مخالفت کی۔ (یہ مخالفت آج بھی جاری ہے)۔ مگر بیرسٹر محمد علی جناح ہندوستان کے واحد رہنما تھے جنہوں نے اس قانون کی بھرپور حمایت کی۔ انھوں نے جب رتی سے شادی کی تو رتی کو مکمل آزادی دی۔
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ رتی بمبئی میں جدید مغربی لباس زیب تن کرنے والی خواتین میں اول درجہ پر تھیں۔ بیرسٹر محمد علی جناح نے رتی کو اپنی سیاسی زندگی میں برابر شریک کیا اور مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کروائی اور بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر مسٹر ہیئرمین کے ہندوستان بدری کے خلاف بمبئی میں نکالے جانے والے احتجاجی جلسوں میں جناح کا ہاتھ تھامے شریک رہیں۔ بیرسٹر جناح نے رتی سے علیحدگی کے بعد اپنی ہمشیرہ کو ہم رکاب رکھا۔
یہ بانی پاکستان کی ہی تربیت تھی کہ فاطمہ جناح نے پہلے آمر جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کیا تھا۔ خواتین کی مردوں کے برابری کا تصور تو بیرسٹر جناح کے خیالات کی بناء پر آیا، یوں خواتین کی جدوجہد کی بناء پر جنرل ایوب خان نے عائلی قوانین نافذ کیے۔ ان قوانین کے تحت شادی اور طلاق کو باقاعدہ دستاویزی شکل دی گئی اور مرد کی دوسری شادی کو مشروط کیا گیا مگر خواتین کی منظم جدوجہد 80ء کی دہائی میں ہوئی جب جنرل ضیاء الحق نے بعض متنازعہ قوانین نافذ کیے اور خواتین کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی وغیرہ نے مال روڈ لاہور پر پولیس کی لاٹھیاں کھائیں اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کراچی کی وومن ایکشن فورم نے مسلسل احتجاج کیا، خواتین کی اس جدوجہد کے نتیجہ میں جمہوری اداروں میں کئی اچھے قوانین بنائے گئے۔
خواتین کو ملازمتوں میں کوٹہ دیا گیا اور انھیں ملازمتوں کے مواقعے حاصل ہوئے مگر نئی صدی میں ریاست کی ایماء پر مذہبی انتہاپسندی کو عروج حاصل ہوا۔ اس انتہاپسندی نے خواتین کو براہِ راست نشانہ بنایا۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کے اسکولوں اور کالجوں کو تباہ کرنے، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں خواتین کو ووٹ دینے سے روکنے کے لیے جرگے منعقد ہونے لگے۔ کاروکاری، پسند کی شادی پر قدغن اور خواتین کے کھیلوں کے انعقاد پر اعتراضات ہونے لگے۔
پوری دنیا کی طرح خواتین کا عالمی دن پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے۔ پہلے یہ دن تعلیمی اداروں اور سرکاری اداروں میں رسمی تقاریب تک محدود تھا مگر اب کراچی، حیدرآباد، ملتان، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور دیگر شہروں میں باشعور نوجوان خواتین نے اس دن کو عوامی تہوار میں تبدیل کردیا ہے۔ اب نوجوان لڑکیاں اور محنت کش خواتین اس دن کی تقاریب میں زیادہ سے زیادہ شرکت کرنے لگیں۔
گزشتہ برس عالمی یوم خواتین سے پہلے ہی ملک بھر میں ایک مہم شروع ہوگئی۔ اس مہم کا نشانہ تقاریب کو ترتیب دینے والی خواتین تھیں۔ گزشتہ سال زیادہ خواتین نے ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے جلسوں اور جلوسوں میں حصہ لیا، خواتین نے جو بینر اٹھائے ہوئے تھے ان بینرز پر اعتراضات ہوئے۔ ایک بینر "میرا جسم میری مرضی" کو محض جنسی معاملہ سمجھا گیا۔ اس بینر میں اپنے جسم پر مکمل حق کا مطالبہ کیا گیا۔
اس نعرہ کا بنیادی مقصد عورت کو تعلیم، علاج، اپنی پسند کے پروفیشن اور پسند کی شادی کے حق کے بارے میں آگہی دینا ہے۔ اس نعرہ کے بارے میں سوشل میڈیا پر دلائل پیش کیے گئے۔ جو دلائل دیے گئے وہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری کو روکنے کے لیے بعض رجعت پسندوں نے دیے تھے۔ اس سال پہلے وہی صورتحال ہوئی۔
لہرائے جانے والے پرچم کو فرانس کا پرچم قرار دیا گیا اور خواتین کے مختلف نعروں میں تحریف کر کے ایک وڈیو فیس بک پر اپ لوڈ کی گئی اور اس وڈیو کی بنیاد پر بعض عناصر نے مارچ منظم کرنے والی خواتین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ خواتین کی آزادی اور زندگی کے ہرشعبہ میں برابر کی نمائندگی کا مطالبے کرنے والی خواتین بانی پاکستان کے بنائے ہوئے راستے پر عمل کررہی ہیں۔ خواتین میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا شعور بڑھا ہے۔
آج پاکستانی خواتین ہر سطح پر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کررہی ہیں۔ جب تک خواتین کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے، خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہونگی تو غربت و افلاس کا خاتمہ نہیں ہوگا اور ملک ترقی نہیں کرے گا۔ ہر باشعور فرد کو مارچ منظم کرنے والی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکرنا چاہیے۔