لاہور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کے تناظر میں دنیا کے بڑے شہروں کی صف میں شامل ہوچکاہے۔ لاہور میں اورنج ٹرین آزمائشی طور پر چلائی گئی، اب یہ باقاعدہ طور پر چلنے لگے گی۔ اورنج ٹرین میاں شہباز شریف کا کارنامہ ہے۔ مئی 2008 میں حکومت پاکستان اور چین کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے تھے۔
جس کے تحت اس کی تعمیر شروع ہوئی۔ اورنج ٹرین 25.4 کلومیٹر کے علاقے کو کور کرے گی اور روزانہ ہزاروں مسافر اس جدید ٹرین سے سفرکریں گے۔ یہ منصوبہ چین اور پاکستان کے اقتصادی راہداری سی پیک کا ایک کامیاب منصوبہ ہے۔ شہباز شریف نے اس سے پہلے لاہور میں میٹرو بس چلائی تھی۔ بس سے لاکھوں غریب لوگوں کو سفرکرنے کی جدید سہولتیں ملنے لگی تھیں۔
ذرایع ابلاغ پر دستیاب مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اورنج ٹرین کے ابتدائی منصوبہ سے لاہورکے آثار قدیمہ کو شدید خطرات لاحق تھے۔ انسانی حقوق اور آزادئ صحافت کے تحفظ کے ساتھ انسانی تہذیب کے سرمایہ آثار قدیمہ کے تحفظ کے لیے سرگرداں سینئر صحافی آئی اے رحمن اور ان کے ساتھوں نے لاہو ر ہائی کورٹ میں یہ عرض داشت دائر کی تھی۔ پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں طے ہوا، یوں 14 ماہ کے عرصہ میں لاہور کے ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک جامع فیصلہ آیا اور اورنج ٹرین کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔
تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان انتخابی مہم میں ان منصوبوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ان کا استدلال رہا ہے کہ عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اتنی خطیر رقم خرچ نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے اپنے جلسوں میں بار بار فرمایا کہ یہ رقم تعلیم اور صحت کی سہولتوں پر خرچ ہونی چاہیے۔
وہ آج کل ان منصوبوں کو لاہور میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ قرار دیتے ہیں، مگر تحریک انصاف کی حکومت نے 2013 میں پشاور میں بی آر ٹی منصوبہ شروع کیا، جو اپنی منصوبہ بندی کے اعتبار سے نا کام ثابت ہوا۔ 2019 میں بھی یہ منصوبہ مکمل نہ ہوا۔ ایف آئی اے اس منصوبے میں بدعنوانیوں کی تحقیقات کرنا چاہتا ہے مگر خیبر پختون خوا کی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ میں عرض داشت دائرکی ہے کہ ایف آئی اے کو اس تحقیقات سے روکا جائے مگر پشاور ہائیکورٹ نے یہ عرض داشت مسترد کردی۔ ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کی عجیب داستان ہے۔ کراچی میں کبھی عام آدمی کے لیے ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ انگریزوں نے شہر میں ٹرام چلائی۔
کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں صرف کلکتہ، بمبئی اور کراچی میں ٹرام چلتی تھی۔ کراچی کی سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بس ایک زمانے میں رواں دواں تھی۔ صنعتی ترقی کے ساتھ شہر میں نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے سرکلر ریلوے کا منصوبہ شروع کیا۔ سرکلر ریلوے ایک طرف کیماڑی سے چلتی تھی۔ سٹی اسٹیشن کے مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہوجاتی تھی اور پپری تک جاتی تھی۔ یہ سرکلر ریلوے سٹی اسٹیشن سے وزیر منشن سے سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہرکے قریب سے گزرتی ہوئی ڈرگ روڈ اسٹیشن پر مرکزی ریلوے لائن سے مل جاتی تھی۔
پروفیسر سعید عثمانی جو طالب علمی کے دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کی سیاست سے منسلک رہے کہتے ہیں کہ کیماڑی سے سفر کے لیے سرکلر ریلوے بہترین سواری تھی۔ سرکلر ریلوے سٹی اسٹیشن سے 45 منٹ کا دورانیہ عبور کر کے لانڈھی اسٹیشن جا پہنچتی تھی۔ یوں لانڈھی، ملیر اور ڈرگ کالونی کے مکینوں کے لیے سرکلر ریلوے کینٹ اور سٹی اسٹیشن تک پہنچنے کا سستا اور تیزرفتار ذریعہ تھی، مگر ٹرانسپورٹ مافیا مضبوط ہونا شروع ہوئی۔ ریلوے کے کرپٹ افسروں کو سوغات سے نوازا جانے لگا۔ سرکلر ریلوے کے ڈبوں سے بلب غائب ہوگئے۔ سیٹوں کی صفائی کا معاملہ التواء کا شکار ہوا اور روزانہ ریل کے انجن خراب ہونے لگے۔
مسافروں کا سرکلر ریلوے پر اعتماد مجروح ہونے لگا۔ اس کے ساتھ شہر میں چھوٹی منی بسیں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر چلنے لگیں۔ ان منی بسوں میں مسافر مرغا بن کر سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ ڈرائیور اورکنڈیکٹر خاص طور پر خواتین کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کرتے۔
ذوالفقار علی بھٹو حکومت کی بیوروکریسی نے ایک عجیب وغریب رائے دی کہ ٹرام سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بجلی کی ٹرام چلنے لگی مگر بیوروکریسی کے مؤقف نے عوامی مفاد پر بالادستی حاصل کرلی اور ٹرام سروس بند ہوگئی۔ سرکاری شعبہ میں پہلے سندھ ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم ہوئی۔
کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم ہوئی۔ سویڈن سے بڑی بسوں کا تحفہ ملا۔ یہ بسیں ایئرکنڈیشن تھیں اور پبلک ایڈریس سسٹم کے ساتھ لیس تھیں، مگر بسوں سے ایئرکنڈیشن نکال لیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ڈبل ڈیکر بسیں ختم کردی گئیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں یہ دونوں کارپوریشنیں بند ہوگئیں۔ ایوب خان کے دور میں ماس ٹرانزٹ منصوبہ کی بازگشت سنائی دی۔ کراچی کے ترقیاتی ادارہ کے ڈی اے میں اس کا ایک دفتر قائم ہوا۔ بھٹو حکومت میں بھی اس پر کاغذی کارروائی ہوئی۔ وزیر اعظم بے نظیربھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اس منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ پھر یہ منصوبہ کہیں فائلوں میں کھوگیا۔
(جاری ہے )