کراچی میں امن وامان کی صورتحال خراب ہوئی تو پبلک ٹرانسپورٹ کا شعبہ براہ راست متاثر ہوا۔ نجی شعبہ نے اس شعبے میں سرمایہ کاری سے گریزکرنا شروع کیا۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ناظم کراچی نعمت اﷲ خان نے شہر میں بڑی بسوں کو چلانے پر توجہ دی۔
بینکوں نے نجی شعبہ کو لیزنگ پر قرضے دئیے۔ شہر میں رنگ برنگی بسیں چلنے لگیں۔ مسافروں کو خاصی سہولت حاصل ہوئی مگر نعمت اﷲ خان کے رخصت ہوتے ہی بسیں کہاں گئیں۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہ مالکان امن و امان کی بناء پر ان بسوں کو پنجاب لے گئے۔
کچھ مالکان نے بینکوں کی قسطیں ادا نہیں کیں، یوں یہ بسیں ضبط ہوگئیں۔ پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے پروفیسر نعمت اللہ خان نے سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کی کوشش کی مگر بیوروکریسی نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ گورنر عشرت العباد نے سرکلر ریلوے کی بحالی کا عزم کیا، مگر سرکلر ریلوے صرف ڈرگ روڈ تک چلی۔ چند ماہ بعد بند ہوگئی۔
گورنر عشرت العباد ایم کیو ایم کے چائنا کٹنگ کے طریقے سے سرکلر ریلوے کی پٹریوں پر ہونے والی تعمیرات کو منہدم کرنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے تھے، 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ آصف علی زرداری ملک کے صدر تھے۔ صدر زرداری کا ویسے تو تعلق نواب شاہ سے ہے مگر ان کی زندگی کا بڑا حصہ کراچی میں گزرا ہے۔ انھوں نے چین کے کتنے دورے کیے اس کی گنتی کرنا مشکل ہے مگر انھوں نے کبھی کراچی کے اس اہم مسئلہ پر چین کی مدد لینے کے بارے میں نہیں سوچا۔
2013میں وزیر اعظم نواز شریف نے چین سے سی پیک کا معاہدہ کیا۔ ذرائع ابلاغ پر یہ خبریں شائع ہوئیں کہ لاہورکی اورنج ٹرین کے علاوہ کراچی کے سرکلر ریلوے بھی اس منصوبہ کا حصہ ہے۔ لاہور میں میٹرو بس کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد اورنج ٹرین کا منصوبہ شروع ہوا مگر کراچی سرکلر ریلوے پر خاموشی رہی۔
2018 کے عام انتخابات سے قبل اس وقت کے ٹرانسپورٹ کے وزیر سید ناصر شاہ نے کراچی کے شہریوں کو خوش خبری سنائی کہ سندھ حکومت کراچی میں 10 نئی بسیں چلا رہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں گرین لائن بس منصوبہ کا افتتاح کیا۔
یہ منصوبہ بڑا بورڈ سے گرومندر تک تھا۔ اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے وزیر اعظم سے کہا کہ اس منصوبہ کی ٹاور تک توسیع کردی جائے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فلک شگاف انداز میں قائم علی شاہ کی اس تجویز کو منظور فرمایا، یوں اورنج لائن منصوبہ شروع ہوا مگرکئی سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ شہر کی اہم ترین سڑک ایم اے جناح روڈ گزشتہ دو برسوں سے بند ہے۔ اب اعلان ہوا ہے کہ منصوبہ اگلے سال اگست تک مکمل ہوگا۔ مگر ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ اس ٹریک پر چلنے کے لے بسیں وفاقی حکومت فراہم کرے گی یا حکومت سندھ کو یہ فریضہ انجام دینا پڑے گا۔
سپریم کورٹ نے چند ماہ قبل یہ حکم دیا کہ سرکلر ریلوے کی پٹری پر قائم تجاوزات کو دو ماہ میں ختم کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشینری سے یہ مشکل کام انجام کو پہنچایا۔ جب وزیر اعظم عمران خان چین گئے تو وزیر ریلوے شیخ رشید ان کے ساتھ تھے، یوں کراچی سے پشاور تک ایم ون ریلوے لائن کی تعمیرکا معاملہ طے ہوا مگر سرکلر ریلوے کے نام پر سرمایہ کاری کا معاملہ اس ملاقات کے ایجنڈا میں شامل نہیں تھا۔ حکومت سندھ نے اعتراض کیا کہ سٹی اسٹیشن سے پپری تک مرکزی ریلوے لائن کو ریل کے اس منصوبہ میں شامل نہ کیا جائے۔
اس ریلوے لائن کو سرکلر ریلوے کے لیے استعمال کے لے مختص کیا جائے۔ شیخ رشید نے فرمایا کہ سرکلر ریلوے چلانا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔ سندھ حکومت کا استدلال ہے کہ ریلوے کا تمام انفرا اسٹرکچر وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ اس صوتحال میں لینڈ مافیا نے خالی کی ہوئی جگہ پر دوبارہ تعمیرات شروع کر دیں۔ امجد بھٹی صوبائی خود مختاری کے زبردست حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد فیڈرل لیجسلیٹو فہرست پارٹ ۲ (Federal Legislative List Part 2) کے تحت ریلو ے کی وزارت میں مشترکہ مفاد کونسل کے دائرے میں آتی ہے۔ اس لیے حکومت سندھ سرکلر ریلوے شروع کرسکتی ہے۔ حکومت سندھ زیادہ اہم کام سرانجام دے رہی ہے، سرکلر ریلوے اس کے ایجنڈے میں نہیں ہے۔
کراچی والوں کے پبلک ٹرانسپورٹ کے تناظر میں پسماندگی ختم ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے مگر لاہورکے شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی جدید سہولت ملنا خوش آئند ہے۔ لاہور کے شہریوں کو مبارکباد۔