مسروراحسن سوشل ازم پر یقین رکھنے والے سیاسی کارکن ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا خاصہ حصہ مسلسل جدوجہد، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور اپنی پارٹی میں زیرِ عتاب رہتے ہوئے گزارا مگر ان کا69 سال کی عمر میں جذبہ جوان ہے، وہ آج بھی پیپلز پارٹی کو سماجی انصاف کی فراہمی، استحصال کے خاتمہ اور عوامی امنگوں کا استعارہ سمجھتے ہیں اور ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی کو نچلی سطح تک منظم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کا تعلق نچلے متوسط طبقہ سے ہے، انھوں نے گورنمنٹ پرائمری اسکول ناظم آباد میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، یہ ایوب خان کی آمریت کا دور تھا۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) متحد تھی۔ طلبہ کے حقوق کے ساتھ ساتھ ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد کررہی تھی۔ مسرور احسن کے ماموں امیر حیدرکاظمی این ایس ایف کے فعال رہنماؤں میں شامل تھے۔
این ایس ایف ایوب خان کی نئی تعلیمی پالیسی کے خلاف بھرپور مہم چلا رہی تھی۔ اس پالیسی کے تحت تین سالہ ڈگری کورس نافذ کیا گیا تھا۔ این ایس ایف کے 12 رہنماؤں کو اس تحریک کو منظم کرنے کے جرم میں شہر بدرکیا گیا تھا، ان رہنماؤں میں امیر حیدرکاظمی بھی شامل تھے۔ مسرور احسن کی والدہ امیر کاظمی کی بڑی بہن تھیں، یوں کاظمی کے شہر بدر ہونے کا اثر ان کے گھر پر پڑا۔ ممکن ہے کہ مسرور احسن کے والدین کو امیر حیدر کاظمی کے مستقبل پر تشویش پیدا ہوئی ہو مگر نوجوان کو اپنے ماموں کی جدوجہد متاثر کرنے لگی۔
امیر حیدر کاظمی این ایس ایف کے اہم رہنماؤں میں تھے۔ وہ بار بار گرفتار ہوتے، کبھی تھانے میں بند کیے جاتے، کبھی مقدمہ چلتا اور کبھی جیل بھیج دیے جاتے۔ اب نوجوان مسرورکی یہ ذمے داری تھی کہ وہ تھانے اور سینٹرل جیل کراچی کے چکرکاٹتے اور جب کاظمی صاحب کی عدالت کے سامنے پیشی ہوتی تو والدہ بیٹے کی انگلی پکڑ کر بھائی سے ملنے جاتی۔ ماموں اور ان کے ساتھیوں کو ہتھکڑیاں لگی ہوتیں مگر یہ سب مسکرارہے ہوتے۔ والدہ پریشان ہوتی مگر مسرور احسن کے دل میں ایوب حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہوتی چلی گئی۔
کاظمی کے دوستوں جن میں معراج محمد خان اور علی مختار رضوی شامل تھے کی باتیں سنتے، یوں ایک طرح سے ان میں سیاسی سوجھ بوجھ پیدا ہونے لگی۔ مسرور احسن نے چھٹی جماعت میں گورنمنٹ ہائی اسکول فردوس کالونی میں داخلہ کیا اور اسی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسکول میں طلبہ کے مسائل کے لیے آواز اٹھانا شروع کی اور پھر این ایس ایف کے کارکنوں راشد تقی، محمد احمد کاتب، وصی الدین اور مجاہد بریلوی سے ملاقات ہوئی اور مسرور احسن اب این ایس ایف کے رکن ہوگئے۔
کمیونسٹ پارٹی کے سابق رہنما انیس ہاشمی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ناظم آباد سے متصل فردوس کالونی میں گزارا۔ ناظم آباد چورنگی پر سوشلسٹ فورم کا دفتر تھا۔ اس دفتر میں دانشور، صحافی اور سیاسی کارکن جمع ہوتے اور سیاسی امور پرکھل کر تبادلہ خیال ہوتا۔ مسرور سوشلسٹ فورم کے دفتر جانے لگے۔ اس دفتر میں نیشنل عوامی پارٹی کے سرگرم کارکن ہادی نقوی اور این ایس ایف کے رہنما انیس باقر بھی موجود ہوتے تھے۔
مسرور احسن ان صاحبان کے دوست ہوگئے، یوں بائیں بازو کے کارکنوں کا دائرہ بڑھنے لگا، میٹرک کر کے عبداﷲ کالج میں داخل ہوئے۔ اب نوجوان مسرور احسن کی صلاحیتیں ایک ایکٹیوسٹ کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آنے لگی۔ اس زمانہ میں عبداﷲ کالج نجی شعبہ میں تھا۔ یوں زیادہ فیس اور کم سہولتیں کالجوں کی روایات تھیں۔ انھوں نے طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائی اور انھیں اپنے ضمیر کے مطابق عمل کرنے پر پہلی دفعہ سزا ملی اور عبداﷲ کالج سے نکال دیا گیا، وہ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں داخل ہوگئے۔
گورنمنٹ کالج ناظم آباد این ایس ایف کا سب سے مضبوط مرکز تھا۔ اسی زمانے میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ ایک کے رشید حسن خان اور دوسرے کے صدر امیر حیدر کاظمی تھے۔ مسرور احسن این ایس ایف کاظمی گروپ میں متحرک ہوئے۔ این ایس ایف کا سالانہ کنونشن ہوا۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر کے ایچ خورشید نے اس کنونشن کی صدارت کی۔ مسرور احسن نے اس کنونشن میں اسکولوں کے مسائل پر قرارداد پیش کی۔
بھٹو حکومت کا دور آیا۔ گورنمنٹ کالج کے طلبہ نے ان کو انجمن طلبہ کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا۔ مسرور احسن اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ڈیفنس پاکستان رولز DPR کے تحت مقدمات بنے، وہ بار بار گرفتار ہوئے۔ جیل میں مزدور رہنما عثمان بلوچ، علی مختار رضوی، یاور خان، ڈاکٹر اعزاز نذیر اور جاوید شکور جیسے رہنماؤں کی سنگت میں وقت گزارا۔
وزیر اعظم بھٹو نے ناظم آباد میں کھلی کچہری لگائی۔ اس کچہری میں گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے طلبہ نے مسرور کی رہائی کے لیے نعرے لگائے۔ بھٹو صاحب نے طلبہ کا مطالبہ منظور کرلیا اور مسرور احسن کی رہائی کے احکامات جاری کردیے۔ مسرور احسن نے بی ایس سی اور ایل ایل بی کے امتحانات جیل میں پاس کیے، پھر وکالت شروع کردی اور وہ 1976 میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔
1977میں عام انتخابات ہوئے، پیپلز پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ پی این اے نے تحریک چلائی۔ یہ تحریک پرتشدد ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو زندہ جلایا گیا، مارشل لاء لگا گیا۔ ضیاء الحق نے 90 دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے لیاقت آباد سے مسرور احسن کو قومی اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا۔ ان کا مقابلہ پی این اے کے سیکریٹری جنر ل پروفیسر غفور سے تھا۔ لیاقت آباد پی این اے کی تحریک کا مرکز تھا مگر مسرور احسن نے جرات کا مظاہرہ کیا اور لیاقت آباد میں جلسے کرنے شروع کیے۔
جنرل ضیاء الحق نے انتخابات ملتوی کیے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور میں محمد قصوری قتل کیس میں مقدمہ کا آغاز ہوا۔ پیپلز پارٹی کے بڑے قائدین پردہ سیمی سے لاپتہ ہوئے۔ بیگم نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ مسرور احسن پیپلز پارٹی کے چند افراد میں شامل تھے جنھوں نے ضیاء الحق کے خلاف عملی مزاحمت منظم کرنے میں عملی کردار ادا کیا۔ ضیاء الحق کے خلاف تقریر کرنے پر ایک سال قید اور 15کوڑوں کی سزا ہوئی۔ سزا پوری ہونے پر نظربند کردیے گئے۔
سندھ ہائی کورٹ میں شفیع سیاسی ایڈووکیٹ نے رٹ دائر کی۔ مسرور احسن ہائی کورٹ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ برنس روڈ بس کیس میں ملوث کیے گئے اور خفیہ سیاسی میٹنگ میں شرکت کرتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ پی آئی اے کا طیارہ اغواء ہوا اور ہائی جیکروں کے مطالبہ پر دمشق بھیج دیے گئے، وہاں میر مرتضی بھٹو سے ملاقات ہوئی اور مسرور مرتضی بھٹو کی جرات کے اسیر ہوئے۔ مگر مسرور احسن کو کچھ عرصہ بعد دبئی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا اور لاہور کے شاہی قلعہ منتقل کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں رہا ہوئے۔
ایک لسانی تنظیم کے فاش ازم نے ان کے ساتھیوں کو قتل کیا، وہ جام صادق دور میں گرفتار ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے مسرور احسن کو سینیٹر کا ٹکٹ دیا اور وہ سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ پاکستان کی سینیٹ کی تاریخ میں مسرور احسن وہ واحد سینیٹر ہیں جو کسی نامعلوم فرد کی عرضداشت پر ایک متنازعہ اسٹے آرڈر کی بناء پر حلف نہ اٹھاسکے۔
مسرور احسن جمہوری اصولوں کی بالا دستی کے امین ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ 12سال کے اقتدارمیں پارٹی قیادت سے دور رہے مگر مسرور احسن بلدیہ ٹاؤن کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں متحرک ہوئے اور پیپلز پارٹی اس حلقہ سے کامیاب ہوئی۔ مسرور اپنے ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ہی عوام کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کی علامت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسرور احسن کے خوابوں کی تعبیر ہوگی؟