Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mehez Dhakosla

Mehez Dhakosla

تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے پارلیمنٹرین منتخب اداروں سے عوام کے حقوق کی پامالی کی کوشش کر رہے ہیں۔

پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ میں تحریک انصاف کے اراکین نے سینیٹ کی اطلاعات کے بارے میں ذیلی کمیٹی میں ایک قانون کا مسودہ پیش کیا ہے۔ اس مسودہ میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کو اطلاعات کے حصول The right to access to information کے قانون مجریہ 2020 میں ترمیم کی جائے تاکہ منتخب ادارے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے بارے میں عوام کے جاننے کے حق کی تنسیخ ہوجائے۔

دستیاب اطلاعات کے مطابق ایک شہری مختار حسن نے اطلاعات کے حصول کے قانون کے تحت سینیٹ کے چیئرمین سے استدعا کی تھی۔ سینیٹ میں گریڈ 1 سے گریڈ 22 تک منظور شدہ مختلف نوعیت کی آسامیوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ درخواست گزار نے یہ استدعا کی کہ یکم جنوری 2017 سے جو نئی آسامیاں تخلیق کی گئی ہیں ان کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں اور جو افراد سینیٹ سیکریٹریٹ میں مختلف کیٹیگریز میں ڈیلی ویجز پر خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی تفصیلات بھی مہیا کی جائیں۔ سینیٹ سیکریٹریٹ نے درخواست گزار کی استدعا پر توجہ نہ دی۔ درخواست گزار نے ان معلومات کے حصول کے لیے پاکستان انفارمیشن کمیشن سے رجوع کیا۔

(پاکستان انفارمیشن کمیشن کا قانون سینیٹ اور قومی اسمبلی کی منظوری سے بناہے۔) سینیٹ سیکریٹریٹ کو کئی بار نوٹس بھیجے کہ ان معلومات کے بارے میں سینیٹ کے چیئرمین کا مؤقف فراہم کیا جائے مگر سینیٹ سیکریٹریٹ نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے نوٹس کو قابلِ غور نہ جانا۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے درخواست گزار کو یہ معلومات فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے اور سیکریٹریٹ کو ہدایت کی کہ سینیٹ کے چیئرمین کمیشن کے اس فیصلہ کے خلاف قانون میں دیے گئے فورم میں اپیل دائر کریں مگر سیکریٹریٹ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے منتخب چیئرمین نے سینیٹ کے بارے میں تمام معلومات کو خفیہ (Classifier) قرار دیدیا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کے اس اقدام کا مطلب برطانوی ہند دور میں نافذ ہونے والا خفیہ اطلاعات کو افشاں کرنے کے قانون کا دائرہ سینیٹ تک بڑھ جائے گا۔

اسلام آباد کے صحافی رانا ابرار خالد نے وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے استدعا کی تھی کہ وزیر اعظم کو ملنے والے غیر ملکی تحائف کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ نے یہ اطلاعات فراہم نہیں کیں رانا ابرار خالد کی استدعا پر انفارمیشن کمیشن نے وزیر اعظم سیکریٹریٹ کو یہ معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا مگر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کمیشن کے فیصلہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ مسلم لیگ کے رہنما ممنون حسین 2013سے 2018 تک ملک کے صدر رہے۔

اس وقت وفاق میں اطلاعات کے حصول کا ایک کمزور قانون نافذ تھا۔ ایک شہری نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے استدعا کی کہ اراکین قومی اسمبلی کی حاضری کا ریکارڈ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر آویزاں کیا جائے۔ اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکرسردار ایاز صادق تھے۔ ان کی ہدایت پر سیکریٹریٹ نے قومی اسمبلی کے اراکین کی حاضری کا ریکارڈ عوام کے سامنے پیش کرنے سے انکارکیا۔ اس وقت کے قانون کے تحت قائم انفارمیشن کمیشن کے سربراہ نے یہ اطلاعات ویب سائٹ پر آویزاں کرنے کا حکم دیا مگر قومی اسمبلی نے قانون کے مطابق انفارمیشن کمیشن کے فیصلہ کو وفاقی محتسب کے سامنے پیش کیا اور وفاقی محتسب کے فیصلہ کے خلاف صدرِ پاکستان کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔

صدر ممنون حسین نے یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ عوام قومی اسمبلی کے اراکین کو منتخب کرتے ہیں اور قومی اسمبلی کے ارکان کو اجلاس میں شرکت پر الاؤنس ملتا ہے اور اجلاس میں شرکت کے لیے آنے کے لیے مفت سفری سہولتیں ملتی ہیں، یوں عوام کے ٹیکسوں کے پیسہ سے منتخب ادارہ کام کرتا ہے۔ اس بناء پر ضروری ہے کہ عوام کو اپنے منتخب نمایندوں کی کارکردگی کے بارے میں جاننے کا حق میسر ہو۔ اس بناء پر منتخب اراکین کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کی تفصیلات قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر آویزاں کرنی چاہئیں۔

جماعت اسلامی کے دانشور پروفیسر خورشید احمد نے پہلی دفعہ اطلاعات کے حصول کے لیے ایک قانون کا مسودہ سینیٹ میں پیش کیا تھا، لیکن سینیٹ اس اہم معاملہ پر توجہ نہ دے سکی۔ 1988کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے منشور میں اس بارے میں قانون سازی کا عندیہ دیا گیا تھا مگر 1997 میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما ملک معراج خالد عبوری وزیر اعظم بنے، کچھ عرصہ جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم وزیر قانون کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انھوں نے اطلاعات کے حصول کا ایک قانون تیار کیا جواس عبوری حکومت کے آخری روز جاری ہوا، مگر میاں نواز شریف کی حکومت نے اس کو قانون کی شکل نہیں دی۔

سابق صدر پرویز مشرف نے 2002 میں ذرایع ابلاغ سے متعلق جو قوانین نافذ کیے تھے ان میں اطلاعات کے حصول کا قانون بھی شامل تھا، یہ ایک انتہائی کمزور قانون تھا۔ 2005 میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت پر اتفاق ہوا جن میں دونوں سربراہان نے عہد کیا کہ جو بھی جماعت برسر اقتدار آئے گی جاننے کے حق کو آئینی تحفظ فراہم کرے گی، یہی وجہ تھی کہ 2010 میں 1973 کے آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی تو آئین کے آرٹیکل 19-A شامل ہوا۔ 2013 میں تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں حکومت بنائی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے منشور پر عملدرآمد کرتے ہوئے اطلاعات کے حصول کا ایک جامع قانون منظورکیا تھا۔

اس قانون کے تحت آزاد انفارمیشن کمیشن قائم ہوا۔ مسلم لیگ ن کے آخری دور میں وفاق میں اس بارے میں جامع قانون سازی ہوئی۔ موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد اس قانون کے تحت ایک آزاد انفارمیشن کمیشن قائم کیا مگر اطلاعات کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا تو مسلم لیگ ن کے ایک سینیٹر نے اس مجوزہ قانون کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ حکومتی وزیر نے بھی اس قانون کی مخالفت کی، یوں حکومت کے دو متضاد رویے سامنے آگئے، مگر اسٹیبلشنمٹ ڈویژن کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل، چیئرمین سینیٹ کے فیصلہ اور چار سینیٹرز کی اس تجویز سے واضح ہوگیا ہے کہ حکومت اس قانون میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی ساری جدوجہد کرپشن کے نقصانات بیان کرتے گزری۔ گزشتہ دنوں پاناما اسکینڈل سے بڑے پنڈورا پیپرزکا انکشاف ہوا جس میں 700پاکستانی شہریوں کی آف شورکمپنیاں بے نقاب ہوئیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس موقعے پرکہا کہ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے ذریعہ بیرون ممالک اثاثے بنانے والوں کی تحقیقات ہوگی۔

کوئی گناہگار بچ نہیں سکے گا۔ ایک طرف تو وزیر اعظم اور ان کے وزراء کرپشن کرنے والے امراء کی مذمت کرتے ہیں، دوسری طرف وزیر اعظم کی حمایت یافتہ پارلیمنٹ میں شفافیت کے لیے معلومات کے حصول پر قدغن لگارہی ہے تو پھر ناقدین کی اس بات میں گہرائی ہے کہ یہ نعرہ محض ڈھکوسلا ہے۔