آزادی مارچ اور دھرنے کا نتیجہ کچھ بھی نکلے مولانا فضل الرحمن نے اپنی طاقت منوالی۔ عالمی منظر نامے میں پھر یہ واضح ہوگیا کہ مذہبی جماعتیں کتنی مضبوط ہیں۔ اس دھرنے کا پہلا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا اور دوسرا پیپلز پارٹی کو پہنچے گا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ حکومت کی مخالفت کی دوڑ میں پیچھے رہ گئیں۔
مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا یہ آزادی مارچ کچھ نئی روایات قائم کرگیا۔ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کا اعلان تقریباً 6 ماہ قبل کیا تھا۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اورحکومت نے مولانا فضل الرحمن کے اعلان کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، مگر مولانا فضل الرحمن کی ہدایت پر جمعیت علماء اسلام نے چاروں صوبوں میں نچلی سطح پر اپنے کارکنوں کو مارچ میں شرکت کے لیے آمادہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں جے یو آئی نچلی سطح تک منظم ہے، جے یو آئی کے کارکنوں نے شہروں اورگاؤں کی مساجد میں کارکنوں اور ہمدردوں کو مارچ میں شرکت کے لیے تیارکرنا شروع کیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومت کی ناقص کارکردگی کی بناء پر بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں عام آدمی مولانا فضل الرحمن کے مارچ کی طرف متوجہ ہوا۔
مولانا فضل الرحمن نے بہت بڑے بڑے جلسے کیے۔ بلوچستان کے پختون علاقے میں ایک زمانے میں محمود اچکزئی کی ملی عوامی پارٹی جے یو آئی کے لیے چیلنج تھی۔ محمود اچکزئی نے اس دفعہ مولانا فضل الرحمن کی غیر مشروط حمایت کی، یوں اس علاقے سے خاصے افراد مارچ میں شرکت پر آمادہ ہوئے۔ مولانا شیرانی، حافظ حسین احمد بلوچ ہیں۔ یوں بلوچوں کو بھی اس مارچ کی طرف متوجہ کیا گیا مگر جے یو آئی کے کارکنوں کو اس علاقے میں جے یو آئی کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ وہ اب بھی اپنے صوبے میں مقبول ہے۔ جماعت اسلامی اور مولانا سمیع الحق مرحوم کے پیروکار اس مارچ کے مخالفین میں شامل ہیں، مگر مولانا فضل الرحمن نے خیبر پختون خوا کے لوگوں کواپنے نعروں کی طرف متوجہ کرنے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ جے یو آئی پنجاب اور سندھ میں صرف اپنے کارکنوں کو مارچ میں شامل کرنے میں کامیاب رہی۔ ان صوبوں میں مارچ کے خلاف تقریریں بھی کی گئیں۔
مولانا شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے اویس نورانی کی قیادت میں علماء کا ایک چھوٹا حصہ آخری وقت تک مولانا فضل الرحمن کے ساتھ رہا۔ کراچی کے نیو ٹاؤن، کورنگی اور سائٹ کے مدارس کے علماء نے اپنے طالب علموں کو اس مارچ میں شرکت سے روکا۔ مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے آزادی مارچ کی علامتی حمایت کی۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنے کارکنوں کو آزادی مارچ میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ لاہورکے جلسہ میں مسلم لیگ ن مکمل طور پر غیر حاضر تھی۔ یہی صورتحال پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی۔
پیپلز پارٹی والے علامتی طور پر اس مارچ میں شریک ہوئے مگر جے یو آئی نے اپنی پالیسی پر نظرثانی نہیں کی۔ خواتین کو آزادی مارچ میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ جے یو آئی 2002سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں خواتین کی نشستوں پر اپنے امیدوار نامزد کر رہی ہے۔ جے یو آئی کی خواتین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔
2013 میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی میں جے یو آئی کی رکن قومی اسمبلی نے اس اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لے کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔ قومی اسمبلی میں جے یو آئی کا ایک روشن خیال گوشہ واضح ہوا تھا۔ مگر جے یو آئی کی قیادت نے اپنی منتخب خواتین اراکین کو مارچ میں شرکت سے روک کر قدامت پرستی کا تاثر دیا مگر جے یو آئی کے اراکین نے حیرت انگیز طور پر نظم و نسق کا مظاہرہ کیا۔
ہزاروں افراد نے کراچی سے سفرکا آغازکیا اور بغیرکسی ناخوشگوار واقعے کے یہ لوگ اسلام آباد پہنچ گئے۔ مارچ کے شرکاء کی گاڑیوں کی بناء پر موٹر وے پر ٹریفک جام نہ ہوا، حتیٰ کہ ایمبولینس کی گاڑیوں کو اسی طرح راستہ دیا گیا جیسا ہانگ کانگ میں مظاہرین دیتے تھے۔ مارچ کے میدان میں صفائی ستھرائی اور کھانے پینے کے انتظامات بھی متاثرکن تھے۔
تحریک انصاف کا لانگ مارچ ہلڑ کی بناء پر مشہور ہوا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کے دھرنے اور جے یو آئی کے آزادی مارچ کے شرکاء کے طبقات میں فرق تھا۔ تحریک انصاف کے شرکاء کا تعلق متوسط اور امراء کے فیشن ایبل طبقوں سے تھا جب کہ جے یو آئی کے کارکنوں کی اکثریت نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کے مقاصد کو اسی طرح مخفی رکھا جس طرح عمران خان نے اپنے دھرنے کے مقاصد کو پوشیدہ رکھا تھا۔ عمران خان نے چار حلقوں کو کھولنے کے مطالبہ پر لاہور سے دھرنا شروع کیا تھا۔
پھر انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف کی برطرفی، ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے قیام اور فوری انتخابات کے مطالبات کیے تھے۔ عمران خان نے ایک وقت ملک میں سول نافرمانی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سرکاری چینل سے پیسے نہ بھیجیں، پھر عمران خان وزیر اعظم کی برطرفی اور فوری انتخابات کے مطالبات سے دستبردار ہو کر سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن پر متفق ہوئے تھے۔ اس کمیشن نے انتخابات میں اجتماعی دھاندلی کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے مقاصد کو مخفی رکھا۔ وہ محض سلیکٹڈ وزیر اعظم کی برطرفی کا مطالبہ کرتے رہے اور پھر 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن مقررکردی مگر مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے کسی قسم کا غیر قانونی مطالبہ نہیں کیا۔
اپوزیشن کی جماعتیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور خاص طور پر نیشنل پارٹی یہ سمجھتی ہیں کہ موجودہ جمہوری نظام خواہ اس میں کتنی ہی خامیاں ہیں اس کو برقرار رہنا چاہیے اور سیاسی جدوجہد کے نئے راستے تلاش کرتے رہنے چاہیں، یہی وجہ ہے کہ رہبرکمیٹی نے مولانا فضل الرحمن کو نہ تو ڈی چوک جانے کا مشورہ دیا اور نہ معلوم افراد کی طرف سے آنے والی قومی حکومت کی تجویزکی پذیرائی کی۔
رہبر کمیٹی اور حکومتی کمیٹی کے درمیان چار پانچ روز تک مذاکرات ہوئے، پھر معطل ہوگئے مگر خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ مذاکرات کہیں نہ کہیں جاری ہیں۔ شدید سردی اور بارش کی وجہ سے دو اموات ہوگئی، سیکڑوں لوگ بیمار ہوئے اور کافی لوگ گھروں کی طرف چلے گئے۔ جو لوگ موجود ہیں ان میں فرسٹیشن بڑھ رہی ہے مگر مولانا فضل الرحمن کے عزم میں ابھی تک کوئی فرق نہیں آیا۔ نواز شریف کے ملک سے باہر جانے اور آصف زرداری کو ملنے والے متوقع ریلیف کے بعد ان جماعتوں کی آزادی مارچ میں دلچسپی بہت کم ہوجائے گی۔
مولانا فضل الرحمن اپنی سیاسی زندگی کے کھٹن مراحل میں ہیں مگر سیاسی تحریکوں پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ سیاسی جدوجہد میں کوئی ناکامی حقیقی ناکامی نہیں ہوتی اگر جدوجہد جاری رہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں کو مہنگائی، بری طرز حکومت اور نجکاری کے خلاف پورے ملک میں احتجاج منظم کرنا چاہیے۔