خالد مقبول صدیقی وفاقی کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پہلے اپنے قریبی مشیروں کو کراچی بھیجا، پھر خالد مقبول صدیقی کو اسلام آباد بلا لیا۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر دفاع کو اتحادیوں کو منانے کا ٹاسک دیا۔ مستقبل کا منظرنامہ کیا ہوگا، ماضی میں ایم کیو ایم کے اتحادیوں سے تعلقات کی روشنی میں نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔
ایم کیو ایم نے 1987کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد کی بلدیات کی میئرشپ حاصل کی تھی۔ ایم کیو ایم نے 1988 کے عام انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد کی تیرہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت حاصل کی تھی۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں انسٹھ نکات پر مشتمل ایک معاہدہ ہوا تھا، اگرچہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی اکثریت میں تھی مگر ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اس معاہدہ پر عملدرآمد کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ ایم کیو ایم کو چند ماہ بعد ہی شکایت پیدا ہوئی کہ اس کے وزراء کو اختیارات نہیں دیے گئے ہیں، کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی۔
دونوں جماعتوں کے جنونیوں نے ایک دوسرے کے کارکنوں کو اغواء کیا۔ کچھ عرصہ بعد ایم کیو ایم اچانک پیپلز پارٹی کے اتحاد کو توڑ کر غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں قائم اتحاد آئی جے آئی میں شامل ہوگئی اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کی حامی ہوگئی، پھر ایم کیو ایم مسلم لیگ ن کی پہلی، دوسری اور تیسری حکومت کا حصہ بنی۔
ایم کیو ایم والوں نے یہ اتحاد کراچی اور حیدرآباد کے ترقیاتی پیکیج، ملازمتوں اور داخلوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے جیسے مطالبات پر عملدرآمد کے لیے کیا تھا۔ مسلم لیگ کے پہلے دور میں جام صادق علی وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد مظفر شاہ اس عہدے پر فائز ہوئے مگر ایم کیو ایم کی جنگجو فورس کے خلاف آپریشن کی بناء پر ایم کیو ایم دونوں دفعہ بے اثر ہوگئی تھی۔
پرویز مشرف کے دور میں 2002 کے انتخابات میں ایم کیو ایم وفاق اور سندھ کی حکومتوں میں حصہ دار بن گئی۔ سندھ کی گورنرشپ ایم کیو ایم کے نمایندے ڈاکٹر عشرت العباد کو دی گئی۔ وہ 16 سال کے قریب اس عہدے پر فائز رہے۔ 1988سے اب تک یہ پہلا دور تھا جب ایم کیو ایم سندھ کی اہم وزارتوں کی مالک تھی۔ وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اور وزیر اعظم شوکت عزیز کے اختیارات محدود تھے۔ صدر پرویز مشرف نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ کیا تھا۔ کراچی سٹی گورنمنٹ براہ راست اسلام آباد سے جڑی ہوئی تھی۔ ایم کیو ایم کے ناظم مصطفی کمال مکمل طور پر خود مختار تھے۔ ان کے دور میں کراچی میں کئی بڑے منصوبے شروع ہوئے۔ کئی درجن اوورہیڈ برج اور انڈرپاس تعمیر ہوئے۔
متوسط طبقہ کے علاقوں کی سڑکوں کی خوب توسیع ہوئی۔ بیرون ممالک سے آنے والوں کے لیے کراچی ایک جدید شہر کی تصویر کو اجاگرکرتا تھا۔ اس دور میں وسیم اختر وزارت داخلہ کے مشیر تھے۔ 12 مئی 2007کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور اس دن متحرک گروپوں میں تصادم میں کئی درجن افراد جاں بحق ہوئے۔ 12 مئی کا واقعہ ایم کیو ایم کے لیے سیاہ باب بن گیا۔ اس دور میں جن سیاسی رہنماؤں نے ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ان میں نمایاں تھے۔ یہ واحد دور ہے کہ ایم کیو ایم کو نہ تو وفاق نہ ہی صوبائی حکومت سے کوئی شکایت پیدا ہوئی۔
اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئی کہ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو، ان کے شوہر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم قائد الطاف حسین کے درمیان لندن میں مشاورت ہوئی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق رائے ہوا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مفاہمت کا ایک اور دور شروع ہوا۔ صدر آصف علی زرداری 90 گئے اور ایم کیو ایم کے نمایندے بلاول ہاؤس آئے اور مستقبل کے لیے دونوں جماعتوں نے اتفاق رائے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح ایم کیو ایم پھر وفاق اور سندھ کی حکومتوں میں شریک ہوگئی۔ یہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں رفاقت کا طویل دور تھا۔ اس دور میں ایم کیو ایم اپنے وزراء کے بے اختیار ہونے اور مطالبات تسلیم نہ ہونے پرکئی بار وزارتوں سے علیحدہ ہوئی۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان دو سے زائد دفعہ بلدیاتی نظام کے ڈھانچے پر اتفاق رائے ہوا، بلدیاتی نظام کا قانون آیا، اس میں ترمیم ہوئی۔ سندھی قوم پرستوں نے جو جی ڈی اے میں شامل ہیں اور آج کل ایم کیو ایم کے اتحادی ہیں نے بلدیاتی قانون کے خلاف خوب واویلا کیا۔ اچانک ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کردیا۔ پیپلز پارٹی نے فورا ہی نچلی سطح تک اختیار والے بلدیاتی آرڈیننس کو ختم کر دیا اور ایک ایسا بلدیاتی قانون نافذ کیا جس میں اختیارات بلدیاتی اداروں کو نہیں ملے۔ کراچی شہر میں بلدیاتی امور کی انجام دہی کے لیے ایک ساتھ کئی ادارے وجود میں آگئے، یوں بلدیاتی نظام چوپٹ ہوگیا۔ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے کامیابی حاصل کی۔
وسیم اختر جیل میں میئر منتخب ہوئے مگر ان کا کہنا ہے کہ بغیر مالیاتی اور انتظامی اختیارات کے میئر ہیں۔ میاں نواز شریف کے تیسرے دور میں ایم کیو ایم وفاق میں حصہ دار ہوئی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں گرین لائن منصوبہ کی بنیادی رکھی۔ کراچی کو پانی کی فراہمی کے نئے منصوبہ کے فور کے لیے وفاق نے براہ راست امداد دی۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کی قومی اور صوبائی نشستوں پر قبضہ کیا۔ اب تحریک انصاف کراچی کی قومی اسمبلی میں نمایندگی کرنے والی سب سے بڑی جماعت ہے۔ 2008سے 2018 تک ایم کیو ایم کے مختلف رہنما سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے مگر 2018 کے انتخابات کے بعد یہ عہدہ تحریک انصاف کے فردوس شمیم نقوی کو ملا۔
ایم کیو ایم نے 2018کے انتخابات میں شکست کو منظم سازش قرار دیا۔ ایم کیو ایم کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ انتخابات میں نتائج کی تبدیلی کے بارے میں تحقیقات کرائی جائیں۔ ایم کیو ایم کراچی کی مردم شماری کے نتائج کو بھی چیلنج کرتی رہی ہے۔ ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے کہ مردم شماری کا آڈٹ کرایا جائے۔ ماضی میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلوں کے باوجود یہ جماعت عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے پر فائزکرنے کا ذریعہ بنی۔ عمران خان نے ایک دفعہ ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم کے قائدین بہترین اور نفیس لوگوں میں ہیں مگر وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے مطالبات پر کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود گرین لائن کا منصوبہ ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہے۔
شہرکی سب سے بڑی شاہراہ ایم اے جناح روڈ دو سال سے زائد عرصہ سے بند ہے مگر ابھی گرین لائن کی تکمیل کے آثار نظر نہیں آتے۔ وفاقی حکومت نے کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبہ کی تعمیر کے لیے مطلوبہ گرانٹ فراہم نہیں کی۔ ایم کیو ایم والے کہتے ہیں کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود حیدرآباد میں وفاقی یونیورسٹی کی تعمیر کا معاملہ اسی طرح التواء کا شکار ہے جیسا سابق وزیر اعظم نوا زشریف کے دور میں تھا۔ وفاقی حکومت نے کراچی میں ہونے والے آپریشن پر نظر ثانی اور ایم کیو ایم کے مسمار ہونے والے دفاتر کی بحالی کے لیے بھی کوئی پیش رفت نہ کی۔ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے مطالبات پر وفاقی حکومت کی بے بسی کی بڑی ٹھوس وجوہات ہیں۔
وفاقی حکومت کے مالیاتی حالات بہتر نہیں اور مستقبل کی حکومت کا انحصار پنجاب اور خیبر پختون خوا پر ہے اس لیے حکومت کی زیادہ توجہ ان صوبوں پر ہے، بعض مطالبات پر وفاقی حکومت بے اختیار ہے خاص طور پر کراچی آپریشن پر نظرثانی اور آپریشن کے دوران مسمار ہونے والے دفاترکی بحالی نہ تو وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے نہ ہی صوبائی حکومت کے دائرے میں ہے۔ وفاقی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ کراچی آپریشن پر نظر ثانی اور دفاترکی دوبارہ تعمیر کے بارے میں کوئی عملی پالیسی اختیار کرسکے۔ جہاں تک معاملہ رقم کا ہے تو اگر وفاقی حکومت اپنی آمدنی بلدیاتی اداروں کے حوالے کردے گی تو اس کو پھر اسی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا جس طرح 18 ویں ترمیم کے بعد سے قومی مالیاتی ایوارڈ (N.F.C) پر عملدرآمد کی بناء پر ہوا ہے۔
وفاقی حکومت صرف کراچی کے جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے رقم فراہم کرسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ پیش کش کی ہے کہ ایم کیو ایم وفاق سے علیحدگی اختیارکر لے تو سندھ حکومت میں کچھ وزارتیں اس کی منتظر ہونگی مگر معروضی حقیقت ہے یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے لیے موجودہ حالات میں بلاول کی پیش کش کے لیے کوئی چمک نظر نہیں آتی۔
بعض باخبر ذرایع کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے موجودہ مؤقف کو پارلیمنٹ میں گزشتہ دنوں حزب اختلاف کی جانب سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کے پس پشت محرکات سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔ خبر کے اسباب کا تعاقب کرنے والے کہتے ہیں کہ شاید اب وفاقی حکومت پر دباؤکا مرحلہ شروع ہوا ہے۔ ایم کیو ایم والوں کا موجودہ شور و غوغا کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے مگر اس سارے قصہ میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کو کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے کچھ کروڑ روپے فوری طور پر جاری کرنے پڑیں گے باقی ایم کیو ایم وفاقی حکومت کا حصہ ہی رہے گی۔