کراچی میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات والے دن سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ معائنہ کے لیے حلقہ ملیر کے دورہ پر گئے، ان کے ہمراہ مسلح گارڈ تھے۔ ایک پولنگ اسٹیشن پر ان کے گارڈز اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں تصادم ہوا، دونوں طرف سے فائرنگ ہوئی۔
پولیس نے حلیم عادل شیخ کو گرفتار کرلیا۔ انھیں دہشت گردی کا مرتکب قرار دیا گیا اور انسداد دہشت گردی کی دفعات ایف آئی آر میں درج کی گئیں۔ پولیس نے انھیں اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ منتقل کیا، جہاں ان کے سیل میں سانپ نکل آیا۔
حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب اوروزیر تعلیم سعید غنی نے سانپ نکلنے کے واقعہ کی تردید کی۔ ان رہنماؤں نے کہا کہ حلیم عادل شیخ کے کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں ہے، یہ سانپ تحریک انصاف کا کوئی رہنما ہی لایا ہوگا۔ سعید غنی نے کہا کہ حلیم عادل شیخ کو پولنگ والے دن مسلح گارڈ کے ساتھ جانے کی ضرورت کیا تھی۔
پولیس حکام نے سیل میں سانپ نکلنے کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کردی۔ اس کمیٹی نے ایس آئی یو میں سیکیورٹی پر مامور 20 کے قریب پولیس افسروں کے بیانات قلم بند کیے۔ ان پولیس افسروں نے اپنے بیانات میں تصدیق کی کہ اپوزیشن لیڈر کے کمرہ میں مردہ سانپ پایا گیا تھا۔ حلیم عادل شیخ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جیل منتقل کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جیل میں بند لیاری گینگ وار کے ملزمان نے مبینہ طور پر ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ پھر ان کو ایک رات دل کی تکلیف محسوس ہوئی۔
جیل حکام نے انھیں امراض قلب کے سب سے بڑے اسپتال نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کیا مگر ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد بتایا کہ شیخ صاحب کے پاؤں میں فریکچر ہوا ہے، یوں انھیں جناح اسپتال کے آرتھوپیڈک وارڈ لایا گیا۔ معروف سرجن ڈاکٹر سیمی جمالی اب شیخ کے علاج کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حلیم عادل شیخ نے الزام لگایا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی ایماء پر وزیر اعلی مراد علی شاہ نے انھیں قتل کرانے کی کوشش کی ہے۔
وفاقی وزراء نے الزام لگایا کہ سندھ کی حکومت شیخ کو سیاسی مخالفت کی بناء پر انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے یہ بھی الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سندھ کے آئی جی اپنے فرائض سے روگردانی کررہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے یہ بھی کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ شیخ سے اسپتال میں کون کون ملاقاتیں کررہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی حلیم عادل شیخ کے ساتھ ناروا سلوک پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس واقعہ سے کچھ عرصہ پہلے تجاوزات کے خاتمہ کے صوبائی ادارہ نے ملیر کے علاقہ میں حلیم عادل شیخ اور ان کے ایک قریبی عزیز کے فارم ہاؤسز کو مسمارکیا تھا، یوں حکومت سندھ اور حزب اختلاف کے قائد کے درمیان ایسے ہی تعلقات ہوگئے تھے جیسے گزشتہ صدی میں 1988 سے 1991 تک تھے۔
تحریک انصاف کی حکومت حزب اختلاف کو مسمارکرنے کی پالیسی پر عملدرآمد کررہی ہے۔ وفاقی حکومت کی ایماء پرکرپشن کے خاتمہ کے ادارہ نیب نے حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں کو اپنی سرگرمیوں کا محور بنایا ہوا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف ان ڈھائی برسوں کے دوران بیشتر وقت نیب کی حراست میں یا جیل میں قید رہے ہیں۔ ہر مہینے وزیر اعظم کے مشیر شہباز شریف، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز، شہباز شریف کی اہلیہ اور صاحبزادوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا انکشاف کرتے رہتے ہیں۔
ایسے ہی ایک انکشاف کی اشاعت پر لندن کے اخبار ڈیلی میل کو عدالتی مواخذے کا سامنا کرنا پڑا اور بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والی ایجنسی براڈشیٹ کو میاں نواز شریف کو 75 لاکھ روپے دینے پڑگئے۔ اسی طرح مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے۔ نواز شریف کے خلاف وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے 1983میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے مقدمات بھی دائرکیے گئے ہیں۔
رانا ثناء اﷲ کے خلاف ہیروئن کی اسمگلنگ اور تقسیم کا مقدمہ بنایا گیا۔ اس مقدمہ کا خود تحریک انصاف کے حامی صحافیوں نے بھی مذاق اڑایا۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر رہنماؤں کا جیل جانا اور ضمانت کرانا معمول بن چکا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے پیپلز پارٹی کے رہنما ؤں کے خلاف بھی یہ پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کئی ماہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اسی طرح کے مقدمات میں کئی برسوں سے زیرِ حراست ہیں اور وفاقی وزراء ایک دودن بعد یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ تمام اپوزیشن جیلوں میں ہوگی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسئلہ صرف حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کا نہیں ہے بلکہ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافی بھی زیرِ عتاب ہیں۔ اسلام آباد کے ایک صحافی کو دن دھاڑے اغواء کرکے سارے صحافیوں کو پیغام دیا جاچکا ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت 1988میں برسر اقتدار آئی تو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے شہری آزادیوں کی اہمیت، تنقید کے حق اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی روایت قائم کی، یوں سیاسی رہنماؤں کا حکومت کی مخالفت کا حق تسلیم کیا گیا۔ مجموعی طور پر ایک جمہوری فضاء قائم ہوئی۔ بے نظیر بھٹوکے دور اقتدار میں حزب اختلاف کے رہنما شیخ رشید ایک جعلی مقدمہ میں گرفتار ہوئے اور ایک سال سے زائد عرصہ جیل میں گزارا۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رکن اعجاز الحق کی والدہ (جنرل ضیاء الحق کی اہلیہ) کے انتقال پر تعزیت کی تھی۔
ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان حزب اختلاف کے رہنماؤں کے انتقال پر تعزیت نہیں کرتے ہیں مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ کی حکومت نے بھی یہ روش اختیارکرلی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان لاکھ دعوے کرلیں کہ حلیم عادل شیخ کی گرفتاری، جیل میں ان کے ساتھ ناروا سلوک اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس بات پر کوئی بھی باشعور فرد اسی طرح یقین نہیں کررہا جس طرح نیب کے حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری پر وفاقی حکومت کا کردار سے انکار کے بیانیہ پر کوئی فرد یقین نہیں رکھتا۔