موجودہ حکومت مہنگائی، بے روزگاری، لاٹھی چارج، آنسوگیس کی شیلنگ اورگرفتاریوں کی بناء پر یاد رکھی جائے گی۔ اسلام آباد میں حالات کارکو بہتر بنانے کی جدوجہد کرنے والے سرکاری ملازمین پر پولیس کی شیلنگ ہوئی۔
وزیر داخلہ نے ایک بیان میں اس شیلنگ کا جواز فراہم کیا، ملازمین کی یونین کے عہدیدار گرفتار ہوئے اور پولیس کی آنسو گیس کی شیلنگ سے ایک سی آئی ڈی کا اہلکار متاثر ہوا اور اسپتال میں اس اہلکارکی جان نہ بچائی جا سکی۔ دسمبرکی سردیوں میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی اپنے سروس اسٹرکچر کے لیے اسی علاقہ میں دھرنا دیے بیٹھی تھیں۔
حکومت نے ان خواتین کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا، یوں وزیر اعظم چند سال قبل احتجاج کے حق کے لیے جوش و خروش سے جو تقریریں کرتے تھے ان تقاریرکے الفاظ ڈی چوک پر ہونے والی آنسو گیس کی شیلنگ میں ہی کھوگئے۔ اس حکومت کے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے پارٹی چیئرمین کی شہرہ آفاق تقریرکی پاسداری کرتے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی ادارہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈز I.M.F سے قرضہ لینے میں دیرکی۔ مالیاتی خسارہ کو پورا کرنے کے لیے سعودی عرب اور چین سے قرضے لیے تو اسد عمر رخصت کردیے گئے۔
اس صدی میں مختلف حکومتوں کو معیشت کو بہتر بنانے کا مشورہ دینے والے ڈاکٹر حفیظ شیخ خزانہ کے مشیر مقرر ہوئے۔ حکومت نے پہلے روپے کی قدر میں کمی کی، پھرآئی ایم ایف سے قرضہ لیا اور اسٹیٹ بینک کو چلانے اور آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے ڈاکٹر رضا باقرکو مصر سے بلایا گیا وفاقی بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ نہیں کیا۔ وزیر اعظم نے فرمایا کہ پنشن کی مد میں مختص کی جانے والی رقم ملک کی معیشت پر بوجھ ہے۔
اس بناء پر اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جنھیں یہ مقدس فریضہ سونپا گیا کہ وہ پنشن کو ختم کرنے کے لیے کوئی فارمولہ ایجاد کریں۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا مگر بعض وفاقی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا۔
یہ سب کچھ بجٹ کے اعلان سے پہلے ایک انتظامی حکم نامہ کے ذریعہ ہوا۔ اس دور میں اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ وفاقی حکومت نے پورا زور لگایا تو کچھ دنوں کے لیے چینی کی قیمت کم ہوئی پھر قیمت بڑھ گئی۔ حکومت نے ادویات بنانے والی کمپنیوں کو صد فی صد سے زائد قیمتوں میں اضافہ کی اجازت دیدی، یوں انتہائی اہم دوائیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ حکومت نے گیس اور بجلی کے نرخ بڑھا دیے۔
حکومت نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت کئی اداروں سے ہزاروں کارکنوں کو نکال دیا۔ وفاقی ملازمین نے گزشتہ سال وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد سے اپنی جدوجہد کو منظم کرنا شروع کیا۔ ان کے مطالبات ذرائع ابلاغ کی زینت بننے لگے مگر وفاقی وزراء کے لیے یہ کوئی اہم معاملہ نہیں تھا، یوں کسی نے ان پر توجہ نہیں دی۔
وفاقی ملازمین کی انجمنوں نے جنوری میں مظاہروں کا فیصلہ کیا مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ جب ڈی چوک پر مظاہروں کی تاریخ کا واضح اعلان ہوا تو تین وفاقی وزراء نے مذاکرات شروع کیے۔ ہمیشہ کی طرح حکومت نے دباؤ اور ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی۔ جب ڈی چوک پر مظاہرے شروع ہوئے تو طاقت کا استعمال شروع کیا گیا۔ سرکاری ملازمین کو سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے پولیس کے تشدد کے علاوہ ذہنی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حکومت پہلے گریڈ 1سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ پر تیار ہوئی مگر یہ اضافہ معمولی تھا۔
گریڈ 17 سے 22 گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ وفاق حکومت نے یہ بیانیہ دیا کہ ان ملازمین کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں مگر پھر ڈی چوک پر مظاہرین جمع ہوئے، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولوں سے تواضح کی گئی۔ حکومت نے گریڈ 19تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ پر آمادگی کا اظہار کیا مگر وفاقی اداروں اور ان وفاقی ملازمین جو ملک کے دیگر حصوں میں فرائض انجام دیتے ہیں کو اس اضافہ سے محروم کیا گیا۔
وفاقی ملازمین اور وفاق کے تحت کام کرنے والے خودمختار اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی گئی جس کے نتیجہ میں ایک نامکمل پیکیج کو زبردستی ملازمین پر تھونپا گیا۔ حکومت کسی صورت سرکاری ملازمین، اساتذہ، ڈاکٹروں، انجنیئروں، لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اس ہوش ربا مہنگائی میں کسی قسم کا ریلیف دینے کو تیار نہیں ہے مگر بدترین اقتصادی بحران میں عام آدمی مسلسل معاشی پریشانیوں کا شکار ہے جس سے ذہنی اور جسمانی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔
حکومت کی بے حسی کی پالیسی کی بناء پر سرکاری ملازمین اور عام آدمی کے لیے جدوجہد کے علاو ہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا۔ حکومت کو غیر پیداواری اخراجات کم کرنے کی اجازت نہیں ہے مگر غریب ملازمین کو ملنے والی پنشن کو معیشت کے لیے بوجھ سمجھتی ہے۔ وفاقی حکومت کی پالیسیوں میں عجیب تضادات ہیں۔ حکومت غریبوں کے کھانے کے لیے مختلف شہروں میں پناہ گاہیں قائم کررہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ تین شہروں میں قائم ہونے والی پناہ گاہوں میں ہزاروں افراد دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ وزیر اعظم مہینہ میں ایک دو دفعہ ان پناہ گاہوں میں کھانا کھانے والے مزدوروں کے ساتھ تصاویر بناتے ہیں۔
اب خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے تین لاکھ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کے بعد پنجاب میں ہیلتھ کارڈ تقسیم کرکے فخر محسوس کرتے ہیں، مگر تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختون خوا میں ایک آکسیجن پلانٹ نہیں لگا پائی۔ یہی وجہ ہے کہ کے پی کے اسپتالوں میں مریضوں کی شرح اموات زیادہ ہے، مگر ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ پر تیار نہیں ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کے اداریہ نویس لکھتے ہیں کہ نیپرا نے ملک بھر میں بجلی 1 روپے 95 پیسہ فی یونٹ مہنگی کرنے کی تجویز دی ہے۔ یوں صارفین کا جو بل ماہانہ 400 روپے تھے وہ بڑھ کر 4000 روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ اس طرح عوام کی جیبوں سے مزید 200 ارب روپے نکال لیے جائیں گے۔ پیٹرول کی مصنوعات میں ہر 15دن بعد اضافہ ہو جاتا ہے اور ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔
یوں واضح ہوتا ہے کہ مہنگائی بڑھے گی اور اگلا بجٹ تنخواہ دار اور غریب طبقہ کے لیے مایوس کن ہوگا۔ اس صورتحال میں غریبوں کے لیے ایک سبق موجود ہے۔ وہ خود منظم تنظیم سازی میں حصہ لیں اور سائنسی بنیادوں پر اپنی جدوجہد کو منظم کریں۔ منظم جدوجہد ہی غریبوں کے حالاتِ کارکو بہتر بنانے اور حکومت کو مجبورکرنے کا واحد راستہ ہے۔