میاں نواز شریف متنازعہ سزا کاٹتے ہوئے جیل میں بیمار ہوگئے۔ مسلم لیگی رہنماؤں کے احتجاج پر حکومت نے توجہ نہیں دی۔ ان کے ذاتی معالج کو ملاقات سے روکا گیا، جب سرکاری ڈاکٹروں نے ان کی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں انتباہ جاری کیا تو میاں نواز شریف سرکاری اسپتال منتقل کیے گئے۔
اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹس نے طبی بنیادوں پر میاں نواز شریف کی ضمانتیں منظور کیں۔ میاں نواز شریف کو برطانیہ لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان کے مشیروں نے یہ مفروضہ اخذ کیا کہ میاں نواز شریف بیرون ملک چلے گئے تو عمران خان پر اپنے مؤقف میں تبدیلی کا الزام لگے گا۔ ان کا بد عنوان سیاستدانوں سے رعایت نہ کرنے کا بیانیہ سمٹ جائے گا۔
اگرچہ چوہدری شجاعت حسین اورگورنر پنجاب چوہدری سرور جیسے رہنماؤں نے میاں نواز شریف کو ای سی ایل سے ہٹانے کی تجویز دی، مگر شاید کابینہ کے انتہا پسند چھا گئے۔ وزیر قانون بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم نے 7 ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز جمع کرانے کا حل نکالا۔ جب قانونی ماہرین جن میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر علی ظفر اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر سیف نے واضح کہا کہ متعلقہ قانون میں کسی قیدی کو بیرون ملک علاج کے لیے جانے کے لیے ضمانت جمع کرانے کی شق نہیں ہے تو ماہر وزیر قانون نے فرمایا کہ قانون خاموش ہے، یوں انھیں قانون کی خاموشی سے فائدہ اٹھانے اور اپنی مرضی کا حل نکالنے کا حق ہے۔ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ نے حل کردیا۔
میاں نواز شریف کے ساتھ جیل میں ہونے والے اس سلوک سے اخوان المسلمین کے رہنما اور مصر کے سابق وزیر اعظم مرسی کے ساتھ مصری حکام کے سلوک کی یاد تازہ ہوگئی۔ محمد مرسی برسوں سے مصر کی جیلوں میں سزا کاٹ رہے تھے۔ ان پر ملک سے بغاوت اور نفرت پھیلانے جیسے خطرناک الزامات تھے۔ محمد مرسی کو ان کی بڑھتی عمر کے باوجود ان کے مطلب کی طبی سہولتیں فراہم نہیں کی گئی تھیں۔
محمدمرسی کے بڑھتے ہوئے مرض کی طرف مصری حکومت نے توجہ نہیں دی۔ عدالت میں محمدمرسی کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ انتقال کرگئے۔ مصر کی حکومت نے محمد مرسی کی موت کی وجہ دل کا دورہ قرار دی تھی مگر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے پینل نے محمد مرسی کی موت کی تحقیقات کیں۔
مصری حکام نے اقوام متحدہ کے پینل سے تعاون نہیں کیا مگر اس پینل نے تمام واقعات کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جیل میں مرسی کو علاج کی سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں۔ انھیں جیل کی کال کوٹھڑی میں ایسے ماحول میں رکھا گیا کہ مرض بڑھتا چلا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرسی کی موت کی ذمے داری براہ راست حکومت مصر پر عائد ہوتی ہے۔
مصرکی حکومت نے قیدیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے مختلف کنونشنز پر عملدرآمد نہیں کیا۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے شعور بیدار کرنے والوں میں آئی اے رحمن کا نام نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنے آرٹیکل میں قیدیوں کے تحفظ کے لے اقوام متحدہ کے قوانین کا ذکر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے 1957 UN standard minimum rules for the treatment of prisoners کا حوالہ دیا ہے۔ ان قوانین پر 2015ء میں نظرثانی کی گئی۔ اقوام متحدہ نے ان قوانین کو گذشتہ صدی کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا سے منسوب کیا ہے۔ نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے نوجوانی سے جدوجہد کی۔ وہ افریقن نیشنل کانگریس کے بانیوں میں شامل تھے۔
نیلسن منڈیلا کو ان کے سیاسی نظریات کی بناء پر 27 سال تک قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نیلسن منڈیلا کو کبھی جیل میں بنیادی سہولتیں میسر نہیں آئیں۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ جیل میں انھیں اتفاقاً باکسنگ کے کھیل میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ مگر ان کا مقابلہ سفید فارم سپرنٹنڈنٹ جیل سے ہوا۔ منڈیلا کا ایک مکہ سپرنٹنڈنٹ کی ناک پر لگا۔ اگرچہ کہ نیلسن منڈیلا یہ راؤنڈ جیت گئے مگر سپرنٹنڈنٹ کے حکم پر ان کے سیل سے تکیہ اٹھالیا، یوں منڈیلا جیل میں سر کے نیچے تکیہ رکھنے کی عیاشی سے محروم رہے۔ اقوام متحدہ کے قوانین کے آرٹیکل 24سے 35 تک میں قیدیوں کو علاج معالجے کے لیے اسپتال لے جانے اور علاج کے لیے تمام سہولتیں ریاست کے خرچ پر فراہم کرنے کو کہا گیا ہے۔
اس طرح اس قانون کے آرٹیکل 18 میں واضح کیا گیا ہے کہ جیل آنے والے ہر قیدی کا لازمی طور پر طبی معائنہ ہوگا اور ہر قیدی کا میڈیکل ریکارڈ محفوظ کیا جائے گا۔ اس ریکارڈ میں قیدیوں کے جسم پر لگنے والی چوٹ کے ساتھ ساتھ نہ نظر آنے والی ضربوں کی تفصیلات بھی شامل کی جائیں گی۔ اس طرح ان قوانین کے تحت بڑھاپے اور شدید بیماری کی بناء پر قیدیوں کو رہائی کا بھی حق دیا گیا ہے۔
حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے ان قوانین کی ابھی تک توثیق نہیں کی ہے۔ جب میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے پیش ہوا تو معزز جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ متعلقہ صوبائی حکومتیں ان معاملات پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں۔ یہ معاملات عدالتوں میں نہیں آنے چاہئیں۔ انھوں نے یہ حکم بھی دیا کہ پورے ملک میں قید بیمار مریضوں کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کیا جائے تاکہ ان قیدیوں کی دادرسی ہوسکے۔ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ آیا تو معزز اٹارنی جنرل نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ حق ہر بیمار قیدی کو ملنا چاہیے۔ یوں معزز اٹارنی جنرل اور وزراء نے اس حکومت کی بنیادی انسانی حقوق سے عدم توجہ کو آشکار کردیا۔
اس وقت ملک کی جیلوں میں 77ہزار کے قریب قیدی بند ہیں جب کہ ان جیلوں میں 57ہزار قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ ان میں ہزاروں قیدی وہ بھی ہیں جن کے مقدمات برسوں سے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ بلوچستان کے پولیس کے سربراہ نے تشدد کے نقصانات کے بارے میں ایک ورکشاپ میں کہا کہ صرف بلوچستان کی جیلوں میں سزائے موت پانے والے 60 قیدی برسوں سے اپنی اپیلوں پر فیصلوں کے منتظرمیں باقی صوبوں میں یہ صورتحال اور زیادہ خراب ہے۔ صوبائی حکومتوں کے پاس جیلوں کے اخراجات کے لیے ضرورت کے مطابق فنڈز موجود نہیں ہیں۔
اس کا علاج ہر دور میں یہ تلاش کیا گیا کہ قیدیوں سے رقوم وصول کی جائیں، یوں جیل میں داخل ہونے والے ہر قیدی کی حیثیت کا تعین ان کی جانب سے رقم کی فراہمی پر ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہزاروں سیاسی کارکنوں کو برسوں جیلوں میں بند کیا گیا۔ ان میں ادیب، صحافیوں، دانشوروں، وکلاء، ڈاکٹر، خواتین اور سابق منتخب اراکین شامل تھے۔ پھر 1988 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ جیل جانے والی کئی سیاسی کارکن وزیر بنے۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو نے خود سندھ اور پنجاب کی جیلوں میں مہینوں قید تنہائی میں گزارے تھے۔ عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں قیدیوں کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے تحریک زور پکڑ گئی اور جیل مینوئل میں تبدیلیوں پر غور ہوا۔
یوں بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ جیل مینیوئل تیار ہوا مگر برسراقتدار حکومتوں نے اس جیل مینوئل پر عملدرآمد کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ اقوام متحدہ نے 2005میں منڈیلا قوانین میں ترامیم کیں اور تمام رکن ممالک کے لیے اس جیل مینوئل پر عملدرآمد لازمی قرار دیا مگر برسر اقتدار حکومتوں نے اقوام متحدہ کے اس کنونشن کی توثیق نہیں کی۔ عجیب بات ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت 2013 سے خیبر پختون خواہ میں برسر اقتدار ہے مگر اس حکومت نے بین الاقوامی کنونشنز پر عملدرآمد کے بارے میں نہیں سوچا۔ گذشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے تحریک انصاف پنجاب اور بلوچستان پر حکومت کررہی ہے مگر اس بارے میں خاموش ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نیویارک گئے تو ایک تقریر میں ایسے جذباتی ہوئے تو اعلان کیا کہ نیب کے زیر حراست قیدیوں کے لیے جن میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف قابل ذکر ہیں ایئرکنڈیشن کی سہولت واپس لے لیں گے۔ پھر وفاقی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا کہ نیب کے قیدیوں کو سی کلاس میں رکھا جائے گا، یوں وفاقی حکومت نے جیل مینوئل میں ترمیم کر کے صوبائی خودمختاری کو پامال کیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی کہ یہ اقدام صوبائی حکومت کے اختیارات غصب کرنے کے لیے ہے۔ وفاقی حکومت کی اس پالیسی پر سیاسی مبصرین کو بڑی حیرت تھی اور ان مبصرین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے ان بیانات سے ذاتی انتقام کا شائبہ ملتا ہے۔
عمران خان کا خیال ہے کہ جیلوں میں قیدیوں سے سہولتیں چھین کر اور انھیں ذہنی طور پر ٹارچر کر کے ان قیدیوں سے اربوں روپے کی رقم واپس لی جاسکتی ہے تو یہ ایک مضحکہ خیز خیال ہے۔ جمہوری ممالک میں عدالتیں اپنے فیصلوں کے ذریعہ بدعنوان عناصر سے رقوم واپس لیتی ہیں۔ مغل دورکی طرح ان قیدیوں کو بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ یوں حکومت اقوام متحدہ کے قوانین اور ملک میں رائج جیل مینوئل کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے۔ وزیر اعظم بہت سے معاملات میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت برطانیہ کی مثال دیتے ہیں۔ برطانیہ میں سو سال پہلے قیدیوں پر تشدد کے ذریعہ اور قیدخانوں میں برے حالات پیدا کر کے اقرار جرم کرانے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کا طریقہ کار متروک ہوچکا ہے۔
برطانیہ کی جیلوں میں قیدیوں کو تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس بات سے کبھی بھی معقول شخص کو اختلاف نہیں ہے کہ سہولتیں ہر قیدی کو حاصل ہونی چاہئیں۔ یہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ نواز شریف کے بارے میں عدالتی فیصلے کی بنیاد پر اس بارے میں نہ صرف قانون سازی کرے بلکہ صوبائی حکومتوں کی مدد کی جائے۔ حکومت کو نیلسن منڈیلا قوانین کی توثیق کرنی چاہیے تاکہ انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے پاکستان کا نمبر بھارت سے بہتر ہو جائے اور دنیا ہمارے بیانیہ پر توجہ دینے لگے۔ اقوام متحدہ کے مشن نے مصر کے سابق وزیر اعظم محمد مرسی کی موت کی ذمے داری مصر کی حکومت پر عائد کی ہے۔ کہیں پاکستان میں کسی قیدی کی اس طرح کی ہلاکت کی ذمے داری اقوام متحدہ حکومت پاکستان پر عائد نہ کردے۔