مچھ بلوچستان کا ایک پسماندہ شہر ہے جو کوئٹہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ انگریز دور حکومت میں مچھ کی پہاڑیوں میں کوئلہ کی تلاش کا کام شروع ہوا، یوں کئی کانیں برآمد ہوئیں۔
اراضیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھ کے اردگرد کے پہاڑوں میں قیمتی معدنیات پوشیدہ ہیں اور اس علاقہ میں اتنا کوئلہ کانوں میں دفن ہے جو پاکستان کی توانائی کی عرصہ دراز کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔ افغانستان کے فرمانروا امیر عبدالرحمن خان کے دور میں 1880 میں ہزارہ قبیلہ پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہزارہ قبیلہ کے افراد ہجرت کر کے کوئٹہ آگئے۔
اس زمانہ میں کوئٹہ کو مری آباد کہا جاتا تھا۔ ہزارہ قبیلہ نے مری قبیلہ سے ایک معاہدہ کے تحت یہ علاقہ لیز پر لیا۔ اس معاہدہ کو عملی شکل دینے میں انگریز حکمرانوں نے مدد دی۔ مارکسٹ عملیت پسند صحافی عزیز سنگھور تاریخ کے اوراق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ چنگیز خان نے باقاعدہ طور پر منگورسلطنت کو متعارف کرایا تھا۔
افغانستان کے چار صوبوں میں ہزارہ برادری رہتی ہے۔ ان علاقوں کو ہزارہ جات کہا جاتا ہے۔ افغانستان کے خوبصورت صوبہ بامیان اور ہرات میں ہزارہ قبیلہ کی آبادی زیادہ ہے۔ انگریزوں کے دور میں مچھ کے علاقہ میں کان کنی کا آغاز ہوا۔ ہزارہ قبیلہ کے لوگ تقسیم ہند سے قبل سے ہی کوئلوں کی کانوں میں کام کرتے تھے۔
گزشتہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کو نامعلوم مسلح افراد پیدل اس علاقہ میں داخل ہوئے۔ ان افراد نے 11 افراد کو ہاتھ پاؤں باندھ کر سب کو چھروں سے ذبح کردیا۔ حملہ آوروں نے کامیابی سے اپنا مشن مکمل کیا اور آرام سے پیدل اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہوگئے۔ افغانستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ مرنے والے 7افراد افغان شہری تھے۔
کان کنی کے مزدوروں کی یونین کے رہنما یوسف زئی نے صحافیوں کو بتایا کہ ہزارہ برادری کے کان کن جمعہ کو چھٹی کرتے ہیں اور اپنے گھروں کو جاتے ہیں اور ہفتہ کی رات کو کام پر واپس آتے ہیں۔ حملہ آور ان کان کن مزدوروں کے اوقات کار اور سیکیورٹی کے ناقص انتظامات سے واقف تھے، گزشتہ 18سال میں ہزارہ برادری پر 80حملے ہوئے ہیں جن میں 1600 افراد شہید ہوئے۔ اس دفعہ قاتلوں نے ان افرا دکو ذبح کیا ان میں سب سے کم عمر مزدور کی عمر 18سال ہے اور ایک خاندان کے 5 افراد قتل ہوئے۔ اس خاندان میں اب لاشیں اٹھانے کے لیے خواتین اور بچے ہی باقی ہیں۔
نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد امریکا اور اتحادی افواج نے کابل میں کارروائی شروع کی۔ کابل سے طالبان کی حکومت ختم ہوئی، القاعدہ اور طالبان کے بہت سے جنگجوؤں نے افغانستان کی سرحد کے قریب پہاڑی سلسلہ تورا بورا کے غاروں میں پناہ لی مگر جب اتحادی افواج کی بمباری نے شدت اختیار کی تو یہ جنگجو قبائلی علاقوں، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں روپوش ہوگئے۔ غیر مسلم اقلیتی فرقوں اور مسلمان اقلیتی فرقوں پر خودکش حملے شروع ہوئے۔ پہلے کوئٹہ اور مری کے علاقہ میں مسیحی برادری کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے، پھر شیعہ برادری نشانہ بننے لگی۔
اس دہشت گردی کا براہِ راست نشانہ ہزارہ برادری بنی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے اور پیپلز پارٹی میں مختصر عرصہ کے لیے شامل ہونے والے سردار اسلم رئیسانی وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس دور میں اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کا ایک سلسلہ تھا۔ دیگر صوبوں سے آکر آباد ہونے والے اساتذہ، ڈاکٹروں، صحافیوں، وکلاء، خواتین اور پولیس افسروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تو دوسری طرف ہزارہ برادری کے لوگ مارے جانے لگے۔
تافتان آنے اور جانے والے زائرین کے قافلوں پر حملے ہوئے۔ خودکش حملہ آوروں نے کوئٹہ کی مرکزی شاہراہوں کے علاوہ ہزارہ برادری کی آبادیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان جنونیوں نے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی بسوں کو نشانہ بنایا۔ بعض قوتوں نے مسلح لشکروں کی حوصلہ افزائی کی۔ مسلح لشکر ہزارہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بناتے تھے۔ اس عرصہ میں ہزارہ برادری کے لوگوں نے کوئٹہ میں مہینوں دھرنے دیے۔ ہزارہ برادری سے یکجہتی کے لیے شیعہ برادری والوں نے ملک بھر کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا۔
حکومت دہشت گردی کے ہر واقعہ کی مذمت کرنے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا اعلان اور دہشت گردی کے خاتمے کی کوشش کرتی تھی۔ سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمہ میں نااہل قرار دیا تو پیپلز پارٹی کے پرویز اشرف وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ 2013 میں کوئٹہ میں دہشت گردی کی کئی وارداتیں ہوئیں۔
ان وارداتوں کا نشانہ ہزارہ برادری بنی۔ پھر پوری ہزارہ برادری کے ہزاروں افراد نے کوئٹہ کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے دیا۔ دھرنا کے شرکاء صوبائی حکومت کی یقین دہانی کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ وزیر اعظم پرویز اشرف اپنے وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ کے ساتھ کوئٹہ پہنچے، وہ دھرنا میں گئے۔ دھرنا کے شرکاء نے پرویز اشرف کے مسلسل اصرار پر دھرنا ختم کیا۔ وزیر اعظم نے ملزمان کی گرفتاری اور کوئٹہ شہر کو دہشت گردی کی وارداتوں سے محفوظ رکھنے کے طریقوں کی دریافت کے لیے اعلیٰ سطح اجلاسوں کی صدارت کی مگر یقین دہانیاں محض اخبارات کی فائلوں تک محدود رہ گئیں۔
2013 کے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کے خاتمہ اور خودکش حملوں کے تدارک کے لیے اقدامات کیے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کی کوششوں سے مسلح قبائلی گروہوں کا خاتمہ ہوا۔ مذہبی انتہا پسندوں کو منتشر ہونا پڑا۔ خضدار کے مضافاتی علاقہ سے خالی پلاٹ پر مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ جہاں سے لاش برآمد ہوئی اس زمین پر جنگجو سردار کا لشکر قیام پذیر تھا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشترکہ کوششوں سے کوئٹہ اور اطراف کے علاقوں میں امن وا مان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اغواء برائے تاوان اور خودکش حملے تقریباً ختم ہوگئے مگر 2 سال بعد ڈاکٹر مالک کی حکومت ختم ہوئی۔ کوئٹہ اور اطراف کے علاقوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی، گمراہ کن عناصر نے پر پرزے نکالنے شروع کیے۔
آج 2021کے آغاز سے ہی بلوچستان پھر دہشت گردی کی زد میں ہے۔ کوئٹہ کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ پورے بلوچستان میں چند کلومیٹر کے فاصلہ پر سیکیورٹی کی چوکیاں ہیں۔ ہر آنے جانے والے کی تلاشی ہوتی ہے، پھر بھی حملہ آور فرار ہوگئے، لہٰذا سیکیورٹی کو مزید سخت کرنا ہوگا۔ ہزارہ قبیلہ کے افراد کوئٹہ کی سڑکوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم خود کوئٹہ آئیں اور 2013 میں وفاقی حکومت نے جن نکات پر اتفاق کیا تھا ان پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائیں۔
شیعہ برادری نے کئی شہروں میں دھرنا دیا ہوا ہے مگر وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعظم ہاؤس سے اپیلیں کررہے ہیں۔ ہزارہ برادری والوں کو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن یاد آرہی ہیں جنھوں نے مساجد پر فائرنگ کے بعد فوراً مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے مساجد کا دورہ کیا تھا۔ یہ دہشت گردی کا سانحہ ایسے وقت ہوا ہے جب افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات جاری ہیں، اگر حکومت ہزارہ قبیلہ کے افراد کو تحفظ فراہم نہ کرسکی اور دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ گئیں تو پورا خطہ متاثر ہوگا۔