پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی برسوں بعد کرکٹ کے میدان میں مقابلہ ہوا۔ ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کے پہلے راؤنڈ میں پاکستان نے بھارت کو شکست دی، دونوں ممالک کے کھلاڑیوں نے اسپورٹس مین اسپرٹ کے اصولوں کے تحت اس مقابلے میں حصہ لیا۔ بھارت کے کپتان ویرات کوہلی نے شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو پرجوش مبارکباد دی۔
پاکستان اور بھارت کے کھلاڑیوں کے اس مظاہرہ سے دنیا بھر کو ایک پیغام ملا، مگر پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ جب دونوں ممالک کھیل کے میدان میں روا داری کی روایت کی پاسداری کرسکتے ہیں تو پھر دیگر شعبوں میں اس روایت پر عمل کا فقدان کیوں ہے؟
جب بھارت کی حکومت نے مقبوضہ کشمیرکے متنازع علاقے کی حیثیت کو تبدیل کیا اور بھارت نے یونین کے آئین کی شق 370 کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کیا اور اپنے زیرِ کنٹرول کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا تو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے تحت کشمیر کے شہریوں کو جو مراعات حاصل تھیں انھیں ختم کیا گیا تو پاکستان کے بھارت سے تعلقات خراب ہوگئے۔
پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلہ پرحملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا اور پاکستان نے بھارت کا ایک فوجی طیارہ مارگرایا اور اس کے پائلٹ کو زندہ گرفتار کیا گیا۔ اس وقت عالمی منظرنامہ پر خطہ میں جنگ کے بادل بہت گہرے ہوگئے تھے۔ پاکستان نے بھارت کے پائلٹ کو رہا کیا، یوں جنگ کے بادل خطہ سے ہجرت کرگئے مگر پاکستان نے بھارت سے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلالیا۔ بھارت نے بھی جواب میں ایسا ہی کیا اور سفارتی عملہ میں کمی کردی گئی۔ پاکستان نے بھارت جانے والی دو ریل گاڑیوں سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارت روک دی گئی۔ دونوں ممالک کے شہریوں کے ایک دوسرے کے ملک جانے میں انتہائی کمی ہوئی۔ صرف دونوں ممالک میں پھنسے ہوئے شہریوں کو اپنے اپنے وطن واپس جانے کی اجازت ملی۔ بین الاقوامی رابطوں کے بعد دونوں ممالک نے کنٹرول لائن پر سیز فائر کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلہ سے پاکستان اور بھارت کے زیرِ کنٹرول ایک ہزار میل طویل کنٹرول لائن کے دونوں طرف صدیوں سے آباد آبادیوں کے مکینوں کو سکون حاصل ہوا، مگر دونوں ممالک کے ہائی کمشنروں کی واپسی نہ ہوسکی، جب دونوں ممالک کے درمیان تجارت بند ہوئی تو جنگ کو مسائل کا حل سمجھنے والے حلقوں نے مسرت کا اظہار کیا مگر بعد میں ظاہر ہونے والے حقائق سے اندازہ ہوا کہ نقصان ادھر کا زیادہ ہے۔
پاکستان میں ادویات کی تیاری کی صنعت خاصی بہتر صورتحال میں ہے۔ پاکستان ہر سال اربوں روپے کی ادویات مختلف ممالک کو برآمد کرتا ہے مگر پاکستان میں ادویات کے تیاری کے لیے استعمال ہونے والا خام مال بھارت سے آتا تھا۔ یہ خام مال جو ریل گاڑی یا ٹرالر کے ذریعہ پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم ادویات ساز کمپنیوں کو سستا ملتا تھا، اس خام مال پر ٹرانسپورٹ کے اخراجات کم ہوتے تھے، یوں پاکستان میں تیار ہونے والی ادویات پر لاگت کم آتی تھی۔
اگرچہ ادویات کی صنعت نے متبادل ذرایع حاصل کرلیے مگر چین اور مغربی ممالک سے آنے والا یہ خام مال زیادہ مہنگا ہوتا ہے، یوں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی ایک وجہ یہ پابندی بھی تھی، بھارت سے معیاری دوائیوں کی درآمد ہوتی تھی۔ اب ان کی درآمد بند ہوئی۔ ان دوائیوں میں کتے کے کاٹنے کے مرض کے علاج کی ویکسین بھی شامل تھی۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے کسی قسم کی ویکسین تیار نہیں ہوتی تھی، یوں پورے ملک میں اس ویکسین کی قلت پیدا ہوگئی۔
سندھ اور پنجاب کے اسپتالوں سے یہ ویکسین لاپتہ ہوگئی۔ یہی وجہ تھی کہ اندرون سندھ کتے کے کاٹنے سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد بڑھ گئی۔ ان میں سے کئی ویکسین نہ ملنے کی بناء پر جاں بحق ہوئے۔ حکومت نے انسانی جان بچانے والی ادویات کی بھارت سے درآمد پر پابندی ختم کی، مگر باقی ادویات کی دبئی کے راستہ اسمگلنگ بڑھ گئی۔ بھارت کی دوائیں اور دیگر اشیاء کراچی کے بازاروں میں مہنگے داموں دستیاب ہیں۔ مہلک امراض کے مریض بھارت آپریشن کے لیے جاتے تھے۔
ان میں جگر، گردے، گھٹنے اورآنکھ کی سرجری زیادہ اہم ہے۔ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی، ممبئی، بنگلور میں جدید ترین آلات سے لیس اسپتالوں میں یورپ اور چین کے مقابلہ میں سستی اور معیاری سرجری ہوتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات سے یہ مریض معیاری اور سستے علاج سے محروم ہوگئے۔
اسی طرح پاکستان سے کھجور کی تمام اقسام کی بھارت میں بڑی کھپت ہے۔ کھجور، کھجی اور چھوارے ہندوؤں کے مذہبی تہواروں میں خاص طور پراستعمال ہوتے ہیں۔ بھارت میں کھجور کی تمام اقسام وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں مگر یہ مانگ کے اعتبار سے کم پڑتی ہے، یوں پاکستان کی کھجوروں کے لیے بڑی پرکشش مارکیٹ موجود ہے۔
خیرپور سے تعلق رکھنے والے سندھ یونیورسٹی کے ابلاغ عامہ کے شعبہ کے سابق سربراہ ڈاکٹر بدر سومرو کاکہنا ہے کہ ان کے ضلع کے ہاری بھارت سے تجارت بند ہونے سے براہِ راست متاثر ہوئے۔ گزشتہ 20برسوں میں پاکستان کے قریبی دوست ممالک سعودی عرب، دبئی اور خلیج کی دیگر ریاستوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان ممالک میں تیل کی پیداوار کم ہورہی ہے۔ اب یہ ممالک صنعتی ترقی کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ سعودی عرب اب بنیادی اشیاء برآمد کررہا ہے، یہی صورتحال دبئی کی ہے۔
اب ان ممالک کو بڑے پیمانہ پر غیر ملکی سرمایہ کاری اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور دبئی نے بھارت کو بڑے تجارتی پارٹنر کا درجہ دے دیا ہے۔ پاکستان کی مسلسل کوششوں کے باوجود اقوام متحدہ کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کی ایشیا اور مشرق بعید کی ٹاسک فورس کی گرے فہرست سے جان چھڑانے میں ناکام رہا ہے۔ ابھی تک آئی ایم ایف کے قرضہ کے بارے میں مشیر خزانہ پرامید باتیں کررہے ہیں۔
دو سال قبل جب آئی ایم ایف سے قرضے کے معاہدہ میں دیر ہوئی تھی تو سعودی عرب سے 9ارب ڈالر کا ادھار قرض لیا گیا۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد سے اگلے سال یہ قرضہ ادا ہوا۔ بین الاقوامی منڈیوں میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ اور پاکستان کے روپے کی حیثیت کم ہونے سے ملک شدید مہنگائی کا شکار ہے۔
ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کے بعد مہنگائی کا طوفان کیا غضب برپا کرے گا وہ منظر واضح ہوتا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں خطہ کے ممالک خاص طور پر پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات سے معیشت پر پیدا ہونے والا دباؤ کم ہوگا اور مہنگائی میں کچھ کمی آئے گی۔ حکومت کو کرکٹ کے کھلاڑیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کا عمل شروع ہونا چاہیے۔