Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pdm Ka Bohran

Pdm Ka Bohran

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے دو نیم سیکولر جماعتیں عملی طور پر علیحدہ ہوگئیں۔ اب جمعیت علماء اسلام، مسلم لیگ ن، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی (شیرپاؤ) پی ڈی ایم میں موجود ہیں۔

پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے دوری کی ایک بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ سے نچلی سطح کی مفاہمت بیان کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اب جیل کی سختیوں سے دور ہے۔ صرف ایک مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ دو سال سے سکھر جیل میں بند ہیں۔

دوسری وجہ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی فوری نتائج کی حکمت عملی ہے۔ پی ڈی ایم نے اپنے قیام کے بعد سے جنوری، فروری میں حکومت کے خاتمے کی پیشگوئی شروع کردی تھی۔ میاں نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن نے یہ بیانیہ اختیارکیا کہ متحدہ اپوزیشن کے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہوجائیں گے، مارچ میں اسلام آباد میں دھرنا ہوگا اور تحریک انصاف کی حکومت بکھر جائے گی۔

مسلم لیگی رہنماؤں نے بتانا شروع کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کی پشت پناہی چھوڑ دی ہے، یوں حکومت مہنگائی اور بد ترین بد انتظامی کی بناء پر غیر مقبول ہوچکی ہے۔ اس لیے قومی وصوبائی اسمبلیوں سے جب اراکین مستعفی ہونگے اور اسلام آباد دھرنا ہوگا تو پھر حکومت نہیں بچ سکے گی۔ (ایسا ہی بیانیہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف دھرنے کے موقع پر بیان کیا تھا۔)

پی ڈی ایم کی قیادت نے پیپلز پارٹی کے سندھ حکومت سے وابستہ مفادات اور اپنے اثاثے بچانے کی نفسیات کو مدنظر نہیں رکھا تھا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر جماعتوں کے زور دینے پر مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر تیار ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر نے کہا کہ ہم یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی سینیٹ کی نشست سے قومی اسمبلی کے اراکین سے ووٹ لینے پر تیارکریں۔

شاید بجلیاں گرانے والی قوتوں کی رضامندی حاصل ہوئی اور تحریک انصاف کے کچھ اراکین قومی اسمبلی کے ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہوئے مگر بجلیاں گرانے والی قوتوں کی مرضی صرف یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنانے تک تھی اور متحدہ اپوزیشن کی مکمل حمایت کے باوجود یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب نہیں ہوئے اور صادق سنجرانی کامیاب ہوئے۔

پی ڈی ایم کے اجلاس میں میاں نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن نے سخت رویہ اختیارکیا۔ اسمبلیوں سے استعفوں کو دھرنے کے لیے لازم قرار دیا۔ آصف علی زرداری نے یہ شرط عائدکی کہ میاں نواز شریف اپنے رفیق اسحاق ڈارکے ساتھ ملک واپس آئیں تو وہ استعفیٰ دیں گے اور ساتھ جیل جائیں گے۔ اس صورتحال میں متحدہ محاذ میں تلخیاں بڑھ گئیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کے سینیٹروں کی مدد سے یوسف رضا گیلانی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بن گئے۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو نوٹس جاری کیے۔ ان نوٹسوں کو وضاحت کا نام دیا گیا۔

پاکستان کی تاریخ میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے متحدہ محاذ اور آمرانہ حکومتوں کے خاتمے کی کئی مثالیں موجود ہیں، جب جنرل ایوب خان نے 1960 میں صدارتی آئین نافذ کیا اور مارشل لاء ختم کیا تو حزب اختلاف کی جماعتیں بھی متحد ہوگئیں، یوں پہلے آمرکے خلاف جدوجہد شروع ہوئی۔ 1964 میں حزب اختلاف نے بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوارکے لیے نامزد کیا۔

فاطمہ جناح بی ڈی نظام کے80 ہزار اراکین میں سے مشرقی پاکستان اور کراچی کے اکثریتی ووٹ حاصل کرسکیں، مگر مجموعی نتائج میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اس کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتوں نے جدوجہد جاری رکھی۔ 1968 میں کراچی سے بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (N.S.F) کے کارکنوں نے ایوب خان کے اقتدار کے 10سالہ جشن کے خلاف تحریک شروع کی، یوں یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی اور 1969میں یہ تحریک کامیاب ہوئی۔

اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے خلاف 1981 میں ایم آرڈی نے تحریک شروع کی۔ 1983 میں اس تحریک نے اندرون سندھ زور پکڑا مگر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک کمزور رہی۔ تحریک کا زور توڑنے کے لیے جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے، پارلیمنٹ منتخب ہوئی اور مارشل لاء ختم ہوا مگر 1988 میں جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثہ میں ہلاکت کے بعد ایم آر ڈی کے کچھ مقاصد کی تکمیل ہوئی، یوں ایک طویل جدوجہد کے بعد 1973 کا آئین جزوی طور پر بحال ہوا اور بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔

ایسی ہی صورتحال جنرل پرویز مشرف کے خلاف پیش آئی۔ 2007 میں شروع ہونے والی وکلاء تحریک مختلف مراحل سے گزری۔ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں اور جنرل پرویز مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا مگر پی ڈی ایم کی قیادت نے ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے فوری نتائج کے حصول کی حکمت عملی اختیارکی اور پیپلزپارٹی اور اے این پی کو متحدہ محاذ میں روکنے کے لیے کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی کے فیصلے سے مزاحمتی قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

دوسری طرف پی ڈی ایم کی ساخت پرکئی سوالات پیدا ہوئے۔ اس وقت پی ڈی ایم میں جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ ن دو بڑی جماعتیں ہیں۔ مسلم لیگ ن پنجاب کی مقبول ترین جماعت ہے۔ جے یو آئی خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں خاصی مضبوط ہے۔ مسلم لیگ ن کی تنظیم میاں نواز شریف کی جلاوطنی اور شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی مسلسل گرفتاریوں سے بہت کمزور ہوچکی ہے۔

مسلم لیگ ن کے کارکن پیپلز پارٹی کے جیالوں کی طرح اسٹیبلشمٹ کے خلاف مسلسل جدوجہد کا تجربہ نہیں رکھتے۔ اسی طرح جے یو آئی کے کارکن چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ منظم اور تجربہ کار ہیں۔ بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختون خوا ملی پارٹی اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہیں۔ شیر پاؤ بڑے جلسے کرتے ہیں مگر تنظیمی طور پر ان کی جماعت کمزور ہے، یوں سب سے مضبوط جماعت جمعیت علماء اسلام ہے۔ مولانا فضل الرحمن کچھ لبرل خیالات کا اظہار کرتے ہیں مگران کے رہنماؤں اورکارکنوں کی اکثریت رجعت پسند ذہن پر مشتمل ہے۔

مریم نواز نے کہا ہے کہ اس حکومت کو پانچ سال تک اقتدار میں رہنا چاہیے تاکہ عوام اس حکومت کی بدترین طرزِ حکمرانی سے مکمل طور پر آگاہ ہوجائیں، یوں پیپلز پارٹی اور اے این پی سے اختلاف کا مسئلہ تو حل ہوگیا ہے۔ شہباز شریف رہا ہوچکے ہیں اور یوں ان کا نیا امتحان بھی شروع ہوگیا ہے۔ انھیں پیپلز پارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم کے ڈھیلے ڈھالے ڈھانچہ میں شامل کرنے کی کوششیں کرنی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ پنجاب کے عوام بھر پورانداز میں ہیں مگر ریاستی اداروں پر پارلیمنٹ کی بالادستی کا مقصد انتہاپسندی کے بیانیہ کے ساتھ حاصل نہیں ہوسکتا اور پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو ایک طویل جدوجہد کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔