بچوں کو اپاہج کرنے والا مرض پولیوپولیٹیکل فٹ بال(Political Football ) بن گیا ہے۔ یوں ریاست کی ترجیح نہ ہونے کی بناء پر پولیوکا مرض ختم نہیں ہو رہا۔ یہ رائے صحت کے بین الاقوامی فورم انٹرنیشنل مانیٹرنگ بورڈ (International Monitoring Board) نے دی ہے۔ یہ مانیٹرنگ بورڈ پوری دنیا میں پولیوکے مرض کے خاتمے کی مہم کی نگرانی کرتا ہے۔
بورڈ نے اپنی رائے میں لکھا ہے کہ پاکستان میں پولیوکے خاتمے کے لیے سیاسی یکجہتی کا اظہار نہیں ہوتا۔ بورڈ کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پولیوکا مرض دوبارہ طاقت پکڑ رہا ہے۔ 2014ء میں پاکستان میں 306 کیس ظاہر ہوئے تھے۔ آئی ایم بی نے پاکستان سے سفرکرنے والوں پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا مگر پھر ماضی کی حکومت کی کوششوں سے یہ تعداد کم ہوئی ہے۔ آئی ایم بی نے تحریک انصاف کی حکومت کی نگرانی میں ستمبر 2019ء میں پولیو کے خاتمے کے لیے چلائے جانے والی مہم پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس مہم میں بہت سے بچے پولیوکے قطروں کو پینے سے محروم ہوگئے۔ بین الاقوامی تنظیم کے جاری کردہ اعداد وشمار میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں کل 90 فیصد متاثرہ بچوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا میں اس مرض کے حوالے سے صورتحال زیادہ خطرناک ہے اور کے پی کے سے یہ مرض پنجاب اور کراچی تک سرائیت کرگیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ 9برسوں میں 80 فیصد کیس پشتو بولنے والے علاقوں میں ہوئے۔
بین الاقوامی ادارہ کے اکتوبر 2019ء کے اجلاس کی روداد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بورڈ کے اجلاس میں نائیجیریا اور پاکستان کے وفود میں بہت بڑا فرق تھا۔ نائیجیریا بھی پاکستان کی طرح پولیو کے مرض سے متاثر ہوا تھا۔ دونوں ممالک کے وفود کی قیادت ان کے معزز وزراء صحت نے کی مگر نائیجیریا کے وفد میں ایوان نمایندگان اور سینیٹ کی تمام نمایندہ سیاسی جماعتوں کی نمایندگی تھی۔ نائیجیریا میں اسی زمانے میں انتخابات ہوئے تھے جب پاکستان میں ہوئے تھے مگر صحت کے اس اہم مسئلہ پر سب میں اتفاق ظاہر ہوا تھا جب کہ پاکستان کے وفد میں تحریک انصاف کے نمایندے اور سرکاری افسران شامل تھے۔
اس رپورٹ میں پاکستان اور افغانستان کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان میں 29 اکتوبر 2019ء تک 77 بچے پولیو سے متاثرہوئے تھے۔ افغانستان میں صرف 19 بچے متاثر ہوئے تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 2018ء میں پاکستان میں 16اور افغانستان میں 19 بچے اس مرض کا شکار ہوئے۔ پولیو کے مرض کے خاتمے کی مہم کی نگرانی کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کی یہ رپورٹ تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص کارکردگی کا واضح طور پر اظہار کررہی ہے۔
پولیو کے قطرے بچوں کو پلانے کا معاملہ پاکستانی ریاست کی رجعت پسند پالیسی سے منسلک رہا ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں ایک خاص قسم کے مذہبی ذہن کو تیار کیا گیا۔ اس ذہن کو جن میں بعض مدارس کے طالب علم بھی شامل تھے اور جدید تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے اساتذہ، ڈاکٹر، صحافی اور خواتین کی پوری نسل کو سائنسی طرز فکر سے محروم کردیا۔
امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے منصوبے کے تحت جنرل ضیاء الحق نے افغانستان کی عوامی حکومت کے خاتمے کے لیے جہاد کے نعرے کو استعمال کیا اور جہاد کے لیے جانے والوں کے انتہاپسند ذہن تیار کیے گئے، یوں امریکا نے افغانستان کی جنگ جیت لی تو ایک خاص ڈاکٹرائن کے مطابق یہ قوتیں دنیا بھر میں جہاد میں مصروف ہوگئیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی، یوں اس تحریک کے اثرات سے پختون خوا اور بلوچستان براہِ راست متاثر ہوئے۔ پھر اس کے اثرات پورے ملک میں پھیل گئے۔ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف کی ناقص پالیسی کے نتیجے میں خودکش حملہ آور کراچی تک پہنچ گئے۔ یہ سب کچھ تو عسکری محاذ پر ہوا مگر معاشرتی زندگی پر بھی اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔
یہ دنیا کی پہلی جنگ تھی جس میں خواتین کے اسکولوں اورکالجوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک منظم مہم کے ذریعے خیبر پختون خوا میں خواتین کے اسکولوں اورکالجوں کو تباہ کیا گیا۔ اساتذہ، ڈاکٹروں، خواتین اور رضاکاروں کو قتل کیا گیا۔ خواتین کے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کی مہم صرف خیبر پختون خوا تک محدود نہیں رہی بلکہ کراچی میں مضافاتی علاقوں میں اسکولوں کی عمارتوں پر بھی حملے ہوئے اور اسکولوں کے پرنسپل قتل ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی بچوں کو امراض سے بچانے کے لیے لگائے جانے والے ٹیکوں کے خلاف مہم چلی۔ سوات پر قبضہ کرنے والے ملا فضل اﷲ نے اس مہم کو حرام قرار دیا۔ حتیٰ کہ اعلی تعلیم یافتہ افراد بھی اسی طرح کے پروپیگنڈے کرنے لگے۔
امریکا نے سعودی منحرف اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے ہیپاٹائٹس کے مرض کی ٹیسٹنگ کے نام پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے مہم منظم کی۔ اگرچہ وہ مہم خون کے قطرے جمع کرنے کے نام پر شروع کی گئی مگر رجعت پسندذہنوں نے اس مہم کو پولیو کے قطروں سے منسوب کیا اور یہ افواہیں پھیلائی کہ قطروں سے بچوں کو بانجھ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومتوں نے مختلف مذہبی جماعتوں کو اس مہم کی حمایت میں تیارکیا، یوں ایک مذہبی جماعت کی جانب سے اس مہم کی واضح طور پر حمایت کی گئی مگر باقی مذہبی جماعتوں کی پالیسی ابہام کا شکار نظر آتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت 2013ء میں کے پی کے میں قائم ہوئی۔ 18ویں ترمیم کے تحت صوبائی حکومت صحت کے شعبہ میں خودمختار قرار پائی اور قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبے کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ مگر تحریک انصاف کا ذہن طالبان اور مغربی جدیدیت کا مرکب ہے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت میں مذہبی انتہا پسندوں کا تسلط نظر آتا ہے۔ اس کا اظہار کبھی اسکولوں کی طالبات کو برقعہ اورکبھی زبردستی چادر پہنانے جیسے فیصلوں سے ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دعوؤں کے باوجود صحت کے شعبے میں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
رجعت پسند ذہنوں کے دباؤ پر پولیوکے قطرے پلانے کی مہم میں کمزوریاں رہیں۔ اس سال جب یہ مہم شروع ہوئی توکبھی پرائیوٹ اسکول نے یہ ڈرامہ رچایا کہ ان کے اسکولوں کے بچے پولیوکے قطرے پینے سے بیمار ہوگئے اور یہ مہم منظم طور پر سوشل میڈیا پر چلائی گئی اور روایتی میڈیا نے اس کو کوریج دی مگر تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ سب خبریں جھوٹی ہیں اور ایک منظم مہم کے ذریعے بچوں اور ان کے والدین کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔
تحریک انصاف کی اسلام آباد کی حکومت نے بچوں کی صحت کے حوالے سے صورتحال کے خطرناک ہونے کو محسوس نہیں کیا، یوں حکومت نے کبھی بھی اس مرض کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ میں پالیسی تیار نہیں کی اور تمام سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور سماجی اداروں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اسی طرح بیوروکریسی نے بھی اس خطرناک صورتحال کا ادراک نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بین الاقوامی فورم پر یہ رپورٹ آشکار ہوئی۔
پاکستان کی ریاست نے اس اہم مسئلہ کو سیاسی فٹ بال بنالیا ہے اور اس مرض کے خاتمے کے لیے ریاست کی اعلیٰ سطح پر یکجہتی نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی قائم کی جائے اور پولیو کے خاتمے کے لیے مربوط مہم منظم کی جائے۔ یہ رپورٹ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے روشن خیال چہرے کو متاثرکرے گی۔
وزیر اعظم کو حزب اختلاف کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اس رپورٹ پر پارلیمنٹ میں کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان قائد حزب اختلاف اور دیگر قائدین کو ایک دن سیاسی تنازعات کو نظرانداز کرکے صرف قوم کے بچوں کو پولیو کے مرض سے بچانے کے لیے بامعنی مذاکرات کرنے چاہئیں۔ ان مذاکرات میں مذہبی جماعتوں اور علماء کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے تاکہ پوری دنیا کو احساس ہوا کہ پاکستان میں سب اس مرض کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اس اقدام سے نہ صرف اس رپورٹ سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ہوگا بلکہ بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے مؤثر مہم منظم ہوگی۔