بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل نے اسلام آباد سے ایک پریس ریلیز جاری کیا ہے، جس میں پیپلز پارٹی کے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا ہے۔
اس اعلان کے مطابق نیر بخاری پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے، یوں باقی عہدیدار بھی بلامقابلہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے اور آصف زرداری کے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین منتخب ہونے کی نوید سنائی دی۔ الیکشن کمیشن کے قوانین کے تحت سیاسی جماعتوں پر ان کے آئین کے تحت انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔
اس قانون کے تحت ہر رجسٹرڈ جماعت کو اپنے اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ بھی ہر سال الیکشن کمیشن کو جمع کرانا لازمی ہے، یوں پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک پریس ریلیز میں انتخابات کے نتائج کا اعلان کر کے کاغذی کارروائی پوری کی۔ جمہوری نظام میں سیاسی جماعت کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ کسی ریاست کے سیاسی اقتصادی ڈھانچہ پر متفق گروہ سیاسی جماعت قائم کرتا ہے۔ یہ سیاسی جماعت اپنے قائدین کی قیادت میں اپنے منشور پر عملدرآمد کے لیے اقتدارکا راستہ چنتی ہے۔
سیاسی جماعت اپنے منشورکی حمایت کے لیے رائے عامہ منظم کرتی ہے اور پھر اقتدار میں آ کر اپنے منشور پر عملدرآمد کرتی ہے۔ مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے باقاعدہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ ایک اور مذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام میں اس کے آئین کے مطابق مرکزی قیادت کا انتخاب ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی 1967میں لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر قائم ہوئی۔ سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو پہلے چیئرمین اور جے اے رحیم سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ دونوں نے مل کر پیپلز پارٹی کے خدوخال اور اس کے منشورکے بارے میں دستاویزات تحریر کیں۔ ہالا میں ہونے والے کنونشن میں پیپلز پارٹی کے انتخابی منشورکی توثیق ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ میں نچلی سطح تک اپنی تنظیم قائم کی۔ پنجاب میں نچلہ طبقہ، مزدور، کسان، دانشور، ادیب، غیر مسلم اور طلبہ پیپلز پارٹی کا حصہ تھے۔ سندھ میں نچلے متوسط طبقہ کے علاوہ جاگیردار بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔
1970کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پنجاب سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی تنظیموں پر توجہ نہ دے سکی۔ ذوالفقار علی بھٹو پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہے۔ 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کو قصوری قتل کیس میں گرفتار کیاگیا تو انھوں نے جیل سے یہ تجویز دی کہ پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین شیخ رشید کو قائم مقام چیئرمین بنایا جائے مگر شیخ رشید نے اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی قیادت سنبھالنی چاہیے۔
یوں بیگم نصرت بھٹو قائم مقام چیئرپرسن بن گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو Co-Chairperson بن گئیں۔ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اپنی والدہ کے ساتھ جلاوطن ہوگئیں، یوں باقاعدہ پارٹی کے کنونشن منعقد نہیں ہوئے۔ 2007میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کو چیئرمین نامزد کیا اور خود شریک چیئرمین بن گئے۔ بلاول بھٹو نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد قیادت سنبھال لی۔
تحریک انصاف تبدیلی کے نعرہ پر قائم ہوئی۔ 2006 سے پہلے تحریک انصاف ایک نامعلوم جماعت تھی، پھر خیبر پختون خوا اور پنجاب سے نوجوان تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔ عمران خان نے ایک جدید پارٹی تصورکے تحت اپنی جماعت میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔
خیبر پختون خوا اور پنجاب میں زورشور سے انتخابات منعقد ہوئے۔ بعض شہروں میں نوجوانوں کی بھاری تعداد نے انتخابات میں حصہ لیا، یوں کئی تنازعات پیدا ہوئے۔ کچھ نتائج قیادت کی توقع کے برخلاف آئے۔ پارٹی قیادت نے انتخابی ٹریبونل قائم کیا۔ جسٹس وجیہ الدین احمد اس انتخابی ٹریبونل کے سربراہ بنے۔ جسٹس وجیہ الدین نے بعض بنیادی نکات اٹھائے مگر عمران خان نے ان نکات پر توجہ نہ دی اور جسٹس صاحب نے اس غیرجمہوری رویہ پر تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرلی۔ یوں تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں میں فرق مٹ گیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلبہ یونین کا ادارہ انتہائی قدیم اورمستحکم ہے۔ وہاں کنزرویٹو اور لیبر پارٹی کی تنظیمیں نچلی سطح تک قائم ہیں۔ بلاول بھٹو نے ایک جدید سیاسی جماعت کو منظم ہوتے دیکھا ہے۔ اس بناء پر توقع کی جارہی تھی کہ پیپلزپارٹی کی تنظیم نچلی سطح تک قائم کرے گی اور ہر سال پارٹی کنونشن منعقد ہونگے اور سالانہ کنونشن میں نئی قیادت منتخب ہوگی اورکنونشن میں کارکن اپنی رائے کا اظہارکریں گے اور چاروں صوبوں میں جدید سیکریٹریٹ قائم کیے جائیں گے اور پارٹی کارکنوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہو تو ایک جدید سیاسی جماعت کی طرح پارٹی کی قیادت نچلی سطح سے ابھرے گی۔
یوں جو عناصر بلاول بھٹو پر وراثت میں ملی ہوئی قیادت اور پیپلز پارٹی خاندانی جماعت ہونے کے الزامات لگاتے ہیں، ان کے الزامات میں کوئی وزن نہیں رہے گا، مگر پریس ریلیز کے ذریعہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے انتخابات کے انعقاد کے اعلان سے محسوس ہورہا ہے کہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کو جدید سیاسی جماعت بنانے پر غور نہیں کررہے۔ یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے ایک منفی بات ہے۔ پریس ریلیز انتخابات سے طالع آزما قوتوں سے حرارت پانے والی قوتوں کے پروپیگنڈے کی پذیرائی ہوگی۔