سندھ میں کالجوں کے انتظامی معاملات کی ذمے داری سندھ حکومت کی اور نصاب سے متعلق معاملات کی ذمے داری متعلقہ یونیورسٹی پر عائد ہوتی ہے۔ کراچی ریجن میں یہ ذمے داری کراچی یونیورسٹی پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت سندھ کی ترجیحات میں تعلیم کا شعبہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اسکول سے لے کر کالج کی سطح تک ایک قسم کی انارکی جیسی صورتحال ہے۔
اس صدی کے آغاز کے بعد سے اب تک کئی اہم کالجز نجی شعبہ کی تحویل میں دے دیے گئے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے افسروں کی نا اہلی کی بناء پر کراچی کے تاریخی دو کالج کی عمارتوں کا مقدمہ حکومت سندھ ہار چکی ہے۔ ان کالجوں کی عمارتوں کا مقدمہ ان پارٹیوں نے جیت لیا جو 1972 میں قومیانے سے پہلے ان کالجوں کی عمارتوں کے مالک تھے۔
محکمہ تعلیم کے افسروں نے 1972 سے اب تک ان کالجوں کی عمارتوں کی خریداری کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ان عمارتوں کے مالکان نے قانون کی تکنیکی وجوہات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان عمارتوں کی بازیابی کے لیے مقدمات کیے مگر محکمہ تعلیم کے افسروں نے ان مقدمات کے اخراج کے لیے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی اور نہ مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق عمارتوں کی خریداری کی پیشکش کی، یوں ان کالجوں کا مستقبل مخدوش ہوا۔
جب اسلامیہ کالج اور سینٹ پیٹرک کالج کو نجی شعبہ کے حوالہ کرنے کے احکامات آئے تو ان کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ نے احتجاج کیا، یوں شاہراہ فیصل پر کچھ دیر کے لیے ٹریفک معطل ہوا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے فوری طور پر عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔ ابھی تک اسلامیہ کالج پرانی عمارت میں قائم ہے جب کہ عائشہ باوانی کالج منتقل ہوچکا ہے۔
دو اہم کالج کو ان کے مالکان کے حوالہ کیا گیا۔ اس طرح کئی ہزار طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا، محکمہ تعلیم کے حکام نے مختلف کالجوں میں جونیئر اساتذہ کو پرنسپل مقرر کیا۔ کراچی کے کالجوں میں بنیادی مضامین کی تدریس کرنے والے اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ عالمی بینک کے دباؤ پرکالجوں کے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے بائیو میٹرک نظام نافذ ہوا مگر یہ نظام بھی زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوا۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ صرف خواتین کے کالجوں میں تدریس کا عمل تسلی بخش طریقہ سے جاری رہتا ہے۔
حکومت سندھ نے کبھی ڈگری کالجوں میں طلبہ کی گرتی ہوئی تعداد کی وجوہات پر غورکرنے کے لیے تحقیق نہیں کی اور نہ نئے مضامین رائج کرنے کے بارے میں کوئی مشق ہوئی۔ صرف چند مخصوص کالجوں میں بی ایس کمپیوٹر سائنس کا پروگرام شروع ہوا جس میں داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہوئے اور اس پروگرام میں سمسٹر سسٹم پر عملدرآمد ہوتا ہے، یوں یہ کامیاب پروگرام ہے۔ کراچی یونیورسٹی کراچی ریجن کے کالجوں کے تعلیمی معیار کی ذمے دار ہے۔ کراچی یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کا بنیادی فریضہ یونیورسٹی کے تعلیمی شعبوں کے علاوہ کالجوں کے لیے نصاب کی تیاری کا ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں نصاب کی تیاری کا پہلا مرحلہ تعلیمی شعبہ کی بورڈ آف اسٹڈیز سے شروع ہوتا ہے۔ اس بورڈ آف اسٹڈیز میں کالج کے اساتذہ شامل ہوتے ہیں۔ بورڈ آف اسٹڈیز نئے مضامین رائج کرتی ہے اور مضامین کے نصاب میں تبدیلیاں لاتی ہے۔ بورڈ آف اسٹڈیز کی رپورٹ پر فیکلٹی بورڈ میں غور ہوتا ہے۔
یہ رپورٹ اکیڈمک کونسل میں زیر غور آتی ہے جو نصاب کی تیاری، اساتذہ کی اہلیت اور نئے مضامین کے نفاذ کا حتمی ادارہ ہے، اگرکوئی کالج نئے مضامین کو رائج کرتا ہے تو کراچی یونیورسٹی کی کالجوں کے الحاق کی کمیٹی کے اراکین متعلقہ کالج کا دورہ کرتے ہیں اور اپنی رپورٹ تیار کرتے ہیں مگر کراچی یونیورسٹی میں کبھی بھی ڈگری کالجوں میں طلبہ کی عدم دلچسپی اور داخلوں کی تعداد کم ہونے کا نوٹس نہیں لیا گیا۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ بعض افراد کا پسندیدہ مشغلہ تعلیمی سرقہ کے مرتکب اساتذہ کا وکیل صفائی بننا اور ان اساتذہ کا تحفظ کر کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عزائم کو ناکام بنانا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے صاحبان علم و دانش نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اصلاحات کے تحت بی ایس پروگرام کے نفاذ کے خلاف زوردار تحریک چلائی اور اس پروگرام کی جگہ بی اے آنرز کا پروگرام دوبارہ نافذ کیا گیا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کا بی اے آنرز کا پروگرام، بی ایس پروگرام کے مقابلہ میں خاصا پسماندہ ہے۔
اسی طرح ان صاحبان علم و دانش نے Ph.Dکے طالب علم کو Oral Defense کے امتحان کو رائج نہیں ہونے دیا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 2011میں کالجوں میں بی ایس ایسوسی ایٹ کے پروگرام کے نفاذ کی اسکیم تیارکی تھی، یہ پروگرام سمسٹر سسٹم کے تحت نافذ ہونا ہے۔ ایچ ای سی کے اس پروگرام میں کچھ Deficiencies تھیں۔ کراچی یونیورسٹی ان Deficiencies کو دور کرسکتی تھی مگر پورے پروگرام کو مسترد کردیا گیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بی ایس ایسوسی ایٹ کے چار سالہ پروگرام میں جدید مضامین شامل کرنے کی اسکیم تیار کی تھی مگر سندھ حکومت نے اس پروگرام پر توجہ نہیں دی۔ اب جب ایچ ای سی نے اس پروگرام کے نفاذ کو یقینی بنانے کے کچھ اقدامات کیے تو یہ صاحبان علم و دانش نے ایک تحریک منظم کی۔
ان علم و دانش کے معماروں کا مفروضہ ہے کہ عالمی بینک اس پروگرام کے ذریعہ تعلیمی نظام کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی بجٹ میں اضافہ اور فنڈ کے شفاف استعمال کا ہے۔ اس نئے پروگرام کے نفاذ کے لیے وافر مقدار میں فنڈ کی ضرورت ہے۔ نئے اساتذہ کا تقرر اور نئے مضامین کی تدریس کے لیے ریفریشر کورسزکا ہونا ضروری ہے۔ غریب طالب علموں کے لیے اسکالرشپ کا بڑے پیمانہ پر اجراء ہونا چاہیے۔ خاص طور پر طالبات کے لیے اسکالرشپ کی نئی اسکیمیں شروع ہونی چاہئیں۔ چار سالہ اور دو سالہ پروگرام کے بارے میں ابہام تھا۔
ان دانشوروں نے اس ابہام کو سازش قرار دیا اور پھرکراچی یونیورسٹی نے پروگرام کو مسترد کردیا۔ سندھ کی حکومت نے بلواسطہ طور پر اس تحریک کی حمایت کی۔ پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی کی رکن شاہدہ رحمانی نے اس پروگرام کی بھرپور مذمت کی، یوں فوری طور پر یہ پروگرام رد کیا گیا، کالجوں میں داخلے کی شرح میں خطرناک حد تک کمی کا معاملہ ہنوز التواء کا شکار رہا۔ سنجیدہ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک اہم مسئلہ نصاب میں رجعت پسند مواد کو شامل کرنا ہے۔ وفاق ایسے مضامین رائج کررہا ہے جو طلبہ کے ذہنوں کو پسماندہ کرتے ہیں۔
اسی طرح طلبہ یونین کی بحالی ایک انتہائی اہم ضرورت ہے۔ سندھ اسمبلی سے طلبہ یونین کی بحالی کا قانون تعلیم کی ذیلی کمیٹی کے سپرد ہوا ہے۔ یہ صاحبان علم و دانش ان اہم مسائل پر رائے عامہ ہموارکرنے کی بجائے نئے مضامین کے نفاذ کے خلاف کمربستہ ہیں۔
یہ صاحبان علم عالمی بینک کے اس پروگرام کے لیے فنڈنگ کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ عالمی بینک شاید پہلی دفعہ یہ فریضہ انجام دے رہا ہے۔ پاکستان میں پرائمری سطح سے اعلیٰ تعلیم تک تمام منصوبے کبھی کولمبو پلان کبھی عالمی بینک کی مدد سے شروع ہوئے۔ 60ء کی دھائی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) امریکی امداد سے قائم ہوا تھا اور پہلے کئی برسوں تک امریکی پروفیسر وہاں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔
اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کالجوں میں نئے مضامین پر مشتمل پروگرام شروع نہیں کیا گیا اور سمسٹر سسٹم نافذ نہیں کیا گیا تو حکومت سندھ ڈگری کالجوں میں طلبہ کی کم تعداد کا بہانہ بنا کر کالجوں کو نجی شعبہ کے حوالہ کردے گی جس کا سارا نقصان غریب طلبہ کو ہوگا۔