Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Samaj Ki Pasmandagi Door Karne Se Qabal

Samaj Ki Pasmandagi Door Karne Se Qabal

لاہور کے تاریخی اقبال پارک میں یومِ آزادی پر چار سو جنونی افراد نے ایک عورت پر مجرمانہ حملہ کیا۔ اس حملہ میں متاثر ہونے والی خاتون کا کہنا ہے کہ ان کے لیے زندگی ختم ہوگئی۔

خاتون نے جرات سے اس سانحہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر یومِ پاکستان کی تقاریب کو کورکرنے کے لیے اپنے عملہ کے ساتھ علامہ اقبال پارک گئی تھی اور انھوں نے مناسب لباس پہنا ہوا تھا، ان کے لباس سے عریانی پھیلانے کا کوئی امکان نہ تھا۔

پہلے چند نوجوان سیلفی بنانے میرے قریب آئے، پھر ہجوم بڑھتا گیا۔ وہاں ایک گارڈ تعینات تھا۔ میں بھاگ کر جنگلے کے دوسری طرف گئی، ہجوم بڑھتا گیا۔ اس جنونی ہجوم کو عورت کی شکل میں ایک جھنجھنا ہاتھ لگ گیا تھا، یوں کئی گھنٹوں تک یہ عورت ہجوم کے حملوں کا نشانہ بنتی رہی۔ ظالموں نے اس مجبور عورت کے جسم کے ہر حصہ کو زخمی کیا۔ اس دوران پولیس کو فون کیا مگر پولیس والے نہیں آئے۔ میرے پاس تالاب میں کودنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا۔ اس خاتون کی نشاندہی پر پولیس نے کچھ ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے خواتین کے قتل اور ان پر مجرمانہ حملوں کی وارداتیں بڑھتی گئی ہیں۔ دو سال قبل لاہور سیالکوٹ موٹروے پر رات کو گاڑی کا پیٹرول ختم ہونے پر ایک خاتون کار کے دروازے اور شیشے لاک کیے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی کہ دو درندوں نے بچوں کے سامنے اس عورت کے ساتھ بیہمانہ سلوک کیا۔ اس واقعہ پر وفاق اور پنجاب کی حکومتوں نے سخت اقدامات کا عندیہ دیا تھا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل قصور میں ایک چھوٹی بچی زینب کو مجرمانہ حملہ کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ اسلام آباد میں نور مقدم کو اس کے ساتھی نے قتل کیا تھا۔

ان واقعات کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں میں خواتین پر مجرمانہ حملوں اور غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لاہور کا 14اگست کا سانحہ ایک ہجوم کے جنسی جنون میں مبتلا ہونے اور ایک خاتون کی زندگی جہنم بنانے کا واقعہ ہے۔

اس ہجوم کے جنسی جنون میں مبتلا ہونے کا معاملہ ریاست اور معاشرہ کے افلاس سے منسلک ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ابھی تک پاکستانی ریاست نے عورت کے حقوق اور اس کے تحفظ کے فریضہ کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ ملک کے چوتھے غیر سول سربراہ جنرل پرویز مشرف نے گینگ ریپ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں عورتیں یورپی ممالک میں سیاسی پناہ لینے کے لیے ریپ کے واقعات کو گڑھ لیتی ہیں، ان واقعات میں حقیقت نہیں ہوتی۔

اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے جن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ لندن میں گزرا ہے انھوں نے امریکی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان میں خواتین کے لباس کی بناء پر انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انھوں نے یورپ اور پاکستانی معاشرے کا موازنہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہاں نائٹ کلب ہیں یہاں کچھ نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے خیالات ہیں جنھوں نے یورپ اور امریکا میں تعلیم حاصل کی اور ان لوگوں کے بھی ہیں جنھوں نے ملک میں تعلیم حاصل کی۔ ریاستی عناصر کے اس رویہ کے اثرات نچلی سطح تک منتقل ہوتے ہیں۔

اس ملک کی پولیس کا ڈھانچہ ریاستی نظام سے منسلک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس میں مسلسل اصلاحات کے باوجود نہ تو افسروں اور نہ ہی جوانوں کا رویہ تبدیل ہوتا ہے۔ 14اگست کو سیکیورٹی الرٹ جاری ہوتا ہے۔ لاہور میں تحریک پاکستان کے حوالہ سے مینار پاکستان اور اقبال پارک اہم ترین جگہیں ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ ہر سال ہزاروں افراد قومی تہواروں 25 دسمبر، 23مارچ اور 14اگست کو اقبال پارک جاتے ہیں۔

ویسے تو عام دنوں میں بھی عوامی مقامات پر سیکیورٹی موجود ہوتی ہے مگر14 اگست کو اقبال پارک میں پولیس فورس کا دستہ ہوتا ہے اور پھر سانحہ کی اطلاع ملنے پر بھی پولیس فورس کا نہ آنا حکومت پنجاب کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ ہجوم کی نفسیات کا معاملہ ہے۔

ماہرین نفسیات اور سوشیالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ایک فرد کا رویہ علیحدہ ہوتا ہے مگر ہجوم میں اس فرد کا رویہ ہجوم کے مطابق ہوتا ہے مگر اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ اگر کوئی فرد کبھی کسی عورت سے زیادتی کا مرتکب نہ ہوا ہو تو وہ اچانک ہجوم کی پیروی کرنے لگے گا۔ ایک دفعہ پھر اس سانحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نوجوانوں میں جنسی بھوک اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہ چند لمحوں میں حیوان بن جاتے ہیں۔ اب بھی معاشرہ میں لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنی بہنوں سے بہتر ہیں اور عورت کی حیثیت ثانوی ہے اور عورت ہر قسم کے سلوک کی مستحق ہے۔

لڑکوں اور لڑکیوں کی علیحدہ علیحدہ پرورش ہوتی ہے۔ ایک بچہ بلوغت اور شادی تک عورت کا صرف تصور ہوتا ہے اور دقیانوسی خیالات اس کے دماغ میں داخل کیے جاتے ہیں، یوں یہ نوجوان ذرا سی چھوٹ ملنے پر پاگل ہوجاتے ہیں۔ مذہبی رہنما اس کا حل خواتین کو برقعے پہنانا اور ان کے لیے علیحدہ علیحدہ تعلیمی اداروں میں تعلیم پر قرار دیتے ہیں مگر جدید تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی علیحدگی ذہنوں کو مزید پراگندہ کرتی ہے۔

ماہرین معاشیات اس امر پر متفق ہیں کہ عورت کی تعلیم اور اس کے زندگی کے تمام شعبوں میں متحرک ہونے سے ہی غربت کا خاتمہ ہوتا ہے اور ملک ترقی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 74برسوں میں خواتین کے حقوق کے لیے بہت سے قوانین تیار کیے گئے مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جن افراد نے یہ قوانین نافذ کیے ان میں سے کئی ان پر عمل نہیں کرتے۔ ان کی بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کو پبلک لائف میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ دہرا معیار ہے جو اس طرح کے سانحات کی وجہ بنتا ہے۔

گریٹر اقبال پارک کے سانحہ سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے۔ اس کی ذمے داری پولیس، انتظامیہ اور حکومت پر عائد ہوتی ہے مگر ان میں سے کسی فرد کا احتساب نہیں ہوتا۔ کچھ افراد اس واقعہ کی ذمے داری مظلوم عورت پر ڈال رہے ہیں، یوں یہ لوگ ملزمان کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ منصور نے ریپ کیسز کے بارے میں ایک جامع فیصلہ تحریر کیا تھا۔ اس فیصلہ پر پارلیمنٹ اور چاروں منتخب اراکین اسمبلی کو غور کرنا چاہیے اور وفاق اور صوبوں کو اس پر عملدرآمد کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل دینا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ سماج کی پسماندگی دور کرنے سے قبل ریاست کے فیصلہ ساز اداروں کے رہنماؤں کی ذہنی پسماندگی دور کرنا ضروری ہے۔