Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shammen Roshan Karte Rahenge

Shammen Roshan Karte Rahenge

ڈاکٹر ریاض شیخ جیکب آباد میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی پھر خیرپور یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں پوسٹ گریجویشن کی اور سپیریئر سروس آف پاکستان کا امتحان پاس کیا اور سرکاری افسر بن گئے تھے مگر انھیں والد کی ر وشن خیالی ورثہ میں ملی تھی۔

کتابیں پڑھنے کا شوق رہا اور طالب علمی میں عظیم فلسفی کارل مارکس کو پڑھا اور سمجھا۔ عوامی تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے اسیر ہوئے۔ ممتاز دانشور پروفیسر حمزہ علوی کے مضامین کا ے مطالعہ کیا اور حمزہ علوی کے مضامین کو اردو کے قارئین میں روشناس کرایا۔ پھر نہ جانے کیا سوجھی سول سروس میں اپنے کیریئر کو خدا حافظ کیا، سوشل سائنس میں پی ایچ ڈی کیا اور تدریس کا شعبہ اختیار کیا۔ زیبسٹ Szabistمیں پروفیسر ہوئے اور زیبسٹ کو حقیقی طور پر علمی آزادی (Academic Freedom) کا مرکز بنادیا۔

زیبسٹ کی سربراہ شہناز وزیر علی اور نائب صدر اکیڈمک ڈاکٹر الطاف مقاتی نئے آئیڈیاز کی پذیرائی کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ان دونوں صاحبان علم و دانش نے زیبسٹ میں سندھ اسٹڈی سینٹرSindh Studies Centre کے قیام کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر ریاض کو اس سینٹر میں سندھ کی تاریخ، ثقافت اور اقتصادیات سمیت ہر موضوع پر تحقیق اور مختلف موضوعات پر مجالس کے انعقا دکی ذمے داری سونپی گئی۔ ڈاکٹر ریاض نے سندھی زبان سیکھنے کے ایک کورس کو ترتیب دیا۔

یہ کورس بالکل مفت ہے اور ہر شخص اس کورس میں داخلہ لے سکتا ہے اور اگر نوجوان سنجیدگی سے اس کورس سے مستفید ہوں گے تو ان میں سندھی زبان کو سمجھنے اور لکھنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی۔ سندھ کے عظیم فرزندوں سوبوگیانچندانی، ابراہیم جویو اور معروف کمیونسٹ دانشور سبط حسن یادگاری لیکچرز کا اہتمام کیا، ان لیکچرز میں معروف دانشوروں کو مدعو کیا گیا۔

سندھی زبان کا شمار برصغیر کی قدیم زبانوں میں ہوتا ہے۔ محققین سندھی زبان کے ارتقاء کے تناظر میں مختلف قسم کے نظریات پیش کرتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ سندھی سنسکرت، عربی اور فارسی زبانوں کے قریب ہے۔ سندھ میں بہت عرصہ پہلے سندھی سرکاری زبان کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ سندھی زبان میں سب سے پہلے قرآن مجید کا ترجمہ ہوا۔

سندھی زبان کے عظیم شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا پیغام لازوال ہے۔ شاہ لطیف کا پیغام بلاتفریق مذہب، نسل اور جنس سب کے لیے ہے۔ ان کا موسیقی سے لگاؤ انسانوں کے ذہنوں پر پڑنے والے اثرات کی اہمیت کو واضح کرتاہے۔

ہندوستان کا بٹوارہ بہت سے نئے تضادات کی بنیاد بنا۔ دو سو سالہ استعماری اقتدارکے خاتمہ پر ہونے والے مذہبی فسادات میں دو کروڑ کے قریب لوگ جاں بحق ہوئے اور لاکھوں لوگوں کو اپنا وطن چھوڑ نا پڑا۔ اس ہجرت سے سندھ براہِ راست متاثر ہوا۔ سندھ کی آبادی میں اچانک لاکھوں لوگوں کا اضافہ ہوا۔ سندھیوں نے کھلے دل سے ان مہاجروں کو خوش آمدید کہا۔ یوں ایک نئے سماج بننے کا عمل شروع ہوا۔ طالع آزما قوتوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ون یونٹ بنایا اور سندھ کو ون یونٹ میں ضم کیا گیا تو سندھ کے حقوق کی پامالی کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔

جنرل ایوب خان نے 1958 میں مارشل لاء نافذ کیا۔ بریگیڈیئر ٹکا خان حیدرآباد ڈویژن کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ ان کے صاحبزادے کو اسکول میں تعلیم کے دوران سندھی زبان سمجھنے میں مشکل ہوئی۔ ٹکا خان نے سندھی زبان کی تدریس پر پابندی لگادی۔

یہ ان اردو بولنے والے خاندانوں کے لیے یہ سیاہ دن تھا، انھوں نے سندھ کو اپنا مستقل وطن بنایا تھا، ان کی نئی نسل جو سندھی زبان سیکھ رہی تھی، وہ سندھی زبان سیکھنے سے محروم ہوگئی۔ یوں سندھ میں ایک نیا تضاد ظہور پذیر ہوا۔ طالع آزما قوتوں سے توانائی لینے والے بعض گروہوں نے نفرت آمیز سیاست شروع کی۔ 1970کے عام انتخابات میں سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔

پیپلز پارٹی کے منشور میں یہ تحریر تھا کہ پیپلز پارٹی اردو اور سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان بنانے کے لیے آئینی و قانونی اقدامات کرے گی، اسی بناء پر 1973 کے آئین میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا مگر 1972 میں وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو نے سندھ اسمبلی میں سندھی کو سندھ کی زبان بنانے کا قانون پیش کیا تو ایک نیا تضاد پیدا ہوا۔ پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے سندھی زبان کی مخالفت کرکے لسانی سیاست کی بنیادرکھی۔

2008 میں پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت قائم ہوئی جس کو اب بارہ سال ہونے کو ہیں۔ سندھ حکومت امتیازی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا فائدہ اسلام آباد اٹھا رہا ہے، یوں سندھ ایک دفعہ پھر نئے تضادات کا شکار ہورہا ہے۔ نفرت کی سیاست کرنے والے گروہوں کو تقویت مل رہی ہے۔ اس صورتحال میں سندھ کے تمام لسانی گروہوں کے دانشوروں، ادیبوں اور سول سوسائٹی کے باشعور کارکنوں کی ذمے داری ہے کہ وہ نئے تضادات کا تجزیہ کریں اور ان کے تدارک کے لیے تجاویز مرتب کریں اور رائے عامہ کو ہموار کریں۔ سندھ میں ماضی میں بعض دانشوروں نے اس طرح کی کوشش کی ہیں۔

90ء کی دہائی میں دانشوروں اور صحافیوں نے مسلسل کوششوں سے ایک بیانیہ مرتب کیا تھا۔ آج ایسے ہی بیانیہ اور اس کی بنیاد پر رائے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ معروف صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے بانی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 کے لسانی فسادات کے بعد جو معاہدہ کیا تھا آج بھی اس معاہدہ کی بنیاد پر بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ سندھ میں آباد تمام مستقل باسی جن کا سب کچھ سندھ ہے۔ وہ سندھی ہیں اور ان کے اتحاد سے ہی صوبہ ترقی کرسکتا ہے۔ اس ماحول میں شہناز وزیر علی، ڈاکٹر الطاف مقاتی اور ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے ایک شمع روشن کی ہے۔ بقول ریاض شیخ "نفرت پھیلانے والی قوتیں کچھ بھی کرلیں ہم شمعیں روشن کرتے رہیں گے۔"