زمان خان کا شمار بائیں بازوکے معروف دانشوروں میں ہوتا ہے، وہ متحدہ ہندوستان کے شہر جے پور میں پید اہوئے، بٹوارے کے بعد والدین لائل پور میں آباد ہوئے۔ زمان خان نوجوانی میں بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (N.S.F)سے منسلک ہوئے۔
معروف محقق ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ 60ء کی دھائی میں پنجاب کی طلبہ تحریک کو منظم کرنے والوں میں زمان خان کا نام بھی شامل تھا۔ انھوں نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
وکالت کا پیشہ اس لیے اختیارکیا کہ مزدور تحریک کو فعال کیا جائے۔ وہ 1970ء میں قائم ہونے والی جوائنٹ لیبر ایکشن کمیٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے، مزدور کسان پارٹی میں شامل ہوئے۔ زمان خان کو 1983ء میں تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) کی 1973ء کے آئین کی بحالی کی تحریک کا حصہ بننے پر عدالت نے ایک سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا دی۔ زمان خان عوامی نیشنل پارٹی میں بھی سرگرم رہے، پھر انھوں نے صحافت کی خاردار جھاڑیوں میں پناہ لی، انسانی حقوق کمیشن HRCP میں متحرک ہوئے۔
زمان خان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ زمان خان کے کالموں کے موضوعات جمہوریت، انسانی حقوق، امن وانصاف اور رواداری ہوتے ہیں۔ ان کے کالموں کی کتاب شہر آرزو ایک مفید اور معلومات سے بھری کتاب ہے۔
دانشور ڈاکٹر سید جعفر احمد شہر آرزو کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ 1960ء کا عشرہ ان کی نوخیزی سے جواں سالی میں ڈھلنے کا دور تھا۔ اس دور میں زمان خان اپنے ملک کے حالات سے ذہنی اور عملی طور پر دونوں اعتبار سے جڑنا شروع ہوئے اور سماج سدھار تحریک کا حصہ بن گئے۔ مصنف نے اس کتاب کو چھ موضوعات انسانی حقوق، سماجی مسائل، امن، شخصیات، سیاست اور تاریخ میں تقسیم کیا ہے، 60کے قریب کالم اس کتاب میں شامل ہیں۔
زمان خان " عقوبت خانے کب بند ہوں گے" کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ لاہور میں شاہی قلعہ میں غالبا گوروں نے عقوبت خانہ بنایا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے دیسی حکمرانوں نے اس روایت کو قائم رکھا۔ یہاں پر ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے متوالوں کو تفتیش کے لیے لایا جاتا تھا۔
اس عقوبت خانے کے اولین اور سب سے زیادہ مہمان بائیں بازو اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے تھے۔ یہ سلسلہ فیروز الدین منصور سے شروع ہوا۔ جنرل ایوب خان کے زمانے میں حسن ناصرکی شہادت نے کئی نسلوں کو متاثرکیا۔ بائیں بازو والوں کا ہمیشہ سے مطالبہ تھا کہ لاہور میں شاہی قلعہ کا عقوبت خانہ بند کیا جائے۔ 1970ء میں پیپلز پارٹی نے بھی اس کو بندکرنے کا وعدہ کیا مگر اس پر عمل نہ کرسکی۔ ضیاء الحق دور میں عورتوں کو بھی شاہی قلعہ تفتیش کے لیے لے جایا جاتا تھا، شاید تاریخ کو اس عقوبت خانے کو بند کرنے کا سہرا میاں نواز شریف کے سر باندھنا تھا۔
مصنف نے " سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ " کے عنوان سے لکھا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نیپالی مارکیٹوں کے خلاف تھی۔ نیپال میں ہندوستان کا بہت اثر ورسوخ ہے۔ یعنی نیپالی دانشوروں کا خیال ہے کہ اس کی پسماندگی میں ہندوستان اور نہروکا بہت عمل دخل ہے، جب نیپال ہندوستان معاہدہ ہوا تو جمہوریت پر یقین رکھنے والے نہرو نے نیپال میں بادشاہت اور جاگیرداری کو قبول کیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1950ء کا نیپال ہند معاہدہ یک طرفہ ہے، اس پر نظرثانی ہونی چاہیے۔ زمان خان نے "ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات" کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ بیسوی صدی کی تیسری دھائی میں جب مزدوروں نے آل انڈیا ٹریڈ یونین فیڈریشن کی بنیاد رکھی تو اس کے تاسیسی اجلاس کی صدارت محمد علی جناح نے کی تھی۔ برصغیر کے جس حصہ میں پاکستان ہے اس میں سب سے بڑی صنعت لاہور ریلوے کا لوکوشیڈ تھا۔ ایک زمانے میں ہندوستان کی ریلوے یونین کے صدر وی وی گری اور نائب صدر مرزا ابراہیم تھے۔
کاٹن ملز اوکاڑہ اور لائل پور کاٹن ملز میں مزدوروں کی منظم یونین تھیں۔ فیض احمد فیض پوسٹ مین یونین کے صدر اور مرزا ابراہیم کے ساتھ ریلوے یونین کے عہدیدار تھے۔ اس زمانے میں ہر ترقی پسند کو مزدوروں یا کسانوں میں کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ " اختر مینگل کی رہائی درست سمت میں ایک قدم" کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ دراصل فوجی حکمرانوں اور سیاست دانوں کا مسائل حل کرنے کا طریقہ کار اور فلسفہ مختلف ہوتا ہے۔ فوجی حکمران سینٹرل کمانڈ پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کو یہ تصور ہی نہیں ہوتا کہ قومیتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ وہ ہر مسئلہ کا حل طاقت میں ہی جانتے اور سمجھتے ہیں۔
"انسانیت کے قتل" کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں کہ کوئی پندرہ سال پہلے فیصل آباد میں ایک مسیحی استاد نعمت احمر کا قتل ہوا۔ احمر ایک بہت ہی عمدہ ادیب اور شاعر تھا۔ وہ پاکستان ہی کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے مظلوم طبقات کا دوست تھا۔ وہ ایک استاد تھا۔ عیسائیوں سے زیادہ اس کے مسلمان دوست تھے۔
سماجی مسائل کے باب میں "بسنت یا بسنت پالا اڑنت" کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ تہواروں کے بارے میں سب سے پہلا شکار تو بسنت کا تہوار ہوا۔ فتویٰ دے دیا گیا کہ بسنت غیر اسلامی ہے مگر پاکستان کے عوام خصوصاً زندہ دلان پنجاب نے فتویٰ کو اہمیت نہ دی۔ عوام اسی طرح پتنگ اڑاتے رہے اور بو کاٹا کے نعرے لگتے رہے، حتیٰ کہ ہماری نو دولتیہ اشرافیہ ملا کی مدد کو آئی۔ زمان خان نے اس کی دیوی نرملا دیش پانڈے کے بارے میں ایک اہم کالم لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی ہندوستانی کی موت پر اس سطح پر سوگ منایا گیا ہو کہ اس کی یاد میں ہر بڑے شہر میں تعزیتی اجلاس ہوئے ہوں۔ یہ ہے نرملا جی کا کمال۔ ان کی راکھ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ جنوبی ایشیا کے سارے دریاؤں بشمول سندھ میں بہائی جائے گی۔
نرملا دیوی سب کی سانجھی میراث تھیں۔ ان کا گزرنا سب کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔ ان کی سمادھی کو آگ ان کی لے پالک بیٹی نے لگائی جو بظاہر ہندو دھرم سے انحراف کے مترادف ہے۔ وہ نرملا دیوی کے بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح سے جب کسی صحافی نے پوچھا کہ "نئے ممالک کے تعلقات کیسے ہوں گے؟" تو انھوں نے بلاجھجک جواب دیا کہ "جیسے امریکا اورکینیڈا کے ہیں " امریکا اور کینیڈا کے درمیان کوئی ویزہ نہیں ہے۔
زمان خان نے ہر موضوع پر لکھا اور بہت خوب لکھا۔ شہر آرزو میں شامل کیے گئے تمام نئی نسل کے لیے معلومات کا ذریعہ ہیں۔