Devolution of Power is not Karachis major problem، Bilawal۔ دنیا کی قدیم یونیورسٹی آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کی سند حاصل کرنے والے بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے مسائل کا حل بتا دیا۔
بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان سے پیپلز پارٹی کی قیادت تو مطمئن ہوگئی مگر جمہوری اداروں کے ارتقاء پر نظر رکھنے والے وہ صاحبانِ علم جو پیپلز پارٹی سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں، پھر مایوسی کا شکار ہوگئے۔
بے نظیر بھٹو جب 1987 میں اپنی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئی تھیں تو انھوں نے پیپلز پارٹی کے منشور میں نیا سماجی معاہدہ New Social Contract کو شامل کرایا تھا، ان کے ذہن میں برطانیہ کا جمہوری نظام تھا۔ برطانیہ کے جمہوری نظام میں کاؤنٹی کا اہم کردار ہے۔ برطانیہ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں کاؤنٹی خود مختار ہوتی ہے۔
کاؤنٹی کی قیادت منتخب میئرکرتا ہے اور میئر کے پاس تعلیم، صحت، ہاؤسنگ، پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ حتیٰ کہ پولیس کو کنٹرول کرنے کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ لندن کے میئر کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی پارلیمنٹ قانون سازی اور پالیسی بنانے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی ادارے یورپ، امریکا، جاپان، بھارت اور چین میں قائم ہیں اور بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی پہلی سیڑھی کہا جاتا ہے۔ ان ممالک میں یہ ادارے اتنے زیادہ بااختیار ہیں کہ قدرتی آفات، حادثات، وبائی امراض کے بحران اور امن و امان کی صورتحال سمیت تمام نوعیت کے بحرانوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مرکزی حکومتوں سے مدد طلب کرتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے میئر ہنگامی صورتحال میں پیراملٹری دستوں اور مسلح افواج کے دستوں کو بلانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
امریکا اور یورپی ممالک کے تجربات سے متاثر ہو کر بے نظیر بھٹو نے نئے سماجی معاہدہ کا تصور پیش کیا تھا مگر پیپلز پارٹی کی مختلف ادوار میں اقتدار میں آنے والی حکومتوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے قریبی مشیر جنرل نقوی کے تیار کردہ نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کو نافذ کیا۔ اس بلدیاتی نظام کی بناء پر کراچی اور لاہور میں خوب ترقی ہوئی۔ اس نظام کے تحت کراچی کے پہلے ناظم جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان تھے۔ دوسرے ناظم ایم کیو ایم کے مصطفی کمال تھے۔ ان ادوار میں کراچی میں اوورہیڈ برج اور انڈر پاس تعمیر ہوئے۔ چوڑی سڑکیں تعمیر ہوئیں، سہراب گوٹھ سے کلفٹن تک جانے کے لیے جدید طرز پر سڑکوں کی تعمیر کی گئی اور شہر میں صفائی کا نظام بہتر ہوا۔
کراچی کے شہریوں کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ عیدالاضحیٰ کے تین دنوں میں قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اٹھانے کا کام ہوسکتا ہے۔ اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبہ ناظم کی نگرانی میں آنے سے عوامی نمایندوں کی نگرانی کا تصور عملی شکل اختیار کرنے لگا۔ اس بلدیاتی نظام میں خواتین کی نمایندگی لازمی طور پر 24فیصد کی گئی۔ اس بناء پر یونین کونسل، ٹاؤن اور کراچی سٹی گورنمنٹ کے ایوانوں میں خواتین کی نمایندگی بڑھ گئی۔ اقلیتوں، مزدور اور کسانوں کے نمایندوں کو ان اداروں میں نمایندگی مل گئی مگر اس نظام میں چند نقائص تھے۔
آئین میں دی گئی صوبائی خودمختاری کے تصور کو مجروح کیا گیا تھا۔ وفاق براہِ راست اضلاع سے رابطہ میں تھا۔ ایم کیو ایم کے دور میں ساری ترقی متوسط طبقہ کے لیے مختص ہوگئی۔ کراچی کے مضافاتی علاقوں کو نظرانداز کیا گیا۔ لیاری ٹاؤن میں ایک بھی اوورہیڈ برج اور انڈر پاس تعمیر نہ ہوا، شہر کے اطراف کے گوٹھوں اور کچی بستیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیاگیا۔ نعمت اﷲ خان نے پرائیویٹ سیکٹر کو جدید بسیں چلانے کی طرف راغب کیا مگر ان کے جاتے ہی یہ بسیں لاپتہ ہوگئیں۔
ایم کیو ایم نے انڈرگراؤنڈ ٹرین، میٹرو بس، سرکولر ریلوے کی تعمیر پر توجہ نہیں دی، صرف مصطفی کمال کے آخری دور میں سی این جی سے چلنے والی گرین بسیں لانڈھی سے ٹاورکی طرف دوڑتی نظر آتی تھیں۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔
اس حکومت نے بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ انتخابات نہیں کرائے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ اور دیگر صوبوں میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے مگر حکومت نے نچلی سطح کے نظام کو ختم کردیا۔ سندھ میں جو بلدیاتی قانون نافذ ہوا اس میں کونسلر کو تمام اختیارات سے محروم کیا گیا۔
حکومت نے کوڑا اٹھانے کی ذمے داری ایک چینی فرم کے سپرد کردی۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بلدیاتی کنٹرول سے علیحدہ کردیا گیا۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ختم کر کے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی تحویل میں دیا گیا۔ کونسلر کے اختیارات ختم ہونے سے کوڑے اور سیوریج کے پانی کا مسئلہ عالمی مسئلہ بن گیا۔ ٹرانسپورٹ کے سابق وزیر ناصر شاہ کو ٹی وی پروگرام میں اس ناقص کارکردگی پر معذرت کرنی پڑی۔ بلدیہ کراچی کے موجودہ ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد صحافیوں کے سامنے یہ اقرارکرنا پڑا کہ صورتحال مایوس کن ہے۔
گزشتہ سال اسی مہینہ میں ہونے والی موسلادھار بارش سے شہر ڈوب گیا جس سے ثابت ہوگیا کہ کراچی کا بلدیاتی نظام ٹھپ ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ 2017 کی مردم شماری کے نتائج میں تبدیلی کی گئی ہے۔ نئے مردم شماری کے بعد بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں۔ یہ کیسی عجیب صورتحال ہے کہ پیپلز پارٹی 2017کی متنازعہ مردم شماری کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں حصہ لے چکی ہے، سندھ میں حکومت بناچکی ہے اور اب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا مسلسل مطالبہ کررہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے بارے میں حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سندھ میں 12 سالہ دور حکومت سے نئے تضادات پیدا ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شہر کے مضافاتی علاقوں میں لینڈ مافیا کی لڑائی لسانی شکل اختیار کررہی ہے۔
کراچی کے شہریوں میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومت کوٹہ سسٹم پر عمل نہیں کرتی اور انھیں ملازمتوں میں مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ ان تمام مسائل کا حل ایک سپر بلدیہ کراچی ہے۔ شہر کے تمام علاقے اس ادارہ کی زیرِ نگرانی ہونے چاہئیں اور اختیارات نچلی سطح تک (کونسلر) منتقل ہونے چاہئیں۔ یوں یہ شہر تباہی سے بچ سکتا ہے۔