وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شاید کراچی کے شہریوں کی آہ و بکا سن لی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا پہلا منصوبہ شروع ہونے کی خبریں اخبارات کے صفحات کی زینت بنیں۔ کمشنر کراچی کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں یہ خوش خبری دی گئی ہے کہ اس ماہ میں ہی ریڈ لائن کاریڈور کی تعمیر کا آغاز ہوجائے گا۔
ریڈ لائن ملیر ہالٹ سے نمائش تک تعمیر ہوگی۔ اس منصوبہ پر 500 ملین ڈالر کی لاگت آئے گی۔ اس اجلاس میں بتایا گیا کہ ریڈ لائن دو کاریڈور پر مشتمل ہوگی۔ اس اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ یہ27 کلومیٹر طویل ہوگی۔ اس کا دوسرا کاریڈرو نمائش تا ٹاور تک تعمیر ہوگا۔ کراچی کے حوصلہ مند کمشنر نوید شیخ کا عزم ہے کہ ریڈلائن کاریڈور کی تعمیر کے لیے سڑکوں کو چوڑا کیا جائے گا اور پیدل چلنے والے شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے جدید پل اور انڈرپاس تعمیر ہوں گے۔
یہ بھی خبر ہے کہ مسافروں کے لیے جدید ٹرمینل قائم ہونگے۔ یہ منصوبہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانے کے لیے BRT کا حصہ ہے اور اس منصوبہ کی ECNEC کے اجلاس میں منظوری دی گئی ہے مگر اس اہم اجلاس کی کارروائی کی جو روداد شایع ہوئی ہے اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ منصوبہ کتنے عرصہ میں مکمل ہوگا۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 2016 میں گرین لائن منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ یہ منصوبہ بڑا بورڈ سے نمائش تک تعمیر ہونا تھا، پھر اس میں توسیع ہوئی اور یہ سرجانی ٹاؤن تک پھیل گیا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ گرین لائن منصوبہ میں ٹاور تک توسیع کی جائے مگر 5سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا۔
اب منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر اسد عمر جو سینیٹ کی انتخابی مہم کے لیے گزشتہ ہفتہ کراچی کے دورے پر تھے، انھوں نے یہ راز افشا کیا تھا کہ اس سال کے وسط تک گرین لائن بسیں دوڑنے لگیں گی۔ پھر اخبارات میں بسوں کی خریداری کے ٹینڈر کی اشاعت ہوئی، مگر کراچی کے عوام کی یادداشت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال گرین لائن منصوبہ کی تکمیل کا اعلان ہوتا ہے اور پھر سال گزرجاتا ہے۔
کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں ایک سے جس کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ کروڑ ہے اور ترقیات کے ماہرین کراچی کی آبادی 3کروڑ کے قریب بتاتے ہیں۔ یہ شہر پبلک ٹرانسپورٹ سے مستقل طور پر محروم ہے۔ کراچی کے شہری پبلک ٹرانسپورٹ کی دردناک کہانی سناتے ہیں۔ کراچی شہر میں کبھی سرکاری شعبہ میں بسیں چلا کرتی تھیں مگر کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن KRTC اور سندھ ٹرانسپورٹ کارپوریشن SRT کو بند ہوئے کسی عشرے بیت چکے۔ ایک زمانہ میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ منافع کے اعتبار سے پرکشش تھا، یوں بسوں میں سرمایہ کاری خوب ہوتی تھی۔
ہر روٹ پر بسیں دوڑ لگاتی نظر آتی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ اقتدار میں کراچی شہر میں منی بسیں چلنا شروع ہوئیں، ان بسوں اور منی بسوں میں مسافروں کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا تھا۔ بسوں کی تیز رفتاری اور ناتجربہ کار ڈرائیوروں کی بناء پر حادثات معمول کی بات تھے جس پر آئے روز احتجاج ہوتا تھا۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں کراچی میں سرسید کالج کی طالبہ کی منی بسوں کی ریس میں ہلاکت کے بعد شہر میں فسادات ظہور پذیر ہوئے تھے۔
شہر میں امن و امان کی صورتحال بگڑنے کی بناء پر منی بسوں اور بسوں کو سڑکوں پر نذرآتش کرنے، بسوں میں لوٹ مار کے واقعات کی بھرمار اور پیٹرول اور فاضل پرزہ جات کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کم ہونا شروع ہوئی اور ٹوٹی پھوٹی بسیں اور منی بسیں سڑکوں پر نظر آنے لگیں۔ بہت سارے روٹس پر بسیں چلنا بند ہوگئیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح کے اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم ہوا تو پبلک ٹرانسپورٹ کا شعبہ کراچی سٹی گورنمنٹ کے دائرہ کار میں آیا۔ اس وقت ناظم نعمت اﷲ خان کے ایک قریبی ساتھی پروفیسر سعید عثمانی یہ دعوی کرتے ہیں کہ نعمت اﷲ خان نے انڈر گراؤنڈ ٹرین کا منصوبہ بنایا تھا مگراس منصوبہ پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ اس دوران سابق وزیر خزانہ اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے بینکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے قرضوں کی اسکیم شروع کیں، یوں کراچی میں لیز پر حاصل کردہ جدید بسیں سڑکوں پر دوڑنے لگیں۔
ان بسوں میں ایئرکنڈیشنڈ اور آٹومیٹک ڈور والی بسیں بھی شامل تھیں۔ ان بسوں کے مختلف کرائے تھے۔ پھر میٹرو بس بھی چلی جس میں مسافر سیٹ پر بیٹھ کر سفر کرتے تھے، یوں مسافروں کو عزت نفس کے ساتھ جدید سہولتیں حاصل ہوئیں مگر نعمت اﷲ خان کے رخصت ہوتے ہی یہ بسیں سڑکوں سے لاپتہ ہوگئیں۔ ٹرانسپورٹ کے شعبہ کو کور کرنے والے رپورٹروں کا کہنا ہے کراچی کے خراب حالات کی وجہ سے کچھ بسوں کو ان کے مالکان پنجاب لے گئے اور جو باقی بچے ان میں سے کچھ نے بینک کے قرضے ادا نہیں کیے۔
مصطفی کمال نے ناظم کا عہدہ سنبھالا۔ انھوں نے خوبصورت سڑکیں، انڈرپاس اور اوور ہیڈ برج تعمیر کیے، یوں کراچی کا ایک لمحہ کے لیے دنیا کے جدید شہروں کی فہرست میں شامل ہونے کا وہم پیدا ہوا۔ مگر انڈرگراؤنڈ ٹرین اور بسوں کے لیے مختص کاریڈور اور سرکلر ریلوے کے آغاز کے لیے کچھ نہیں ہوا۔ گورنر عشرت العباد کے بار بار دعوؤں کے بعد سٹی اسٹیشن سے چنیسر ہالٹ تک سرکلر ریلوے متحرک ہوئی مگر چند ماہ بعد یہ نامکمل سرکلر ریلوے بغیر کسی اعلان کے بند ہوگئی۔
2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی۔ لیکن کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ اسی دور میں میاں شہباز شریف چین کا ماڈل لاہور لائے اور جدید ترین ایئرکنڈیشن بسیں اپنے مختص کردہ کاریڈور پر چلنے لگیں۔ انھوں نے اورنج ٹرین کا منصوبہ شروع کیا مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ سندھ کے دیگر تمام شہروں میں بھی جدید بسوں کر فراہمی پر توجہ نہیں دی گئی۔ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں سرکلر ریلوے کی بحالی میں خصوصی دلچسپی لی۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر ریلوے ٹریک سے تجاوزات ختم کی گئیں اور ایک نامکمل سرکلر ریلوے شروع ہوئی۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر سومرو اور اقتصادی ماہر ڈاکٹر عشرت حسین نے سرکلر ریلوے کے پرانے روٹ کا معائنہ کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ سرکلر ریلوے جلد اپنے پرانے روٹ پر چلنے لگی گی مگر محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اور حکومت سندھ سرکلر ریلوے کی کامیابی میں سنجیدہ نہیں ہے۔
اس حکومت نے ریلوے اسٹیشن پر سیکیورٹی، ریلوے اسٹیشن تک آنے اور جانے کے لیے شٹل سروس شروع کرنے اور ریلوے اسٹیشنوں تک ذیلی سڑکوں کی تعمیر کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہے مگر ریلوے کا محکمہ وقت پر گاڑی کا آنا، راستہ میں انجن کے خراب ہونے اور ریل گاڑی کی صفائی، پانی اور روشنی کی دستیابی کے معاملات میں بدنام ہے۔ اس بناء پر یہ خطرہ ہے کہ سرکلر ریلوے خسارہ کا سودا ہوگا۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ صرف دو لائنوں گرین اور ریڈ لائن کی تعمیر سے حل نہیں ہوگا، کراچی کو جدید ماس ٹرانزٹ پروگرام کی ضرورت ہے۔ اس نظام میں انڈرگراؤنڈ ٹرین، سرکلر ریلوے اور گرین لائن اور ریڈ لائن جیسی 10 کے قریب لائنوں کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ کراچی کے کمشنر کتنے ہی پرعزم کیوں نہ ہوں تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ کراچی کے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں فراہم کرنے میں کسی حکومت یا ڈسٹرکٹ ناظم نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔