اٹلی یورپ کا پہلا ملک ہے جو صدی کے بدترین وائرس کورونا سے متاثر ہوا۔ اٹلی کی حکومت نے شروع میں کورونا وائرس کے خطرناک اثرات کو محسوس نہیں کیا۔ حکومت نے شہریوں کو گھروں میں مقید ہونے کے لیے جو ہدایات جاری کی تھیں لوگوں نے ان ہدایات پر سنجیدگی سے عمل نہیں کیا۔ کورونا نے تباہی مچادی۔
اٹلی سے کورونا کے کیریئر جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اسپین سمیت یورپ کے دیگر ممالک میں گئے، یوں پورا یورپ اور پھر امریکا اس وائرس سے متاثر ہوا۔ اٹلی کی حکومت نے لاک ڈاؤن پر سختی سے عملدرآمد کرانا شروع کیا۔ اٹلی کے وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ سیاست کے بجائے سائنس پر عمل کریں گے۔
سندھ کی حکومت نے ڈاکٹروں کے مشوروں کو مقدم جانا، سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اس مہینے کے آغاز سے ہی اقدامات کرنے شروع کردیے تھے، تعلیمی اداروں کو بند کیا گیا، اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ ایران سے آنے والے زائرین کو قرنطینہ میں رکھنے کے انتظامات ہوئے۔ پھر بھی صورتحال بگڑتی ہوئی محسوس ہوئی تو صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا، فوج کو مدد کے لیے طلب کرلیا گیا۔
وزیر اعلیٰ نے ڈیلی ویجز مزدوروں اور غریبوں کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔ حکومت سندھ نے کوروناکا مقابلہ کرنے کے لیے فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فنڈز کی نگرانی میں سماجی کارکنوں اور معروف ڈاکٹروں کو شامل کیا گیا۔ حکومت نے مخیر حضرات سے اپیل کی کہ وہ لاک ڈاؤن سے متاثرین کی مدد کے لیے اپنے خزانے کھول دیں۔ وفاقی حکومت نے کورونا وائرس کے خطرناک اثرات کو محسوس نہیں کیا۔
وفاقی حکومت کی تابعدار پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے اپنے وزیر اعظم کی ڈاکٹرائن کی پیروی کی۔ ان صوبوں میں خاصی تاخیر سے تعلیمی ادارے بند کیے گئے۔ بیرون ممالک سے آنے والے افراد کو قرنطینہ میں رکھنے اور ان کی اسکیننگ کے لیے اقدامات نہیں ہوئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی نشری تقریر میں کہا کہ وہ لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کا مطلب پورے ملک میں کرفیو لگانا ہے۔ کرفیو کا مطلب سڑکوں اور گلیوں میں فوج اور پولیس کو کھڑا کرنا ہے تاکہ شہریوں کو گھروں سے نکلنے نہ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چین اور اسپین سے مختلف حالات ہیں۔ پاکستان میں 25فیصد کے قریب افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ مکمل لاک ڈاؤن سے یہ لوگ بھوک کی بناء پر مر جائیں گے۔
ایک حکومتی ادارے کی جانب سے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد وفاق، پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں کی پالیسی اچانک تبدیل ہوگئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے 22 مارچ کو 3:30 بجے یہ تقریر کی تھی مگر 24 گھنٹے مکمل ہونے سے پہلے پنجاب کی حکومت نے پورے صوبہ میں لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ہنگامی تقریر میں منگل کی صبح سے پورے پنجاب میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ خیبر پختون خوا کی حکومت نے حکومت پنجاب کے فیصلہ کی پیروی کی۔ تھوڑی دیر میں آزاد کشمیر کی حکومت نے بھی یہی فیصلہ کیا۔ گلگت کی مقامی حکومت لاک ڈاؤن کا فیصلہ پہلے ہی کرچکی تھی، یوں تحریک انصاف کی حکومت کی وقت پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی حقیقت واضح ہوگئی۔
وفاقی وزراء نے ان فیصلوں کی حمایت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں کرفیو نہیں لگارہی ہیں اور صرف لاک ڈاؤن کا فیصلہ ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کی مشیر اطلاعات نے فرمایا کہ وہ سندھ کی حکومت کے لاک ڈاؤن کے فیصلے سے اب بھی متفق نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے صحافیوں سے ملاقات میں لاک ڈاؤن اور کرفیو نفاذ کرنے کے درمیان فرق کو بیان کرنے کی کوشش کی، یوں ملک میں ایک دفعہ پھر کنفیوژن پیدا ہوگیا۔
لاک ڈاؤن کا تصور چین سے آیا۔ جب چین کے صوبہ ووہان میں کورونا نے تباہی مچانی شروع کی تو ڈاکٹروں نے ایک طرف مریضوں کے علاج کی طرف توجہ دی تو دوسری طرف بائیولوجیکل سائنس کے ماہرین نے کورونا وائرس اوراس کے خلاف مدافعت کے طریقوں پر تحقیق شروع کردی۔
کورونا سے ملتا جلتا وائرس اسپین فلو 1981 میں یورپ میں بہت پہلے تباہی مچا گیا تھا۔ 1918 میں پھیلنے والے فلو سے یورپ میں لاکھوں افراد ہلاک ہوگئے تھے، یوں سائنسدانوں نے مختلف وائرس پھیلنے کی تاریخ کا جائزہ لیا اور چینی سائنسدان فوری طور پر اس نتیجہ پر متفق ہوئے کہ اگر لوگ ایک دوسرے سے دور رہیں اور جسمانی طور پر ایک دوسرے سے دور رہیں، ہاتھ نہ ملائیں اور نزلہ اور کھانسی کے مریض منہ پر ماسک باندھیں، کسی فرد کی چھینک دوسرے انسان کو نہ لگے تو یہ وائرس نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔
یوں Social Distance سماجی دوری کی اصطلاح منظرعام پر آئی۔ چینی حکومت کے سائنسدانوں کی ہدایات پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوگیا۔ ایک اندازے کے مطابق 80 کروڑ لوگوں کو ہفتوں گھروں میں بند رکھا گیا۔ چین کی حکومت نے اربوں ڈالر کوروناکو شکست دینے کے لیے خرچ کرنے شروع کیے۔ یوں دو ماہ کے عرصہ میں چینیوں نے اس مرض پر قابو پالیا۔ چینی حکومت نے دن رات مریضوں کی جان بچانے والے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کی تکریم میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کو چین کی آرمی کے دستوں نے سلامی دی اور اسی طرح گارڈ آف آنرپیش کیا گیا جیسے غیر ملکی سربراہان مملکت کو پیش کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں صحت کے شعبہ کو خاطرخواہ اہمیت حاصل نہیں ہے۔ گزشتہ70 برسوں سے جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم صحت کے شعبہ پر خرچ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں سرکاری اسپتالوں میں جدید سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہے۔ پورے ملک میں صرف1500وینٹی لیٹر دستیاب ہیں جن میں سے اکثریت پنجاب اور اس کے بعد سندھ میں ہیں جن میں سے خاصے خراب ہیں۔
اسلام آباد میں وفاق کے سب سے بڑے اسپتال پمز کے ڈاکٹروں نے ایک پریس کانفرنس میں اسپتال کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل کے عملے کو کورونا سے بچاؤ کے لیے دستانے اور خصوصی آلات تک فراہم نہیں کیے گئے۔ اسپتالوں میں خصوصی نگہداشت کے شعبہ کم ہیں اور ان شعبوں میں جان بچانے والے وینٹی لیٹروں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ نوجوان ڈاکٹر اسامہ نے مریضوں کی جان بچانے کے لیے جان دے دی۔
سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر اسامہ نشانِ حیدر کے مستحق ہیں۔ وفاقی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کر کے اور 1200 ارب کے پیکیج کا اعلان کر کے اس صورتحال میں پہلی دفعہ مثبت قدم اٹھایا ہے مگر ماہرین اس اعلان کو ناکافی قرار دے رہے ہیں۔
امریکی صدرٹرمپ نے کورونا کے علاج کے لیے ملیریا کی دوائی کا نام لیا تو پورے ملک سے یہ دوائی لاپتہ ہوگئی۔ ایک دوا ساز کمپنی کے افسر کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کی تیار کردہ ملیریا کی دوائی پورے ملک کے امیروں نے خرید لی ہے۔ اس طرح بازار سے ہاتھ صاف کرنے والے سینیٹائزر مارکیٹ سے غائب ہیں۔ وزیر اعظم کے صحت کے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا ایک زمانے میں ادویات اور صحت کی سہولتوں کے بارے میں ایک این جی او کے سربراہ تھے۔ وہ بھی ادویات کی قیمتوں میں کمی اور ان کی عدم دستیابی کے مسئلہ کو حل نہیں کرپائے ہیں۔
آل پارٹیز کانفرنس میں اس مؤقف کا اظہار کیا گیا ہے کہ حالات کا تقاضہ ہے کہ سیاسی قیادت ایک پیج پر متحد ہو جائے مگر وفاقی حکومت تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں ناکام رہی۔ یہ کام بلاول اور شہباز شریف نے کیا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کوشش کی کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے مگر وزیر اعظم کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ حزب اختلاف کے رہنمائوں کی تقاریر سنتے۔
بہرحال لاک ڈاؤن اور کرفیو کے نفاذ کی بحث سے قطع نظر صحت کے نظام کی زبوں حالی کو محسوس کرنا چاہیے۔ آئندہ مالیاتی سال کے بجٹ میں غیرپیداواری منصوبوں کے لیے رقم کم کر کے صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ رقم مختص ہونی چاہیے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق جی ڈی پی کا 5 فیصد وفاق اور صوبوں کو صحت کے شعبہ پر خرچ کرنا چاہیے۔