Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sindh Hukumat Se Sawal

Sindh Hukumat Se Sawal

" کھڑکیاں لوہے کی گرل سے بند تھیں، اوپر کی منزل کے دروازے بھی بند تھے۔ میں نے پہلے کورنگی انڈسٹریل ایریا کی بروکس چورنگی پر قائم فائر بریگیڈ اسٹیشن پر ٹیلیفون کیا تو جواب ملا کہ آتشزدگی پر قابو پانے والی گاڑی میں پانی موجود نہیں ہے۔

پھر ہم نے مایوس ہو کر دوسرے فائر اسٹیشن فون کیے آخرکار میں خود بلال چورنگی اسٹیشن گیا۔ فائر بریگیڈ دو گھنٹے بعد پہنچی۔ جب تک 16کارکن دم گھٹنے سے ہلاک ہو چکے تھے۔ صبح 9بج کر 45 منٹ پر میں چائے پی کا فارغ ہوا تھا۔ مجھے فیکٹری کی عمارت کے اوپری حصہ سے چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں۔

یہ لوگ جن میں میرے بچے بھی شامل تھے مدد کے لیے پکار رہے تھے مگر وہ نہ نیچے اترسکتے تھے نہ نیچے سے اوپر جاسکتے تھے۔ آگ پر قابو پانے کی تمام کوششیں رائیگاں چلی گئیں، وقت گزرنے کے ساتھ آگ کے شعلوں میں شدت آنے لگی۔" ایک بوڑھے شخص احسن نے زارو قطار روتے ہوئے بتایا کہ " میں بنیادی طور پر دھوبی ہوں، میرے تین بیٹے 37 سالہ عرفان، 33سالہ فرمان اور 30سالہ فرحان مہران ٹاؤن میں لیدرکی اشیاء تیار کرنے والی فیکٹری کی آگ کی نذر ہوئے۔

میری زندگی میں کچھ نہ بچا، ان بچوں نے زندگی کا سفر آسان کردیا تھا۔ میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے اسکول بھیجنے کے قابل نہیں تھا مگر میرے ان بچوں نے ہوش سنبھالتے ہی میرا ہاتھ بٹانا شروع کردیا تھا، دو گھنٹے کی مدت میں سب کچھ ختم ہوگیا۔ عرفان اور فرمان کے چار چار بیٹے ہیں جب کہ فرحان کے تین بچے ہیں۔

میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں ان بچوں کو روٹی کیسے مہیا کروں گا۔" مرنے والے تینوں نوجوانوں کے بھائی افضال نے کہا کہ "میری بوڑھی ماں اپنے بچوں کا انتظارکررہی ہے، میں اس کو کیا جواب دوں گا؟ میں اپنے بھائی کے بغیر کام پر کیسے جاؤں گا؟ " افضال کا نوحہ سن کر صحافیوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ لیدرکی فیکٹری ہر طرف سے بند تھی۔ مالکان نے چوریاں روکنے کے لیے یہ کیا تھا۔ ہنگامی صورتحال میں استعمال کیے جانے والے راستے موجود نہیں تھے۔ ہر منزل پر نصب دروازوں پر بڑے بڑے تالے لگے ہوئے تھے۔

مالکان کی چوکیدار کو ہدایات تھیں کہ کسی صورت یہ تالے کھلنے نہیں چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیکٹری میں موجود 25 ملازمین دھوئیں سے بے ہوش ہوگئے۔ امدادی دستوں نے فیکٹری کی دیوار توڑ کر راستہ بنایا جس کے بعد فائر بریگیڈ کا کام آسان ہوا۔ یہ فیکٹری غیر قانونی طور پر رہائشی علاقہ میں قائم کی گئی تھی اور ایسی کئی فیکٹریاں اس علاقے میں موجود تھیں۔ کسی فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجہ میں مزدوروں کی ہلاکتوں کا معاملہ نیا نہیں ہے۔ ہر مہینے دو مہینے کراچی کی کسی فیکٹری میں اس طرح کا حادثہ ہوتا ہے۔

کراچی کے صنعتی علاقوں میں کارخانوں میں اچانک آتشزدگی معمول کی بات ہے مگر چند سال قبل بلدیہ ٹاؤن میں قائم گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں 268 افراد کی ہلاکت ملک میں تاریخ کا بد ترین سانحہ تھا۔ بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری کی عمارت بھی ہر طرف سے بند تھی، کھڑکیوں کو بند کردیا گیا تھا۔ مزدور ایک منزل سے دوسری منزل تک نہیں جاسکتے تھے۔ اس عمارت میں ہنگامی حالات میں باہر نکلنے والے راستے نہیں تعمیرکیے گئے تھے اور نہ ہی آگ پر قابو پانے کے جدید آلات موجود تھے۔

بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں گھنٹوں آگ لگی رہی۔ آگ بجھانے والے عملے کے پاس کیمیکل سے پیدا ہونے والی آگ پر قابو پانے کے لیے جدید فوم دستیاب نہیں تھا۔ اس وقت فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پانی کی کمی کا بھی شکار ہوئی تھیں۔ اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات ہوئیں اور پھر تخریب کاری کا مسئلہ سامنے آیا تھا۔ بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی میں تخریب کاری کا عنصر سامنے آنے سے مالکان کو کچھ بچاؤ کا راستہ ملا تھا مگر اس وقت شہری امور کے ماہرین نے اس سانحہ کی ذمے داری فیکٹری مالکان، محکمہ لیبر، سائٹ کی انتظامیہ، بلدیہ کراچی اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکاروں پر عائد کی تھی۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کو شہری مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس بناء پر حکومت نے اس آتشزدگی کے ذمے دار محکموں کے سربراہوں کا احتساب نہیں کیا تھا۔ مہران ٹاؤن ضلع کورنگی میں واقع ہے۔ ضلع کورنگی کی انتظامیہ کی قیادت ڈپٹی کمشنر کے پاس ہے۔ اس واقعہ کی ذمے داری براہِ راست مالکان، ضلعی انتظامیہ، لیبر ڈپارٹمنٹ، بلدیہ کراچی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکاروں پر عائد ہوتی ہے۔ انتظامیہ کے اہلکاروں کی ذمے داری ہے کہ ضلع کی حدود میں رہائشی علاقوں میں فیکٹریوں کے قیام کو روکیں اور فیکٹریوں کی صنعتی علاقوں میں منتقلی کو یقینی بنائیں۔

محکمہ لیبر کے انسپکٹر ہر فیکٹری کا معائنہ کرتے ہیں۔ اس انسپکٹر کی ذمے داری ہے کہ فیکٹری ایکٹ کے تحت فیکٹری میں حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیں، اگر فیکٹری میں حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو متعلقہ انسپکٹر کو فیکٹری مالکان کا چالان کرنا چاہیے۔ اس خلاف ورزی کی اطلاع مجاز حکام تک پہنچنی چاہیے تاکہ حکام ضلع انتظامیہ کو ہدایات جاری کریں۔ بلدیہ کراچی کے انسپکٹر کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ہر فیکٹری میں حفظانِ صحت کے اصولوں پر عملدرآمد کا جائزہ لے اور اگر کسی ادارہ میں حفظانِ صحت کے پروٹوکول پر عملدرآمد نہیں ہورہا تو متعلقہ حکام فیکٹری کو سیل کرسکتے ہیں۔

سول ڈیفنس کے اہلکاروں کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ فیکٹری میں ہنگامی حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے، ہنگامی صورتحال میں باہر نکلنے کے راستے اور آگ بجھانے کے آلات کی جانچ پڑتال کا فریضہ انجام دیں۔ اسی طرح بلدیہ کراچی کا بنیادی فریضہ ہے کہ فائر بریگیڈ اسٹیشن میں پانی اور دیگر تکنیکی آلات بروقت دستیاب ہوں۔ آگ بجھانے والی گاڑی تیز رفتاری سے دوڑنے کی پوزیشن میں ہے اور اس گاڑی میں آگ بجھانے کے لیے ہروقت پانی دستیاب ہو۔ اس کے علاوہ کیمیائی آگ پر قابو پانے کے لیے جدید کیمیکل موجود ہو مگر حالات و واقعات کے بار بار کے جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام محکمے کے اہلکار فیکٹریوں کا دورہ تو کرتے ہیں مگر ان کے دورہ کا مقصد اپنی غیر قانونی وصولی کرنا ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تمام محکموں کے چھوٹے اہلکار فیکٹریوں سے روزانہ جو رقم وصول کرتے ہیں وہ صرف ان کو ہی نہیں ملتی بلکہ ایک فارمولے کے تحت حکام بالا تک تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کروڑوں روپے وصول کیے جاتے ہیں اور اس رقم میں سے خطیر رقم سندھ میں فیصلہ ساز اتھارٹی کے ان داتا کو نذرانے کے طور پر دی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے حادثہ پر حکومت سندھ کے کسی وزیر نے کوئی بیان نہیں دیا نہ متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے مرنے والے ہر فرد کے لیے 10لاکھ روپے فی کس معاوضہ دینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

سندھ حکومت کے اداروں کی کارکردگی سے بہتر تو کراچی یونیورسٹی کے نوجوان اسکاؤٹ حمزہ مبین کی کارکردگی ہے جو بلامعاوضہ شہریوں کو ہنگامی صورتحال میں جان بچانے کی تربیت دے رہے ہیں۔ سندھ حکومت سے یہ سوال ہونا چاہیے کہ اتنے بڑے سانحات کے بعد کیا حکومت سندھ اپنی پالیسی تبدیل کرے گی؟