سندھ کے 11 اضلاع میں رواں سال سگ گزیدگی کے 6000 واقعات ہوئے ہیں۔ 70 فیصد افراد کی ویکسینیشن مکمل نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر ویکسینیشن کا دوسرا ڈوز لگانے سے پہلے ایف آئی آر طلب کرتے ہیں۔ پولیس والے آسانی سے ایف آئی آر درج نہیں کرتے۔ کتوں کے کاٹنے کا مسئلہ سندھ ہائی کورٹ سکھر بنچ کے سامنے پیش ہوا۔
فاضل جج صاحبان نے یہ رائے دی کہ اگر کسی علاقہ میں کتے کے کاٹنے کا کیس ہوا تو اس علاقہ کے رکن صوبائی اسمبلی کو معطل کیا جائے گا۔ اگلی سماعت تک آوارہ کتوں کے خلاف آپریشن نہیں ہوا تو ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے رتوڈیرو اور جام شورو سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی کی رکنیت معطل کرنے کے الیکشن کمیشن کو احکامات جاری کیے۔
رتوڈیرو سے فریال تالپور، وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اورگیان چند اور ملک سکندر صوبائی اسمبلی میں جام شورو ضلع کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سینئر وکیل اور نیب کے سابق پروسیکیوٹر عرفان قادر نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو اپنی حدود سے تجاوز قرار دیا۔ انسانی حقوق کمیشن نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو غیر مناسب کہا ہے۔ فریال تالپور نے اس فیصلہ کے خلاف اپیل میں یہ عذر پیش کیا ہے کہ رکنِ اسمبلی بلدیاتی امور میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ منتخب اراکین کی معطلی کا معاملہ الیکشن کمیشن اور متعلقہ اسمبلی کے اسپیکر کا ہے، کوئی اور ادارہ منتخب اراکین کی رکنیت معطل نہیں کرسکتا۔
قطع نظر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے سندھ میں کوڑا کرکٹ، سیورج کے پانی کے بعد کتوں کے کاٹنے کا مسئلہ بھی سنگین ہوگیا ہے۔ آوارہ کتوں کی افزائش کی مسئلہ گندگی سے منسلک ہے۔ یہ کتے کوڑا کرکٹ میں ملنے والی خوراک کی بناء پر پرورش پاتے ہیں۔ جب ان کی تعداد بڑھتی ہے اور خوراک میں کمی ہوتی ہے تو یہ جانوروں اور انسانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ آج سے چند سال قبل رتوڈیرو میں ایک چھوٹے بچہ پر پاگل کتوں نے حملہ کیا تھا۔ اس بچہ کو کراچی میں بچوں کے قومی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا مگر ڈاکٹر اس کی جان نہیں بچاسکے تھے۔
کچھ عرصہ پہلے اندورن سندھ میں کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین ناپید ہوگئی تھی، یہ ویکسین بھارت میں تیار ہوتی ہے۔ جب پاکستان نے بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع کیے تھے تو سندھ سمیت ملک بھر میں ویکسین کی قلت پیدا ہوگئی تھی اور بہت سے افراد ویکسین کی عدم دستیابی کی بناء پر موت سے ہمکنار ہوئے تھے۔
حکومت پاکستان نے صورتحال کا ادراک کیا اور انسانی جان بچانے والی دواؤں کی بھارت سے درآمد پر پابندی ختم کردی گئی تھی۔ اب لیاقت یو نیورسٹی اسپتال کے اے ایم ایس ڈاکٹر شاہد جونیجو نے وضاحت کی ہے کہ اسپتال میں یہ ویکسین وافر مقدار میں موجود ہے مگر معزز ڈاکٹر صاحبان یہ فریاد کررہے ہیں کہ آوارہ کتوں کے خاتمے کے لیے مربوط آپریشن کیا جائے ورنہ لوگوں کی زندگی اجیرن رہے گی۔ آوارہ کتوں کی افزائش اور سیورج لائنوں کا پھٹنا سندھ کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں کی گلیوں اور سڑکوں کا گندے پانی کی جھیلوں میں تبدیل ہونا، ہر شہرگاؤں میں کوڑا کرکٹ کے ٹیلے بننا پھر صفائی ستھرائی کی بدترین صورتحال میں وبائی امراض کے پھیلنے سمیت تمام معاملات بلدیات اور صحت کے نظام سے منسلک ہیں۔
پیپلزپارٹی جب برسر اقتدار آئی تو ایم کیو ایم اس کی اتحادی تھی۔ صوبہ میں سابق صدر پرویز مشرف کا تیارکردہ نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ تھا۔ اس نظام میں ناظم مکمل طور پر بااختیار تھا اور یہ اختیار متعلقہ یونین کونسل کے کونسلرکو بھی حاصل تھے۔ برطانوی ہند حکومت نے جب 19ویں صدی کے وسط میں بلدیاتی نظام نافذ کیا تھا تو متعلقہ یونین کونسل کا کونسلر اپنے علاقہ کی صفائی ستھرائی اور پانی کی فراہمی کا ذمے دار اقرار پایا تھا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام میں کونسلر کی یہ ذمے داری تھی اور اس مقصد کے لیے ہر یونین کونسل کو بجٹ دیا جاتا تھا۔
محلہ کے افراد صفائی نہ ہونے اور سیورج کے نظام کی خرابی اور صاف پانی کی عدم فراہمی کی شکایات متعلقہ کونسلر سے کرتے۔ جو کونسلر اچھا کام کرتے تھے اگلی دفعہ پھر منتخب ہوجاتے تھے اور جو کونسلر فنڈز کو ہضم کرلیتے تھے عوام اگلے انتخاب میں انھیں مسترد کر دیتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کا نافذ کردہ بلدیاتی نظام منسوخ کیا۔ جب تک ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی اتحادی رہی تو نچلی سطح تک کے اختیارات کے بلدیاتی نظام کی کوئی نہ کوئی صورت برقرار رہی۔ جب بلدیاتی اداروں کی معیاد ختم ہوئی تو پورے بلدیاتی نظام کو بیوروکریسی کے سپرد کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا کسی صورت بلدیاتی انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا وہ تو سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے معاملہ میں دلچسپی لینا شروع کی۔
حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے لیے جو مختلف اعتراضات عدالت کے سامنے پیش کیے تھے سپریم کورٹ کے متعلقہ جج صاحبان نے وہ اعتراضات مسترد کردیے اور انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کردیا۔ سندھ کی حکومت کو جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ بلدیاتی نظام میں خوبیاں نظر آنے لگیں۔
اس نظام میں بلدیاتی اداروں کے پاس معمولی نوعیت کے اختیارات حاصل تھے۔ سندھ کی حکومت نے ویسا ہی بلدیاتی نظام صوبہ میں نافذ کیا جس میں کئی اداروں کو صفائی اور سیورج کے نظام کی بحالی کی ذمے داری عائد ہوئی مگرکونسلر بے اختیار کردیا گیا، متعلقہ اداروں کے فنڈز لاپتہ ہونے لگے۔ جب صفائی یا سیوریج اور پانی کی لائنوں کی شکایت کے لیے شہری درخواست دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ فنڈ موجود نہیں ہے۔
صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ محکمہ بلدیاتی کی اعلیٰ ترین اتھارٹی بھی یہی عذر پیش کرتی ہے۔ یوں برسوں سے کوڑے کے ڈھیر لگ گئے جس کے نتیجہ میں آوارہ کتوں، بلیوں اور پرندوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ سندھ میں محکمہ صحت کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے۔ ہر ضلع میں متعلقہ ڈی ایچ او کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ صفائی ستھرائی کی صورتحال کا جائزہ لے اور جہاں امراض پھیلنے کا خطرہ ہو وہاں کارروائی کرے مگر ضلع کی سطح پر یہ نظام بھی ناکارہ ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو نوشتئہ دیوار کو پڑھنا چاہیے۔
سندھ کے ان مسائل کا حل نچلے سطح کے بلدیاتی نظام میں مضمر ہے۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین اس نظام سے انحراف کر کے سندھ میں نئے تضادات کو کھڑا کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو معطل کردے مگرکتوں کے کاٹنے، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر، ہر شہر اور گاؤں میں سیورج کے پانی کی جھیلیں وبائی امراض کا پھیلاؤ پیپلز پارٹی کی اقتدار کی مدت کم کردے گا۔