ملک کے مالیاتی نظام کو کنٹرول کرنے والے سب سے بڑے مالیاتی ادارے اسٹیٹ بینک سے متعلق قانون سازی کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔ وفاقی کابینہ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل مجریہ State Bank of Pakistan (Ammendment Bill 2021-2022) منظورکرلیا، مگر کہا جا رہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے مالیاتی ادارہ کے بارے میں ممکنہ قانون سازی کے بارے میں ابھی واضح طور پر کچھ بتایا نہیں جا رہا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کی حدود میں توسیع کی جا رہی ہے اور اب اسٹیٹ بینک صرف شرح سود کا تعین ہی نہیں کرے گا بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے معاہدے بھی کرسکے گا۔ وزارت خزانہ کو اسٹیٹ بینک کی پالیسیوں پرکوئی کنٹرول نہیں ہوگا۔ اس قانون کے تحت اسٹیٹ بینک کے گورنرکے تقررکا حتمی فیصلہ اب وزیر اعظم کی سفارش پر صدر نہیں کریں گے بلکہ بینک کا بورڈ آف گورنرکرے گا اور اسٹیٹ بینک کے گورنرکی میعاد 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردی جائے گی۔
ملک کے احتساب کے ادارہ نیب اور ایف آئی اے بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنر، بورڈ آف گورنرز کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرسکیں گے۔ وفاقی وزارت خزانہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر افسر اور عملہ قانون کے مطابق فرائض انجام دے رہے ہیں تو پھر ان کے احتساب کی ضرورت نہیں ہے، اگرچہ اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہوگی مگر اسٹیٹ بینک کے گورنر وزیر اعظم، پارلیمنٹ اور صدر کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گے اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہونگے۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی اسٹیٹ بینک کی مکمل خودمختاری کے خیال سے اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن کا پابند ہوگا۔ پہلے اسٹیٹ بینک صرف افراطِ زر کوکم کرنے اور زرمبادلہ کے بارے میں اور مالیاتی پالیسی بناتا تھا مگر اب بینک حکومت کی مالیاتی پالیسی پر کڑی نظر رکھ سکے گا۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا مزید کہنا ہے کہ اب وفاقی بجٹ کی ترجیحات کے تعین کے وقت اسٹیٹ بینک پہلے آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی بینک کے قرضے ادا کرنے کا پابند ہوگا، یوں بجٹ میں ان بڑے معارف کے باوجود رقم بچے گی تو دفاع، تعلیم، صحت اور وسائل کی ترقی پر خرچ ہوگی، آئی ایم ایف کی سخت ترجیحات کی بناء پر پاکستان کی معاشی صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔
ایک اور نوجوان صحافی راجہ کامران نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ قانونی مسودہ میں یہ بات کہ ملکی سلامتی، دفاع اور ایسی معلومات جس کو خفیہ قرار دیا گیا ہے وہ غیر ملکی اداروں کو فراہم کی جاسکیں گی۔ اسٹیٹ بینک کے لیے قانونی مسودہ کی شق (7)B-48 میں مرکزی بینک کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مقامی یا غیر ملکی ریگولیٹری ادارہ سے معلومات کے تبادلہ کے معاہدے کرسکتا ہے۔
اس میں کسی بھی قسم کی مالیاتی اور غیر مالیاتی معلومات چاہے وہ عوامی سطح پر دستیاب ہوں یا خفیہ رکھی گئی ہوں انھیں افشاں کیا جاسکے گا۔ مجوزہ قانون میں افراطِ زر یا مہنگائی کو قابو کرنا، مانیٹری پالیسی مرتب کرنا، شرح تبادلہ کا تعین کرنا اور معاشی شرح نمو کو پروان چڑھانا شامل ہے۔
اس وقت اسٹیٹ بینک مختلف ری فنانس اسکیموں کے ذریعہ برآمد کنندگان مقامی صنعت کاروں کے لیے رعایتی قرضے فراہم کررہا ہے۔ کورونا کے بحران میں اسٹیٹ بینک نے اسپتالوں، تجارتی اداروں اور میڈیا کے اداروں کو قرضے فراہم کیے تاکہ وہ کورونا بحران میں اپنی معیشت کو برقرار رکھیں اور اپنے کارکنوں کو بے روزگار نہ کریں۔ خدشہ ہے کہ اب اس قانون کے منظور ہونے سے اسٹیٹ بینک اس طرح کے فرائض انجام نہیں دے گا۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں حکومتوں اور اسٹیٹ بینک کے درمیان مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے شرح سود بڑھانے پر اختلافات ہوئے کیونکہ شرح سود بڑھتی ہے تو مارکیٹ میں کرنسی کی گردش کم ہوتی ہے جو مہنگائی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورِ اقتدار میں ماہرِ اقتصادیات شاہد کاردار نے شرح سود کم کرنے کے مسئلہ پر حکومت وقت سے اختلافات کی بناء پر اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا تھا۔ ایک سابق سیکریٹری خزانہ آفتاب احمد خان نے بی بی سی کو اس بارے میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر اور حکومت کے درمیان ایک ربط ضروری ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو معیشت پر بین الاقوامی طور پر برا اثر پڑتا ہے۔ آفتاب احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت قرضوں پر انحصار زیادہ کرتی ہے، ٹیکس کے دائرہ کار کو نہیں بڑھاتی جس سے اسٹیٹ بینک حکومت کو منع کرتا رہا ہے کیونکہ اس سے افراطِ زر بڑھتا ہے۔
اسٹیٹ بینک مالیاتی پالیسی بناتا ہے جو ایک جز ہے مگر یہ تمام اقتصادی حکمت عملی پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک اور حکومت کا آپس میں باہمی ربط اور تعاون ہو تاکہ قومی ترقی میں استحکام ہو۔ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے معاشی بحران کا شکار ہے۔ برسر اقتدار حکومتیں عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر بجٹ کا خسارہ پورا کرتی ہیں۔ برسر اقتدار حکومتیں اپنے غیر پیداواری اخراجات کم نہیں کر پاتیں۔ ملک میں زرعی اور صنعتی پیداوار اتنی نہیں بڑھ پاتی کہ بین الاقوامی منڈیوں سے قیمتی زرمبادلہ ملک میں آئے بلکہ ہمیشہ برآمدات کے مقابلہ میں درآمدات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ اب بین الاقوامی مالیاتی ادارے مثلا عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (I.M.F) سخت شرائط عائد کرتے ہیں۔
ان شرائط کی بناء پر حکومت کو بجلی اور گیس کے بلوں میں دی جانے والی زرتلافی واپس لینی پڑتی ہے۔ گردشی قرضے بڑھ جاتے ہیں، یوں برسر اقتدار حکومتیں ان اداروں کی شرائط ماننے پر مجبور ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف نے ایک نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے میاں نواز شریف حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اگر اقتدار میں آئے تو ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی غلامی کے بجائے خودکشی کرنے پر مجبور ہونگے۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو اسد عمر وزارت خزانہ کی نگرانی کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ان کی حکومت کے اقتدار شروع ہونے کے ساتھ مالیاتی خسارہ بڑھنے لگا مگر اسد عمر اپنے قائد کے فرمان کی تابعداری کررہے تھے۔
انھوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں دیر کی، یوں پاکستان دیوالیہ Default کے قریب پہنچ گیا تو سعودی عرب سے قرضہ لیا گیا۔ سعودی عرب کو اگلے سال شرح سود کے ساتھ قرضہ واپس کیا گیا اور اس کے لیے چین سے قرضہ لیا گیا، یوں ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ روپے کی قدر کم ہونے سے مہنگائی کی شرح خطرناک حدود کو چھونے لگی، ڈاکٹر حفیظ شیخ کو درآمد کیا گیا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے اور آئی ایم ایف نے مختلف شرائط کے تحت قرضہ دیا۔
ان شرائط میں یوٹیلٹی بل پر زرتلافی ختم کرنا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنا شامل تھا۔ آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو وفاقی حکومت کی گرفت سے آزاد کرنے کی شرط بھی رکھی تاکہ آئی ایم ایف اسٹیٹ بینک کو براہِ راست اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کی ہدایت کرے، اور اسٹیٹ بینک ان ہدایات پر فوری طور پر عملدرآمد کرے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت اس ضمن میں آرڈیننس جاری کرے گی، یوں اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے آرڈیننس کی وفاقی کابینہ سے منظوری ہوئی مگر اسٹیٹ بینک نے براہِ راست آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عملدرآمد کیا تو ملک میں شدید مالیاتی تضادات ابھریں گے اور ان پالیسیوں کا سارا نقصان غریبوں کو ہوگا۔