توفیق احمد خان بینکر ہیں۔ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کی سڑکوں پر جوان ہوئے۔ اب شام گئے بینک کی ملازمت سے آنے کے بعد نمازیں پڑھنے مسجد جاتے ہیں اور سڑک پر چہل قدمی کرتے ہیں۔
27 نومبر 2019 کی شام کو علامہ اقبال روڈ بس اسٹاپ سے گھر جارہے تھے تو دو موٹر سائیکل پر سوار چار نوجوانوں نے انھیں اسلحہ دکھا کر روک لیا۔ جیب سے والیٹ نکالا، موبائل چھینا، والیٹ کی جیب سے 3 ہزار روپے نکالے اور اے ٹی ایم کارڈ چھین لیا۔ یہ موٹر سائیکل سوار توفیق احمد خان کو گھیر کر علامہ اقبال روڈ پر واقع ATM مشین کی طرف دھکیلنے لگے۔
توفیق کے پاس ان رہزنوں کی ہدایت پر عمل کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا۔ مگر وہ ابھی کچھ قدم آگے بڑھے تھے کہ سامنے مکان کا دروازہ کھلا نظر آیا۔ توفیق احمد خان لمحہ بھر میں مکان میں داخل ہوگئے۔ سڑکوں پر لوٹ مار کرنے والے شاید خوفزہ ہوئے اور فرار ہوگئے۔ توفیق گھر پہنچے مگر تھانے جا کر رپورٹ درج نہ کرائی۔ یہ رہزن پھر گلیوں میں پھرنے لگے۔
توفیق احمد خان 92 ہزار افراد کی فہرست میں شامل ہوئے جن کو 2015 سے 2019کے درمیان سڑکوں پر لوٹا گیا۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں کراچی میں 2015سے اسٹریٹ کرائم کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ صرف 2015سے 220 بے گناہ افراد ان رہزنوں کی وارداتوں کے دروان جاں بحق ہوئے۔
صرف گزشتہ سال 44 افراد مزاحمت کرنے پر اپنی جان کھو بیٹھے۔ رہزنوں کے ان مقابلوں میں 610 افراد زخمی ہوئے۔ ان میں سے کچھ زندگی بھر کے لیے معذور ہوئے۔ ان رہزنوں کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کرتے ہیں۔ یہ لوگ اندھادھند گولیاں چلاتے ہیں۔ جو مرد یا عورت ردعمل کا اظہار کرتا ہے عموما اس کے جسم کے اوپری حصہ پر گولیاں چلاتے ہیں۔ تاہم ایک طرف رہزنوں کی گولیوں سے لوگ جاں بحق ہوتے ہیں بلکہ پولیس کے جوان جب کسی واردات کے وقت موقع واردات پر پہنچتے ہیں تو براہ راست فائرنگ کرتے ہیں۔
اس طرح رہزنی یا ڈکیتی کی وارداتوں کے تدارک کے لیے سڑکوں پر پولیس موبائل تعینات ہوتی ہیں۔ ان موبائل میں سوار پولیس والوں کی زیادہ تر گولیاں ان مزاحمت کرنے والوں کو لگیں جو اپنا دفاع کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ پھر کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد نے شہریوں کو اس حد تک مشتعل کردیا ہے کہ کسی ملزم کو پکڑ کر فوری سزا دینا شروع کردیتے ہیں۔ اس بناء پر ہجوم کے انصاف کے خوفناک نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ شہر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کئی دفعہ لوٹ مار کرنے والے ملزمان میں سے کسی ایک فرد کی ہلاکت کی خبریں آتی ہیں۔ شہر کے کئی علاقوں میں لوگوں نے ملزمان کو جسمانی تشدد کر کے بعض اوقات آگ سے جلا کر اور بعض اوقات گاڑی چڑھا کر ہلاک کیا۔
اس سال کے وسط میں بہادر آباد کے علاقہ میں محلے والوں نے ایک نوجوان پر جس کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ علاقہ میں چوریاں کررہا تھا کو بدترین تشدد کر کے ہلاک کردیا تھا۔ بعد میں اس لڑکے کے خاندان والوں نے الزام لگایا کہ ان کا بچہ بے گناہ تھا۔ ہجوم نے اس لڑکے کو بلاجواز تشدد کر کے ہلاک کیا۔ اس مقدمہ میں درجن سے زائد افراد ملوث ہوئے۔ اس نو عمر لڑکے کی ہلاکت کی واردات کی الیکٹرونک میڈیا پر خوب پبلسٹی ہوئی۔ گرفتار ہونے والے افراد کا جن میں نوجوان زیادہ تھے تعلق متوسط طبقہ سے تھا، یوں متعلقہ تھانے میں تعینات پولیس افسروں کو اس مقدمہ سے خوب فائدہ ہوا۔ کراچی کی آبادی 2کروڑ سے زیادہ ہے۔ یوں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔
کراچی اپنے انفرااسٹرکچر کے تناظر میں ماضی کی طرف کھسک گیا، یوں اس صدی کے آغاز سے شہر میں مذہبی اور لسانی انتہاپسندوں کے اسلحہ خانے قائم ہوئے۔ ایک طرف مذہبی انتہاپسندوں نے نوجوانوں کی عسکری تربیت کا سلسلہ شروع کیا تو دوسری طرف ہر قسم کا اسلحہ آسانی سے دستیاب ہونے لگا۔ اس صدی کے آغاز کے بعد پولیس کے علاوہ دیگر ایجنسیوں کو اسلحہ کے استعمال کے لائسنس ملے۔ شہر میں معاشی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں۔
اس کے ساتھ ہی اسلحہ کے ذریعہ لوگوں کو لوٹنے کی ایجنسیاں وجود میں آگئیں۔ غیر قانونی اسلحہ کراچی میں آسانی سے دستیاب ہے۔ کرائم رپورٹنگ کرنے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ وارداتوں کے لیے اسلحہ کرائے پر فراہم کیا جاتا ہے۔ پھر ابھی تک پولیس کے ڈھانچہ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھالنے کے لیے کچھ نہیں ہوا۔ جرمنی، کینیڈا اور یورپی یونین کی غیر سرکاری تنظیموں نے پولیس کے ڈھانچہ کو جدید بنانے کے لیے امداد دی مگر کوئی خاطرخواہ تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔
اگرچہ شہر کے اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کے منصوبے شروع ہوئے، کیمرے نصب کرنے کی خبریں آئیں مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا یہ جدید نظام کراچی میں جرائم کا اس طرح تدارک نہ کرسکا جس طرح کا تجربہ دیگر ممالک میں ہوا۔ پھر پولیس کے ڈھانچہ کو سپاہی سے لے کر آئی جی کے عہدے تک تبدیل کرنے پولیس تھانوں کا کلچر تبدیل کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کے جوان بھی سڑکوں پر رہزنوں پر اندھادھند فائرنگ کرتے ہیں جس کی بناء پر بے گناہ افراد کے ہلاک ہونے کی شرح بڑھ گئی ہے۔
مگر پولیس کے نظام کو نچلی سطح تک عوام کے سامنے احتساب سے وابستہ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوا پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کے 2008 میں اقتدار میں آنے کے بعد تھانہ کے انچارج سے لے کر آئی جی تک کے عہدے بازار میں فروخت ہونے لگے۔ پولیس کے افسران بھارتی زر ادائیگی کے بعد اچھے عہدوں پر تعینات ہونے لگے جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ بر سطح پر لوٹ مار کے بازار لگ گئے۔
یوں شہر میں جرائم کی شرح خوفناک حد تک بڑھ گئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پرویز مشرف حکومت کا پولیس قانون منسوخ کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور کا پولیس ایکٹ بحال کیا، یوں پولیس کا عوامی احتساب کا جو تصور پیش ہوا تھا وہ ختم ہوا۔ پھر آئی جی کے تقرر اور تبادلہ کے موضوع پر سول سوسائٹی اور حکومت سندھ میں تنازعہ پیدا ہوا۔ سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی کے تقرر اور تبادلہ پر حکومت سندھ کے کردار کو مسترد کردیا۔ اب پیپلز پارٹی کی حکومت نے جدید پولیس آرڈر میں ترمیم کر کے نافذ کیا ہے۔
پھر سیفٹی کمیشن قائم ہوا۔ سول سوسائٹی کے بعض کارکن اس کمیشن میں شامل ہوئے۔ حکومت سندھ نے اسٹریٹ کرائم کی شرح کم کرنے کے لیے ملزموں کے خلاف سرسری سماعت کی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر گواہوں کے تحفظ اور ان کی معاوضے کی ادائیگی کے قانون پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یوں ان اقدامات سے ان رہزنوں کی سرگرمیوں پر خاطرخواہ فرق نہیں پڑے گا اور شہریوں کے پاس لٹنے یا مزاحمت پر موت قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوگا۔