شہری آزادیوں پر پابندی کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ حال ہی میں کراچی میں عدیلہ سلمان کی تصاویرکی نمائش اچانک روک دی گئی۔ میڈیا پر کنٹرول کی باتیں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن آرٹسٹوں کی تخلیق پر بھی بعض حلقے غصے میں آجاتے ہیں۔ معروف آرٹسٹوں کی تخلیق کردہ تصاویر کی نمائش کراچی کے تاریخی فریئر ہال میں منعقد ہوئی۔
فریئر ہال میں گزشتہ ہفتے بنائلے Binnaile 2019 کی نمائش شروع ہوئی تھی۔ انسانی حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنے والی عدیلہ سلمان نے ماورا عدالت قتل کی وارداتوں میں ہلاک ہونے والے افرادکو اپنی تصاویرکا موضوع بنایا تھا۔ عدیلہ نے سہراب گوٹھ کے قریب ماورائے عدالت قتل ہونے والے نقیب اﷲ محسود کا اسکیچ بھی بنایا تھا۔ عدیلہ کا بنیادی مقصد قانون کے خلاف ہونے والے اقدامات کے نقصانات کو اجاگر کرنا تھا۔ پھر نامعلوم افراد آئے، تصاویرکو اٹھا کر ٹرک پر رکھا اور دھمکیاں دیتے ہوئے چلے گئے۔ نوجوانوں نے دوبارہ تصاویرکو منظم کیا تو یہ افراد پھر آگئے۔ انھوں نے بقایا تصاویرکو اٹھایا اور نمائش والے کیمرے کو سر بہ مہر کر دیا۔
یوں انسانی حقوق کی پامالی کے موضوع پر ہونے والی نمائش بند ہوگئی۔ فریئر ہال کراچی کے ضلع جنوبی میں شامل ہے مگر ضلع جنوبی کی انتظامیہ، کراچی کے کمشنر اور سندھ کی وزارت داخلہ نے مکمل خاموشی اختیارکر لی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے جو ہر مسئلہ پر بیان دینے کو تیار رہتے ہیں، ایسی خاموشی اختیار کی کہ شاید ان کے نزدیک آرٹسٹوں کی تخلیق کی آزادی کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے۔
پاکستان میں شہری آزادیوں پر پابندی کا کرب ناک دورگزرا ہے۔ یہ وہ دورتھا کہ پاکستان سرد جنگ میں امریکا کا اتحادی تھا۔ سوویت یونین کے خلاف مذہبی جنونیت کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا تھا۔ شعراء، ادیبوں، فنکاروں اور مصوروں پر مختلف نوعیت کی قدغن عائد کی جاتی تھی۔ معروف مصور صادقین انسانی زندگی کے ہر پہلوکو تصاویر میں اس خوبصورتی سے منظرکشی کرتے تھے کہ دیکھنے والے اصلی اور تصویر میں فرق کرنا بھول جاتے تھے۔ صادقین نے عورت اور مرد کے تعلقات کے سب ہی پہلوؤں کو خوبصورت منظر کشی کے ذریعہ کنویس پر منتقل کیا گیا۔ رجعت پسندوں کو صادقین کی تصاویر پسند نہیں تھیں۔ صادقین ہمیشہ معتوب رہے۔
جب پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں صادقین کو الحمراء لاہور میں تصاویر کی نمائش ہوئی تو لاہور کے آرٹس کے مداح اس نمائش کو دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑے تھے مگر رجعت پسندوں نے صادقین کی کردارکشی کی مہم شروع کردی تھی۔ صادقین پر فحاشی اور عریانی پھیلانے کے الزامات لگائے گئے۔
اس زمانے میں پنجاب کی حکومت اگرچہ پیپلز پارٹی کے پاس تھی مگر دراصل بیوروکریٹس حکومت چلا رہے تھے۔ یوں صادقین کی بعض تصاویر پابندی کی زد میں آگئیں۔ حکام بعض تصاویرکو اٹھا کر لے گئے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس واقعے کی مذمت ہوئی لیکن معاملہ صرف تصاویرکی نمائش تک محدود نہیں رہا بلکہ شعراء کی تخلیقات پر بھی پابندیاں لگیں۔ معروف شاعر احمد فراز نے بھٹو حکومت کے آخری مہینوں میں ایک زور دار نظم تخلیق کی۔ یہ نظم ایوب خان اور یحییٰ خان کے ادوارکی عکاسی کرتی تھی۔ نامعلوم افراد احمد فرازکو اٹھا کر لے گئے۔ ممتاز شاعر سیف الدین سیف نے احمد فرازکی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائرکی۔ معاملہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچا اور پھر وزیر اعظم کی مداخلت پر احمد فراز زندہ بازیاب ہوئے۔ شیخ ایاز گل، خان نصیر، اجمل خٹک اپنی شاعری کی بناء پر مسلسل زیر عتاب رہے، مگر پھر سرد جنگ ختم ہوگئی۔ صادقین نے اپنی خطاطی کے ایسے جوہر دکھائے کہ جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی ان کے چاہنے والوں میں شامل ہوگئے۔ فیض احمد فیض کا کلام قاضی حسین احمد سر عام پڑھنے لگے۔
طالبان کی افغانستان میں حکومت آتے ہی تخلیق کاروں پر برا وقت آیا۔ شاعری، ادب، مصوری اور گلوگاری سب کچھ غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ اس دور میں صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی کہ طالبان نے بامیان میں مہاتما بدھ کے تاریخی مجسموں و تباہ کرنا شروع کیا۔ انسانی تہذیب کے اس خوبصورت اثاثہ کے تحفظ کے لیے پوری دنیا میں شور مچ گیا۔
اقوام متحدہ کے ثقافت اور آرکیالوجی کے تحفظ کے بین الاقوامی ادارہ یونیسکو نے طالبان کی اس پالیسی کی شدید مذمت کی اور بعض ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس انسانی ورثے کو بچانے کے لیے اپیلیں کیں۔ نائن الیون کے بعد مذہبی انتہاپسندی پھر عروج پر پہنچی۔ مذہبی انتہا پسندوں نے فلم، موسیقی، رقص اور تصاویر بنانے والوں کی سرکوبی کی مہم شروع کی۔ پشاور اورکوئٹہ شہر اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوئے۔ لوگوں کے لیے عافیت کی جگہ ان کا اپنا گھر قرار دیا گیا مگر بہت سے مردوں اور عورتوں نے رجعت پسند پالیسیوں کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع کی۔ اس مزاحمتی تحریک میں حصہ لینے والے کئی افراد قتل کر دیے گئے۔
پشاور میں آرٹسٹوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ یہی صورتحال کوئٹہ اور دیگر شہروں میں بھی ہوئی۔ آرٹسٹوں کی تخلیقات پر پابندی بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں عائد ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے کارٹونسٹ سہیل نقش بندی سری نگر سے انگریزی زبان میں شایع ہونے والے اخبار گریٹر کشمیر سے کئی سال سے منسلک ہیں۔ اخبارکی انتظامیہ نے ان کے تیار کردہ کارٹون کو سنسر کرنا شروع کردیا تھا۔ سہیل نقشبندی نے برطانوی ریڈیو بی بی سی کو بتایا کہ پلوامہ واقعہ کے بعد ان پر سخت دباؤ تھا۔ اس کارٹون میں سرکاری بیانیہ کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ ان کے کئی کارٹون شایع نہ ہوسکے، یوں سہیل نقشبندی کے پاس استعفیٰ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا تھا۔
عدیلہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ غیر سیاسی آرٹ محض ڈیکوریشن پیس ہوتا ہے۔ عدیلہ سلمان کا کہنا ہے کہ انھیں اندازہ ہے کہ آرٹسٹ کے پاس کتنی بڑی طاقت ہوتی ہے، مگرکہا جاتا ہے کہ عدیلہ سلمان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ عدیلہ کی ملک میں اور یورپ میں بڑے پیمانے پر پذیرائی ہو رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اس صورتحال پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ کراچی کی سول سوسائٹی کے اراکین نے گزشتہ ہفتے فریئر ہال میں عدیلہ کی تصاویر پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا۔ یوں پاکستان میں انسانی حقوق کی بد ترین صورتحال بین الاقوامی ایجنڈا کا حصہ بن گئی ہے۔