سندھ حکومت نے اپنا وعدہ پورا کیا، سندھ کی کابینہ نے طلبا یونین کے احیاء کے قانون کے مسودے کی منظوری دے دی۔ سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے کہا ہے کہ اب یہ مسودہ سندھ اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل ہوگیا ہے۔
سندھ اسمبلی کی تعلیم کے امور کی ذیلی کمیٹی اس قانون کی ہر شق کا جائزہ لے گی۔ اسٹیک ہولڈرزکی تجاویز پر غورکیاجائے گا، ذیلی کمیٹی اپنی رپورٹ سندھ اسمبلی میں پیش کرے گی۔ سندھ اسمبلی کے معزز اراکین اس مسودے کو قانون بنانے کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے، اس قانون کی شق 2 کی ذیلی شق A انتہائی اہم ہے۔
اس شق میں درج عبارت کے مطابق طلباء یونین کے قانون کا اطلاق سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں پر بھی یکساں طور پر ہوگا، اس شق میں واضح کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں سے مراد، تعلیمی اور ٹریننگ انسٹیوٹ شامل ہیں، جن میں یونیورسٹی، اس سے منسلک ادارے، کالج خواہ یہ ادارے سرکاری نوعیت کے ہیں یا نجی شعبے میں ہیں وہاں یونین کے قیام کے قانون کا اطلاق ہوگا، جب چھتیس سال قبل جنرل ضیاالحق کی آمرانہ حکومت نے طلباء یونین پر پابندی عائدکی تھی تو اس وقت صرف سرکاری شعبے میں کالج، پولی ٹیکنیک اور یونیورسٹیاں قائم تھیں۔
چھتیس سال کے دوران ملک کے سماجی، اقتصادی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جنرل ضیاالحق کی حکومت نے بہت سارے تعلیمی ادارے ان کے پرانے مالکان کے حوالے کر دیے تھے، نجی شعبے میں ہزاروں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، صرف نجی شعبے میں تعلیمی ادارے ہی قائم نہیں ہوئے بلکہ سرکار کے تحت کام کرنے والے اداروں نے بھی اپنے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ یہ یونیورسٹیاں سوشل سائنسز، سائنس اور انجینئرنگ کے علاوہ میڈیکل، بزنس ایڈمنسٹریشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دوسرے جدید شعبوں میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔
جب سندھ اسمبلی نے گزشتہ ماہ طلباء یونین کی بحالی کی منظوری دی تھی تو سندھ کے وزیر اطلاعات نے اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ حکومت سندھ اس معاملے میں قانون سازی کرے گی۔ ماضی میں طلباء یونین سے منسلک سابق طالب علموں، سماجی اور سیاسی کارکنوں اور تعلیمی امورکی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو یہ خدشہ تھا کہ طلباء یونین صرف سرکاری تعلیمی اداروں تک محدود رہے گی اور پھر شاید والدین اپنے بچوں کو امن وامان کی کسی ممکنہ صورتحال سے بچانے کے لیے نجی تعلیمی اداروں کی طرف بھیجیں گے اور سرکاری اداروں کے لیے طلباء یونین ایک منفی صیغہ بن جائے گی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر نجی شعبے اور وزارت دفاع کے ادارے سے منسلک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء اور اساتذہ کو علمی آزادی کے استعمال کا حق نہیں ہے مگر بعض یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلباء علمی آزادی کے حق کو بھر پور طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ کراچی میں قائم ذوالفقار علی بھٹو انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(ZABIST) اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسزکے طلبا اور اساتذہ نے سماجی، سیاسی مسائل پر بھرپور طریقے سے اجتماعی رائے کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں ذوالفقار علی بھٹو انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کراچی(ZABIST)کی صدر شہناز وزیر علی نے سابق طالب علم رہنماؤں، سماجی، سیاسی کارکنوں اور نوجوان طلباء کی ایک مجلس کی میزبانی کی تھی، ان کا یہ خیال تھا کہ نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلباء یونین کے قیام تذبذب کا شکار ہے مگر شہناز وزیر علی طلباء یونین کے حق میں ہیں، اس قانون کی شق سے نجی تعلیمی اداروں اور وزارت دفاع کے ماتحت تعلیمی اداروں میں طلباء یونین کے قیام کی راہ ہموارہوگی۔ اس طرح اس قانون کی شق 2کی ذیلی شقوں میں طلباء کی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے کچھ پابندیوں کا ذکر ہے، ان شقوں میں واضع کیا گیا ہے کہ قانون سے ہٹ کر کوئی بھی سرگرمی جس سے ادارے کا نظم و نسق متاثر ہو طلباء یونین کے عہدیداروں کو ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان شقوں میں مزید تحریر کیاگیا ہے کہ کسی گروپ، طبقے اور یونیورسٹی، کالج کے کسی ادارے کے خلاف نفرت آمیزسرگرمی کی اجازت نہیں ہوگی۔ کسی قسم کے تشدد، طاقت کے استعمال کے ذریعے ادارے کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنا غیر قانونی ہوگا، ان شقوں میں مزید کہاگیا ہے کہ تعلیمی ادارے میں ہڑتال یا تعلیمی ادارے کے اساتذہ یا عملے کو کسی قسم کی دھمکی کو بھی خلاف قانون سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اس شق کی ذیلی شقE میں واضع کیا گیا ہے کہ طلباء یونین کا بنیادی مقصد طلبا کی ہم نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور طلباء کے عمومی مفاد کا تحفظ ہوگا۔ طلباء یونین اور اس کے اراکین کے نظم ونسق سے متعلق اس قانون میں یہ شقیں بظاہر عمومی نوعیت کی ہیں۔
معروضی صورتحال کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی آمرانہ ذہن رکھنے والا شخص یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے عہدے پر فائز ہوتا ہے اور جس کا مخصوص نوعیت کا ذہن ہوتا ہے یا پھر حکومت اپنے غیر جمہوری مفادات کے تحفظ کے لیے کوئی پالیسی بناتی ہے تو پھر ان شقوں کو طلباء کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سندھ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے والے صاحبان علم و دانش کی یہ متفقہ رائے ہے کہ سندھ حکومت کی بنیادی ترجیح تعلیم نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے تمام محکموں میں کرپشن کا کلچر عروج پر ہے، سرکاری تعلیمی اداروں بشمول یونیورسٹوں میں بنیادی سہولیات کی کمی ہے۔ ملک کی سب سے قدیم یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی میں اساتذہ اور طلباء کے لیے باتھ روم نہیں ہیں، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے آلات سے لیس جدید کلا س روم کا تصور اساتذہ اور طلباء خوابوں میں کرتے ہیں۔
سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولت نایاب ہے اگر طلباء ان مطالبات کے پورے ہونے کے لیے آواز اٹھاتے تو ان پر بغاوت کے مقدمے ہوتے ہیں۔ حکومت طلباء کی مانگوں پر توجہ نہیں دیتی، اس صورتحال میں یونین کے عہدیداروں کے پاس احتجاج اور ہڑتال کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ اس قانون میں ہڑتال پر پابندی کا لفظ استعمال کرکے منتخب عہدیداروں کے بنیادی حق کو غصب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس شق کے منفی اثرات پر غور کرنا چاہیے۔ اس مسودہ قانون کی شق نمبر3کی ذیلی شق بھی قابل غور ہے۔
اس شق میں واضح کیاگیا ہے کہ طلباء یونین کے رکن کے لیے Student Bonafide ہونا ضروری ہے۔ اس طرح ذیلی شق Eمیں واضح کیاگیا ہے کہ طالب علم سے مراد وہ فرد ہے جو کسی تعلیمی ادارے میں ان رول ہے، اس شق کے مطابق جو فرد تعلیمی ادارے میں کسی سمسٹر کا رکن نہیں ہے وہ طالب علم شمار نہیں ہوتا۔ یہ شق انتہائی اہم ہے سابق طالب علم کو طلباء یونین کا حصہ نہیں ہونا چاہیے، ماضی میں طلباء یونین کے قانون میں طلباء یونین کے مختلف عہدوں کے لیے امیدواروں کی اہلیت کا تعین کیاگیاتھا۔
اس قانون کے قواعد و ضوابط میں مختلف امیدواروں کے عہدوں کی اہلیت واضح ہونی چاہیے۔ اس قانون کی شق 3کی ذیلی شق 2میں کہاگیا ہے کہ طلباء یونین سات سے گیارہ اراکین پر مشتمل ہوگی اور متعلقہ تعلیمی ادارے کے طلباء ان عہدیداروں کا انتخاب کریں گے۔ سندھ میں تعلیمی اداروں کے حقائق کچھ یوں ہیں کہ کچھ یونیورسٹیوں میں طلباء کی تعداد بیس ہزار ہے اور کچھ میں یہ تعداد ایک ہزارسے بھی کم ہے۔
طلباء یونین کے عہدیداروں کی تعداد کا معاملہ متعلقہ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ پر چھوڑدینا چاہیے۔ اس قانون کی شق 3کی ذیلی شق 3میں تعلیمی اداروں کو پابند کیاگیا ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے دوماہ کے دوران طلباء یونین کے لیے قواعد وضوابط تیارکریں، یہ اس قانون کی ایک اچھی شق ہے۔ ہر یونیورسٹی کے متعلقہ ادارے ماضی کی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے اور طالب علموں کی تعدادکے مطابق قواعد وضوابط تیار کریں۔ اس طرح اس شق3کی ذیلی شق5 میں طلباء کا یہ مطالبہ منظورکیاگیا ہے کہ یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ، سینیٹ اور دوسرے اداروں میں طلباء یونین کا ایک نمایندہ شامل ہوگا۔
اس کا دائرہ بڑھنا چاہیے۔ یونیورسٹیز سے منسلک کالجوں کی طلباء یونین کے صدر یا سیکریٹری کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ایک عہدیدارکا انتخاب کرے جو متعلقہ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کا ممبر ہو۔ اس طرح کالج کے طلباء کو یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ میں نمایندگی مل جائے گی۔ اس طرح ایک اور شق بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی کی روک تھام کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق یونیورسٹیوں میں اس طرح کی کمیٹیاں قائم ہیں جن کالجوں میں مخلوط تعلیم ہے وہاں بھی ایسی ہی کمیٹیاں بننی چاہیں۔ اس طرح اسی شق کی ایک اور ذیلی شق میں یہ تحریر کیاگیا ہے کہ صنفی تناسب کو برقراررکھنے کے لیے طالبات کو طلباء یونین میں ایک نشست مخصوص کی جائے گی۔
بائیں بازو کی طلباء تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے سابق رہنما اور میڈیکل ایجوکیشن کے سینئر ترین پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا موقف ہے کہ اب یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں میں طالبات کی تعداد ستر فیصد کے قریب ہے، اس بنا پر طلباء یونین میں صنف کی بنیاد پر کوٹہ نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال اس تجویز پر مزید بحث ومباحثہ کی ضرورت ہے۔ اس مسودہ قانون کے آخر میں طلباء یونین کے مختلف وظائف کی نشاندہی کی گئی ہے مگر طلباء یونین کی علمی آزادیAcademic freedom کا ذکر نہیں ہے، طلباء یونین کا بنیادی فریضہ ہی علمی آزادی کا احیاء ہونا چاہیے۔ حکومت سندھ نے طلباء یونین کے قانون تیار کرکے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیاہے، وفاق اور دوسری تین صوبائی حکومتیں کب اس بارے میں پیش قدمی کریں گی، ایک سوال یہ بھی ہے۔