مسلمانوں میں تعلیم عام کرنے کا سہرا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سر جاتا ہے۔ 19ویں صدی کے ریفارمر رہنما سرسید احمد خان نے 1877 میں محمڈن اینگلو اوریئنٹل کالج قائم کیا۔ یہ کالج 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت اختیارکرگیا۔
گزشتہ سال دسمبر میں 2 سو سالہ سالگرہ پر مختلف نوعیت کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ سرسید احمد خان مسلمان امراء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے حامی تھے، ان کے ذہن میں خواتین کی تعلیم کا تصور نہیں تھا۔
ایک اورریفارمر شیخ عبداﷲ اور ان کی اہلیہ وحید جہاں کی کوششوں سے1906میں گرلز اسکول اور آگے چل کر 1926 میں علیگڑھ گرلزکالج قائم قائم ہوا۔ 2 فروری کو شیخ عبداﷲ اور ان کی اہلیہ وحید جہاں کی سالگرہ کا دن تھا۔
اسی دن علیگڑھ وومن کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ شیخ عبداﷲ کا نام ٹھاکرداس تھا، وہ 21 جو لائی 1871 میں کشمیری پنڈتوں کے خاندان میں پونچھ کے گاؤں بھاؤنتانی میں پیدا ہوئے تھے۔ ٹھاکرداس اپنے چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ اس زمانہ میں فارسی کشمیرکی عدالتی زبان اور بیشتر ادب فارسی میں تھا۔ یوں ٹھاکرداس نے فارسی پر دسترس حاصل کی۔
انھوں نے انگریزوں اور سنسکرت میں بھی مہارت حاصل کی۔ ٹھاکرداس کی ملاقات مہاراجہ آف کشمیر کے خصوصی معالج حکیم مولوی نور الدین سے ہوئی۔ مولوی نور الدین پونچھ جایا کرتے تھے، ان کی شخصیت اور نظریات نے ٹھاکرداس کی زندگی بدلی۔ وہ مولوی نور الدین کے مشورہ پر جموں منتقل ہوئے اور پرائمری تعلیم حاصل کی، 1887 میں لاہور منتقل ہوئے اور گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ ٹھاکرداس نے 1888 میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں شرکت کی۔ ٹھاکرداس نے 1890 میں اسلام قبول کیا اور شیخ عبداﷲ کہلائے۔
شیخ عبداﷲ نے 1891 میں محمڈن اینگلو اوریئنٹل کالج میں داخلہ لیا تو وہ سرسید کی سرپرستی میں آگئے۔ یوں پہلے وہ کالج میں لائبریررین مقرر ہوئے، پھر قانون کی سند حاصل کر کے وکالت کرنے لگے۔ سرسید 1898 میں انتقال کرگئے۔
علیگڑھ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سربراہ معروف ادیب ڈاکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ شیخ عبداﷲ نے 1906 میں خواتین کے لیے علیگڑھ میں پہلا اسکول قائم کیا۔ اس وقت خواتین سخت پردے میں بند رہتی تھیں، یوں اسکول میں بھی پردہ تھا۔ شیخ عبداﷲ نے طالبات کے ہوسٹل کی تعمیر کے لیے کوششیں شروع کیں۔ یوں 1914 تک اتنی رقم جمع ہوئی کہ ہوسٹل تعمیر ہوا، اور 1926 میں یہ اسکول ترقی کرکے کالج بن گیا۔
یوپی کے لیفٹیننٹ گورنر کی اہلیہLady Pottel نے 27 نومبر 1911 کو کالج کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ کالج کا یوم تاسیس 2 فروری کو منایا جاتا ہے۔ اس دن شیخ عبداﷲ اور وحید جہاں کی شادی کی سالگرہ بھی تھی۔ شیخ عبداﷲ کی اہلیہ وحید جہاں نے اسکول اور کالج کی تعمیر میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ وحید جہاں کے ہاں پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔
لبنیٰ کاظم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وحید جہاں نے ایک تقریر میں خواتین کی تعلیم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ترکی اور مصر میں خواتین نے تعلیم حاصل کی جس کا فائدہ ان ممالک کو ہوا۔ شیخ عبداﷲ کی دو بیٹیاں خاتون جہاں اور ممتاز جہاں علیگڑھ کالج کی پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہوئیں۔ ان کی ایک بیٹی ڈاکٹر رشید جہاں نے ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک خاص طور پر ترقی پسند تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وہ معروف کمیونسٹ دانشور محمود الظفر کی اہلیہ تھیں۔ ایک بیٹی خورشید جہاں فلم انڈسٹری میں اداکارہ تھیں۔ وہ پاکستان میں ٹیلی وژن میں اداکاری کرتی رہیں۔
لبنیٰ کاظم نے اپنی کتاب Memories of Khursheed Mirza میں لکھا ہے کہ 1905 میں علیگڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے ساتھ مسلمان خواتین کا اجلاس ہوا مگر خواتین کے اجلاس کی بھرپور مخالفت ہوئی۔ علیگڑھ کالج کی ایک عمارت میں خواتین کے اجلاس کی اجازت نہیں دی گئی۔ شیخ عبداﷲ کے ایک پارسی خاندان کے دوست نے اپنے گھر میں خواتین کے اجلاس کی اجازت دی۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ خواتین کو سخت پردے میں کانفرنس میں ہونے والی تقاریر کو سننے کی اجازت ملی۔ شیخ عبداﷲ کو 1903 میں دہلی میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کے خواتین سیکشن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا تھا۔
شیخ عبداﷲ نے خواتین کی تعلیم کے حق کے لیے پورے ہندوستان میں تحریک چلائی۔ ہر قسم کے منفی پروپیگنڈہ کا مقابلہ کیا۔ شیخ صاحب نے خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے فوائد کو اجاگر کرنے کے لیے ایک رسالہ "خاتون" کا 1904 میں اجراء کیا۔ شیخ عبداﷲ جانتے تھے کہ ان کے مشن کی کامیابی کے لیے خواتین کی شمولیت ضروری ہے۔ اس مشن کے لیے شیخ عبداﷲ نے 1905 میں خواتین کی صنعتکاریوں کی نمائش کا اہتمام کیا۔ اس نمائش سے جو آمدن ہوئی وہ اس مشن کی کامیابی پر خرچ ہوئی۔
بیگم آف بھوپال سلطان جہاں واحد مسلمان حکمراں تھیں۔ سلطان جہاں نے خواتین کی تعلیم کی بھرپور حمایت کی۔ شیخ عبداﷲ نے اس مشن کے لیے بیگم آف بھوپال کو خط تحریر کیا۔ بیگم آف بھوپال نے اسکول کے لیے ماہانہ 100روپے وظیفہ کا اعلان کیا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، شعبہ ابلاغ عامہ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر شافع قدوائی لکھتے ہیں کہ بیگم آف بھوپال نے شیخ عبداﷲ کے خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے مشن کی ہرطرح حمایت کی۔ علیگڑھ کی طالبات میں وحید جہاں اﷲ بی اور پاپا میاں کے ناموں سے مشہور تھے۔ شیخ عبداﷲ 1965ء میں اپنے انتقال تک علیگڑھ میں مقیم رہے۔ شیخ عبداﷲ اور وحید جہاں نے مسلمان خواتین کی تعلیم کا جو مشن شروع کیا تھا وہ 120سال گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکا۔
آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان میں خواتین کی تعلیم کا موضوع اہم رہا۔ بھارت میں مولانا ابو الکلام آزاد کو پہلا وزیر تعلیم مقررکیا گیا، یوں مولانا ابوالکلام آزاد کی نگرانی میں ایک جامع تعلیمی پالیسی تیار ہوئی۔ یوں خواندگی کی شرح بڑھی۔ خواتین ہر شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے لگیں مگر بھارتی حکومت کے دعوی کے باوجود خواندگی کا تناسب مجموعی طورپر 84.7 فیصد رہا۔ خواتین میں یہ تناسب 70.3 فیصد ہے۔ بھارت میں مسلمان خواتین اب بھی تعلیم کے میدان میں خاصی پیچھے ہیں۔ بانی پاکستان محمد علی جناح خواتین کے تعلیم اور آزادی کے سب سے بڑے داعی تھے۔
انھوں نے اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو ڈینٹسٹ کی تعلیم دلائی تھی۔ اپنی اہلیہ رتی کو قدم با قدم ساتھ رکھا تھا۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں مگر پاکستانی ریاست نے خواندگی کی شرح صد فی صد کرنے کے معاملہ کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح 60 فیصد تک پہنچ چکی جب کہ خواتین میں یہ شرح اب بھی 47 فیصد تک پہنچ سکی ہے۔
ہر سال کئی لاکھ بچے اسکولوں کا رخ نہیں کرتے، ان میں اکثریت طالبات کی ہے۔ آبادی میں اضافہ، غربت کی شرح بڑھنے، فرسودہ مذہبی رسم و رواج اور وسائل کی کمی کی بناء پر پاکستان خواندگی کی کے تناسب کی حدیں پار نہیں کرسکا۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوئیں۔ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں خواتین میں شرح خواندگی خاصی کم ہے۔
طالبان کے دور میں افغانستان میں خواتین کے حقوق کو پامال کیا گیا۔ ان رجعت پسند عناصر نے ایک منصوبہ کے تحت خواتین کے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو تباہ کرنا شروع کیا، یوں خواتین کی اسکول اور کالجوں کی عمارتیں خطرناک زون میں داخل ہوئیں۔ ملالہ یوسفزئی جو قاتلانہ حملہ کے بعد لندن میں مقیم ہیں خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے پرزور مہم چلارہی ہیں۔ جب تک خواتین میں صد فی صد خواندگی کا ہدف حاصل نہیں ہوگا پائیدار ترقی ممکن نہیں۔ وحید جہاں اور شیخ عبداﷲ کے خواب کی تکمیل سے ہی اس ملک میں غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔