پاکستان اقوام متحدہ کے مشرق بعید کی مالیاتی دہشت گردی کی انسداد کی ٹاسک فورس کے نرغے میں ہے۔ پاکستان کو گزشتہ تین برسوں سے اس ٹاسک فورس نے گرے لسٹ میں شامل کیا ہوا ہے۔ اس ٹاسک فورس نے دہشت گردوں کی گرفتاریوں، ان کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے، دہشت گردوں کی مالیاتی مدد کرنے والے نیٹ ورک کے خاتمہ کے لیے 27 نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ حوالہ کیا۔
حکومتی وزیر ایف اے ٹی ایف کے ہر اجلاس سے پہلے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے فہرست سے نکال دیا جائے گا مگر ہر اجلاس کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف نے گرے فہرست میں رکھنے کی مدت میں اضافہ کردیا ہے اور اب یہ خبر اخبارات کی زینت بنتی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے لیے پاکستان نے 24 سے زائد ممالک کو دہشت گردی کی مالیاتی معاونت کی روک تھام، منی لانڈرنگ اور ٹیرارزم کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے باہمی سطح پر قانونی معاونت کی فراہمی کی درخواست کیں لیکن سب نے سرد رویہ اختیار کیا۔
باہمی معاونت کے حوالہ سے پاکستان نے گزشتہ 3 برسوں کے دوران 24 سے زائد ممالک کو سرکاری سطح پر 232 درخواستیں بھیجیں۔ ایک اخباری خبر میں کہا گیا ہے کہ پیرس میں پاکستانی حکام کی جانب سے سیکڑوں صفحات پر مشتمل خطوط میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی انتظامیہ کو بتایا تھا کہ اس کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ممالک میں دہشت گردی کی مالیاتی معاونت کا سراغ لگایا ہے لیکن ان ممالک کی طرف سے نہ توقانونی معاونت فراہم کی گئی نہ ہی ٹھوس معلومات فراہم کی گئیں تاکہ دہشت گردی کے مالی مددگاروں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے۔ صرف رواں سال مارچ میں ایف ایم یو کی جانب سے عالمی سطح پر 34درخواستیں بھیجی گئیں ان میں سے 30 درخواستیں نیکٹا کی ہدایت پر بھیجی گئیں۔
ایف ایم یو نے بھی تعاون کے لیے آزادانہ انداز سے غیر ملکی حکومتوں کو 159 درخواستیں ارسال کیں۔ اس خبر میں ان ممالک کے نام ظاہر کیے گئے ہیں جن کو درخواستیں بھیجی گئیں۔ ان ممالک میں برطانیہ، فرانس، افغانستان، متحدہ عرب امارات، کینیڈا، ہالینڈ، سربیا، یمن، آئی لینڈ اور ایران شامل ہیں۔
اس خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب نے منی لانڈرنگ اور کرپشن کی رقوم کا سراغ لگانے کے لیے جن ممالک کو درخواستیں بھیجیں ان میں سوئٹزرلینڈ، ہانگ کانگ، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور فرانس شامل ہیں۔ اس طرح ملائیشیا، چین، جاپان، برطانیہ اور ہانگ کانگ علیحدہ سے شامل ہیں۔ جب بھی کسی ملک نے دہشت گردوں کا سراغ لگایا یا مالیاتی دہشت گردی کے حوالے سے درخواست ملی تو حکومت پاکستان نے فوری طور پر کارروائی کی۔
گزشتہ 3برسوں کے دوران خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ گزشتہ 73 برسوں سے پاکستان کی ہر موقع پر مدد کرنے والے ممالک کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے۔ ان ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک شامل ہیں۔ اگرچہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں میں مقررہ ہدف حاصل نہ کرنے میں حائل رکاوٹوں کی ذمے داری بھارت پر عائد کی ہے مگر معاملات کچھ اور رخ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی بیانیہ ایک اہم وجہ ہے جس کی بناء پر پاکستان اپنے دوستوں اور بین الاقوامی برادری سے وہ حمایت حاصل نہیں کرپایا جو ماضی میں ملتی رہی۔ حکمران قیادت سعودی دہشت گرد اسامہ بن لادن کے لیے پوشیدہ ہمدردی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اسامہ کو شہید قرار دینے کے وزیراعظم کے انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر قرار دیا۔
کہا جاتا ہے کہ فرانس یورپی یونین کا اہم رکن ہے تو فرانس نے یورپی یونین میں پاکستان کو خصوصی رعایتیں دینے کے لیے کوشش کی تھی مگر فرانس سے تعلقات بہت خراب ہونے کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کو فحاشی سے منسلک کرنے کے بیانیہ کی بھی یورپ میں مذمت ہوئی ہے۔
پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قریبی دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معیشت میں بنیادی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ ان ممالک کی معیشت کا انحصار پہلے مکمل طور پر تیل کی پیداوار پر تھا مگر اب تیل کی پیداوارکم ہوتی جا رہی ہے۔ ان ممالک میں بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے افرادی قوت کے بجائے جدید ترین ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب میں متوسط طبقہ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا ہے اور وہاں صنعتیں قائم ہورہی ہیں۔
ان صنعتوں کے تیار کردہ مال کی کھپت بھارت جیسے ملک میں آسانی سے ممکن ہے جہاں اور وجوہات کے علاوہ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر ان دوست ممالک کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے۔ سعودی عرب نے یہ پابندی لگائی ہے کہ ان غیر ملکی باشندوں کو ملک میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی جنھوں نے فائزر کمپنی کی ویکسین لگائی ہو۔ پاکستان میں چین کی فراہم کردہ ویکسین لگائی جاتی ہے۔ اس پابندی کا شکار پاکستان ہے جس کے ملازمین سعودی عرب میں نہیں جا پا رہے اور حکومت کے دعوؤں کے باوجود سعودی عرب کی پالیسی تبدیل نہیں ہوسکی ہے۔
اسی طرح پاکستان میں کورونا کی شرح انتہائی کم ہونے کے قریب ہے مگر یو اے ای پاکستان سے آنے والی پروازوں کو اجازت دینے کو تیار نہیں ہے جس کی بناء پر ہزاروں پاکستانیوں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر تنہا ہونا ہی ملک کی معیشت اور مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔