Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Ahfaz Ur Rahman Bhi Rukhsat Hue

    Ahfaz Ur Rahman Bhi Rukhsat Hue

    احفاظ چلے گئے، ہمیں غریب کر گئے۔ ایک بڑی لڑائی ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ وہ شخص جو نوجوانی کے دنوں سے کٹیلی تقریریں کرتا رہا، آخری دنوں میں کینسر کے اژدھے نے ڈس لیا، اس اژدھے کا زہر پورے بدن میں پھیل گیا، لیکن وہ اپنی لکھت سے لڑتا رہا۔

    آج کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر خبریں ٹائپ کرنے اور اسے پیج میکر کے حوالے کرنے کا زمانہ ہے۔ احفاظ اس دور سے تعلق رکھتے تھے جب پیلے کاغذ اور بٹر پیپر پر کتابت ہوتی تھی۔ وہ پیسٹر سے پیسٹنگ کرواتے اور اگر مضمون یا خبر 3 انچ بڑھ جاتی تو قینچی سے فی الفور اس کے پر قینچ دیتے۔

    احفاظ نے نثار عثمانی، منہاج برنا، حسین نقی اور شوکت صدیقی کے زیر سایہ صحافت کی۔ نچلے متوسط طبقے سے اٹھے، ضیا کے زمانے میں ان کے دائیں بائیں امکانات کی گنگا بہہ رہی تھی لیکن انھوں نے اس گنگا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا اور دریائے خوں میں تیرتے چلے گئے۔

    وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی دوستی پر ناز کیا جائے۔ میں بھی اُس دوستی پر ناز کرتی ہوں جو اب لگ بھگ پچاس برس پر پھیل گئی تھی۔ ہم مفلسی کے دنوں کے دوست تھے۔ دفتر کی ردی بیچ کر پانچ سات روپے میں دوپہر کا کھانا پکانے اور پھر اسے چٹخارے لے کر کھانے والے کیونکہ اس میں ہری مرچیں جی بھر کر ڈالی جاتیں۔

    احفاظ نے ایک جگہ کیا سچ لکھا ہے۔"درد کا یہ رشتہ سچے انسانوں کے درمیان خوشبو کی لہر بن کر سفر کرتا ہے، ظلم اور ناانصافی کے خلاف سینہ سپر ہونے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ ناداروں اور مظلوموں کے لیے، سچائی اور روشنی کے لیے لڑنے کا جذبہ سکھاتا ہے۔ یہی رشتہ سچی خوشی کی تصویر تخلیق کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ہم زندگی کو کبھی بجھنے نہیں دیں گے۔ اس رشتے کو، اس جذبے کو موت بھی فنا نہیں کرسکتی۔"

    احفاظ ایسے لوگ کسی بھی سماج کا سرمایہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں سچے اور کھرے لوگوں کے سچ سے لوگوں کو ڈر لگتا ہے اسی لیے انھیں سماج کے حاشیوں پر دھکیلے جانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ احفاظ خوش نصیب تھے کہ برنا صاحب ایسے لوگوں کی سرپرستی میں انھوں نے سچ لکھنے اور بولنے کا سبق لیا۔ وہ خوش نصیب تھے کہ انھیں برادران یوسف کے بجائے ایسے دوست اور بھائی ملے جنھیں جنرل ضیا الحق کے احکام پر کوڑے مارے گئے اور ان تازیانوں کی اذیت احفاظ کے ذہن میں آخری سانس تک زندہ رہی۔ مہ ناز ایسی شریک حیات ملی جس نے زندگی کی بہت کڑی دھوپ میں بھی ان سے شکایت نہیں کی، روٹھ کر میکے نہیں گئی اور فے فے اور رمیز جیسے پیارے بچوں کو جی جان سے پروان چڑھایا اور سب سے آخر میں جی چاہتا ہے کہ ان کی خوش دامن کو داد دوں جنھوں نے اتنے نکیلے، نخریلے داماد سے بیٹوں کی طرح محبت کی اور مہ ناز کا دکھ دیکھنے سے پہلے چلی گئیں۔

    احفاظ ہمیشہ خوابوں کے تعاقب میں رہے اور اسی تعاقب کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ "زندگی بہت سخت جان، بہت توانا ہے۔ زندگی محبت کی خوشبو پھیلاتی ہے اور وہ نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ زندگی کے ہاتھ پہیا ایجاد کرتے ہیں، اس کے دشمن اپنی بالادستی اور برتری کی ہوس میں ایٹم بم بناتے ہیں۔ دوسروں کو اپنا محتاج اور غلام بنانے کی یہ ہوس سیاسی اور معاشی غلامی کا چلن عام کرتی ہے، ناانصافی کی بھیانک شکلوں کو فروغ دیتی ہے، اونچ نیچ کی دیواریں کھڑی کرتی ہے، لمحہ لمحہ محرومیوں کا زہر پینے والے مجبور اورنادار لوگوں پر قہقہے لگاتی ہے، رات دن مئے عشرت کے جام لنڈھانے والے حاکموں کو بڑھاوا دیتی ہے اور رنگ، نسل، مذہبی عقیدے اور جغرافیائی حد بندیوں کے نام پرہر گلی، ہر کوچے کو نفرتوں اور تعصبات کے سانپوں سے بھر دیتی ہے۔"

    احفاظ کا اور میرا ان ہی کڑے موسموں کا ساتھ تھا۔ ہم نے بھنی ہوئی شکر قندی پر نمک اور کُٹی ہوئی سرخ مرچ بُرک کر کھائی اور یوں خوش ہوئے جیسے مغلئی دستر خوان کے شاہی ٹکڑوں سے لطف اندوز ہوئے ہوں جن پر میوئوں کی ہوائی اور دبیز بالائی کی تہ ہو۔ مفلسی کا جشن مناتے ہوئے بھنے ہوئے گرم چنوں کی سوندھی خوشبوہماری سنگی ساتھی تھی۔ احفاظ اگر یہ مشکل زندگی ہنس کر گزار سکے تو اس لیے کہ مہ ناز ان کے دکھ سکھ کی شریک تھی اور صبر کے دریا میں شکر کی نائو ہنستے ہوئے کھیتی تھی۔ میرا جی خوش ہوا جب اپنے نئے مجموعے ’زندہ ہے زندگی، کا انتساب احفاظ نے مہ ناز اور اپنے بچوں کے نام کیا۔

    پھر وہ دن آئے جب احفاظ، مہ ناز اور بچوں کے ساتھ چین چلے گئے، میں نے انگلستان کا رخ کیا۔ وہ دونوں وہاں استقامت سے آٹھ برس ڈٹے رہے۔ مجھ سے لندن میں نہ رہا گیا اس لیے بی بی سی کو رخصتی سلام کیا اور ڈیڑھ برس میں ہی واپس آگئی۔ عرصۂ دراز بعد ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وقت نے احفاظ کا کچھ نہیں بگاڑا۔

    احفاظ نے نثر لکھی، شاعری کی۔ ان کے لکھے ہوئے اور بولے ہوئے ہر لفظ کا قبلہ راست رہا۔ ہمارے یہاں ایسے متعدد شاعر گزرے ہیں جنھوں نے بغاوت اور سیاستِ دوراں کو اپنی شاعری کے ماتھے کا جھومر بنایا اور غیروں کے یہ بول سہے کہ شاعری اور سیاست کا بھلا کیا سمبندھ۔ احفاظ بھی ان ہی میں سے تھے جن کی شاعری میں سیاست لہوکی طرح گردش کرتی تھی۔

    صحافت اس کی محبوبہ تھی اور اس کی زلفیں سنوارنے کے لیے وہ جان پر کھیل جانے کو زندگی کی معراج سمجھتا تھا، شعلہ نفس اور شعلہ بہ جاں تھا۔ ایسے باضمیر لکھاریوں کے لیے پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی ایک زندان رہا اور آج بھی اس زنداں کی غیر مرئی سلاخیں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہیں۔

    احفاظ ابتداء میں افسانے کے میدان کی سیر کو نکلے تھے۔ راستے میں روزی روٹی کے مرحلے بھی آتے تھے۔ ایک ذمے دار بیٹا، باپ اور شوہر صحافت کے خارزار کی طرف نکل گیا۔ منہاج برنا، نثار عثمانی، حسین نقی اور شوکت صدیقی کی رہنمائی میں احفاظ کی مزاحمت جاری رہی اور بڑھتی ہی گئی۔ پاکستان ابتداء سے غاصبوں اور آمروں کا ڈسا تھا، عوام خس و خاشاک کی طرح روندے جارہے تھے، ایسے میں احفاظ نے جنرل ایوب، جنرل ضیاء، جنرل مشرف ہر آمر مطلق کے خلاف لکھا اور جم کر لکھا۔

    ان کی نازک مزاجی اور اپنے ایمان پر یقینِ کامل ان کے وجود کا بنیادی جزو تھا۔ ان کی نازک مزاجی کو ان کی نصف بہتر مہ ناز نے بڑے حوصلے سے جھیلا اور آخر تک اس امتحان میں پوری اتریں۔ جہاں تک احفاظ کا معاملہ ہے تو اس کی گواہ ان کی تحریریں، ان کی صحافتی جدوجہد اور کراچی پریس کلب کے درو دیوار ہیں۔ انھوں نے کتنی ہی جیلیں کاٹیں، کتنی ہی لاٹھیاں کھائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کتنی ہی تحریصات اور ترغیبات کے دام سے بچ کر نکلے اس کا حساب ان کے قریب ترین لوگ خوب جانتے ہیں۔ 2007 کے نومبرکی بات ہے جب میں نے پریس کلب کے سامنے انھیں پولیس والوں کی لاٹھیاں کھا کر سڑک پر گرتے اور گرفتاری دیتے دیکھا۔ جی خوش ہوا کہ ماہ وسال کی گردشوں نے احفاظ کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ان کی رگوں میں لہریں لیتا ہوا لہو اتنا ہی سرشور اور اتنا ہی انقلابی ہے جتنا ان کی جوانی کے دنوں میں تھا۔ غاصبوں کے خلاف ان کا غصہ ذرا بھی کم نہیں ہوا۔ جنرل ایوب، جنرل ضیاء، جنرل پرویز مشرف کسی کا بھی دور ہو، ان کی روح پر ہر دور کے تازیانوں کے نشان تھے اور اب 2020 میں وہ سوگئے۔

    احفاظ ایسے لوگ کسی بھی سماج کا سرمایہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں سچے اور کھرے لوگوں کے سچ سے لوگوں کو ڈر لگتا ہے اسی لیے انھیں سماج کے حاشیوں پر دھکیلے جانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ وہ خوش نصیب تھے کہ انھیں برادران یوسف کے بجائے ایسے دوست اور بھائی ملے جنھیں جنرل ضیا الحق کے احکام پر کوڑے مارے گئے اور ان تازیانوں کی اذیت احفاظ کے ذہن میں آخری لمحے تک زندہ رہی۔

    About Zahida Hina

    Zahida Hina

    Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

    Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

    Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.