Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aik Khat Jo America Ke Naam Likha Gaya

Aik Khat Jo America Ke Naam Likha Gaya

سال کے آخری دن ہوں تو بہت سی باتیں یاد آتی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک امریکا کے بارے میں مارگریٹ ایڈوڈ کا ایک خط ہے۔ اس خط کا ذکرکرنے سے پہلے آئیے! کچھ دیرکو یہ فرض کرلیتے ہیں کہ جارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن اور ابراہم لنکن زندہ ہوگئے ہیں اور ان کے سامنے گزشتہ ساٹھ ستر برس کے امریکی حکمرانوں کی کارگزاری رکھ دی گئی ہے۔

انھیں جاپان پر ایٹمی حملے، کوریا، کمپوچیا، ویتنام، نکاراگوا، چلی، ال سلواڈور اور پناما میں امریکی مداخلت اور خوں ریزی کی کہانیاں سنا دی گئی ہیں، انھیں ہیرو شیما اور ناگاساکی سے آج کے لمحے تک افغانستان اور عراق پر ظالمانہ حملے اور ناجائز قبضے کی تمام فلمیں دکھا دی گئی ہیں۔ ان لوگوں نے ان حملوں کے بارے میں صدر امریکا سے لے کر وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے اہم ذمے دار سرکاری اہل کاروں کے بیانات پڑھ لیے ہیں۔

انھوں نے باجوڑ اور اس سے پہلے کی بمباریوں میں جاں بحق ہونے والے بے گناہوں کی چارپائیوں پر رضائیاں اوڑھ کر لیٹی ہوئی لاشیں اور پارہ پارہ بدن دیکھ لیے ہیں۔ انھوں نے امریکا کے "دستِ حق پرست " پر بیعت کرنے والے سب سے بڑے اتحادی کی شان میں امریکی صدرکی داد وتحسین سن لی ہے اور قصیدے پڑھ لیے ہیں۔ اور ہاں انھوں نے ابو غریب اور گوانتانا موبے میں امریکی فوجیوں کی "بے مثال کارگزاریوں "کی ویڈیوکلپس دیکھ لی ہیں۔

آئیے! ہم سوچتے ہیں کہ اس " امریکی کار گزاری" سے آگاہ ہونے کے بعد ان قائدین امریکا کا کیا حال ہوسکتا ہے؟

میرے خیال میں اگر یہ سب کچھ ممکن ہو تو یہ لوگ حیرت اور صدمے سے شاید جاں بر نہ ہوسکیں اور دوبارہ ان کی روحیں عالم بالا کو پروازکر جائیں۔ اس کا بھی مجھے یقین ہے کہ اگر یہ پھر سے زندہ کیے جائیں تو یہ تینوں اعلان کر دیں گے کہ کسی دوسرے ملک کا نام " امریکا " رکھ دیا گیا ہے کیونکہ ہم نے جس امریکا کی بنیاد رکھی تھی، انصاف، آزادی، مساوات اور جمہوریت اس کے بنیادی ستون تھے، ہم نے کسی غاصب اور استحصالی ملک کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اور جب انھیں یقین دلایا جائے گا کہ یہ ان ہی کا امریکا ہے تو وہ شاید اپنے امریکی ہونے سے انکار کر دیں یا شاید بیسویں صدی کے بیشتر امریکی سیاستدانوں اور مدبروں کو عاق کرنے کا اعلان کردیں اور اپنا گریباں چاک کرکے جنگل و صحرا کا رخ کریں۔

4 جولائی 1776 کو امریکی سیاستدانوں اور جرنیلوں نے ایک خوں ریز عوامی جدوجہد کے بعد جب برطانیہ کے نوآبادیاتی چنگل سے نجات حاصل کی تھی تو امریکی خواص اور عوام دونوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی تھی۔ اسی زمانے میں "نئی دنیا" کی اصطلاح رائج ہوئی تھی۔ امریکیوں کا کہنا تھا کہ انقلاب امریکاسے پہلے جو دنیا تھی وہ "پرانی دنیا" تھی اور اب ہم ایک "نئی دنیا" کی تشکیل کر رہے ہیں۔ انقلاب برپا کرنے والے ان امریکی رہنماؤں نے " اعلان آزادی " کے ابتدائی حصے میں لکھا تھا:

"ہم ان حقائق کو حتمی سمجھتے ہیں کہ تمام انسان یکساں حیثیت کے ساتھ پیدا ہوئے اور خالق نے انھیں بعض ایسے حقوق دیے جو قطعاً چھینے نہیں جاسکتے۔ ان حقوق میں زندگی، آزادی اور سعی راحت شامل ہیں۔ ان ہی حقوق کے حصول کے لیے انسانوں کے درمیان حکومتیں بنتی ہیں۔ وہ اپنے تمام جائز اختیارات شہریوں کی رضامندی سے حاصل کرتی ہیں۔

چنانچہ جب حکومت کی کوئی شکل ان مقاصد کے لیے تباہی کا باعث بن جاتی ہے تو لوگوں کا حق ہے کہ اسے بدل دیں یا ختم کر دیں اور اس کی جگہ نئی حکومت قائم کرلیں۔" امریکی اعلان آزادی ایک شاندار دستاویز ہے لیکن افسوس کہ اس کی روح کئی دہائیوں پہلے پرواز کرچکی اور آج امریکا ایک ایسی استبدادی اور استعماری قوت ہے جو دنیا کی کمزور ترین قوم کو بھی پوری قوت سے کچلنے کو بہادری اور ایک کارنامہ خیال کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو انقلاب امریکا ناکام ہوچکا ہے۔ انقلابِ امریکا کی اس ناکامی نے صرف تیسری دنیا ہی نہیں، پہلی دنیا کے بھی بہت سے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو ششدر کر دیا ہے۔

یہ لوگ امریکی اعلانِ آزادی کو یاد کرتے ہیں اور اپنے سر پر خاک ڈالتے ہیں۔ امریکی حکمرانوں اور فوجیوں سے یہ ان کا سادہ سوال ہے کہ اپنے وجود میں چھپے ہوئے وحشی درندے پر وہ آخر کب قابو پائیں گے۔ امریکا سے، دنیا بھر کے ادیبوں اور دانشوروں کے یہ سوالات بہت پرانے ہیں۔

تحریروں، تقریروں، مذمتی بیانات کے اس ہجوم میں مجھے کینیڈا کی مشہور ادیب مارگریٹ ایٹ ووڈ کی یاد آتی ہے۔ اس نے " امریکا کے نام ایک خط " لکھا۔ اس خط نے کینیڈا، امریکا اور برطانیہ میں تہلکہ مچا دیا۔ وہ لوگ جو مارگریٹ ایٹ ووڈ کی تحریروں کے دلدادہ ہیں، انھوں نے مارگریٹ کی اس تحریر کی بھی بے حد داد دی لیکن ناقدینِ کرام نے سر پکڑ لیا۔ وہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اسے چند برسوں کے اندر ادب کا نوبل انعام مل جائے گا لیکن نوبل انعام لینے کے لیے کبھی کبھی زبان پر تالے ڈالنے پڑتے ہیں اور قلم کو لگام دینی ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مارگریٹ ایٹ ووڈ نے اپنے ان ناقدوں کو کیا جواب دیا، لیکن اس کی بعض تحریروں سے یہی اندازہ ہوا کہ اسے اپنے قلم کی حرمت، نوبل ادبی انعام سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔ امریکا کے نام مارگریٹ نے یہ خط دو یا شاید تین برس پہلے لکھا تھا، اس خط کا آغاز کچھ یوں ہوا ہے:

"پیارے امریکا : تمہیں یہ خط لکھنا مشکل ہو رہا ہے اس لیے کہ اب مجھے یقین نہیں رہا ہے کہ تم کون ہو۔

ہم میں سے بعض دوسرے لوگوں کو بھی اسی مشکل کا سامنا ہوگا۔ میں سمجھتی تھی کہ میں تمہیں جانتی ہوں : ہم گزری ہوئی دہائیوں میں ایک دوسرے سے مانوس ہوچکے تھے۔ تم مکی ماؤس اور ڈونلڈ ڈک کی وہ کامک بکس تھے جو میں نے 1940 کی دہائی کے اواخر میں پڑھیں۔ تم میرے پسندیدہ ریڈیو پروگرام تھے۔ تم وہ موسیقی تھے جس کے ساتھ میں گاتی اور رقص کرتی تھی۔ تم میرے لیے بے پناہ خوشی اور لطف کا سبب تھے۔

تم نے میری چند پسندیدہ کتابیں لکھیں۔ تم نے ہکل بری فن اور ہاک آئی، اور "لٹل وومن" کی بیتھ اور جو کو تخلیق کیا۔ اس کے بعد تم میرے چہیتے تھورو تھے، بابائے ماحولیات، انفرادی ضمیر کا گواہ؛ اور والٹ وہٹمن، عظیم جمہوریہ کا مغنی، اور ایملی ڈکنسن، تنہائی کی روح کی پاسبان۔ تم ہیمٹ اور شینڈلر تھے، اندھیری گلیوں سے گزرنے والے بہادر، اس کے علاوہ تم ہیمنگ وے، فٹز جیرلڈ اور فاکنر جیسے تین حیرت انگیز شاعر اور ادیب تھے جنھوں نے تمہارے دل کی پوشیدہ اور اندھیری بھول بھلیاں کے نقشے ابھارکر واضح کیے۔ تم سنکلیر لیوس اور آرتھر ملر تھے جو اپنے اپنے امریکی آدرش لے کر تمہارے اندر موجود تصنع اور ریا کاری کے پیچھے پڑے رہے، اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تم اس سے بہتر ہوسکتے ہو۔

تم "ان دی وار فرنٹ" کے مارلن برانڈو تھے، تم "کی لارگو" کے ہمفرے بوگارٹ تھے، تم "نائٹ آف دی ہنٹر" کی للین گِش تھے۔ تم آزادی، ایمان داری اور انصاف کے مبلغ تھے۔ تم معصوموں کے محافظ تھے۔ میں ان سب باتوں پر یقین رکھتی تھی۔ میرے خیال میں تم بھی رکھتے تھے۔ اس وقت یہی سچ لگتا تھا۔

اس خط کے لکھنے میں شاید یہی میری مشکل رہی ہے: مجھے اب اس بات کا یقین نہیں ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ تم امریکی آئین کی جڑ کاٹ رہے ہو۔ نئی آئینی ترمیم کے بعد اب یہ ممکن ہے کہ آپ کے گھر میں آپ کی مرضی یا اجازت کے بغیر داخل ہوا جاسکے، آپ کو کسی سبب کے بغیر پکڑا اور نظر بند کیا جاسکتا ہے، آپ کی ڈاک کھول کر پڑھی جاسکتی ہے، آپ کی نجی دستاویزات کی جانچ پڑتال ہوسکتی ہے۔

یہ وسیع پیمانے کی کاروباری چوری، سیاسی دھمکی اور جعل سازی کی ترکیب کے سوا اور کیا ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ تم کو بتایا گیا ہے کہ یہ تمہاری اپنی حفاظت کے لیے ہے مگر لمحے بھر کے لیے ذرا سوچو۔ تم اتنی آسانی سے تو ڈرنے والے نہیں تھے۔

تم پر قرض کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ تم اسی طرح خرچ کرتے رہے تو پھر بہت جلد وہ وقت آجائے گا جب تم اتنے بڑے فوجی ایڈونچر کا بوجھ برداشت نہیں کرسکو گے۔ تم اپنی معیشت میں آگ لگا رہے ہو۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد تمہارے پاس اپنے مسائل کا ایک یہی حل ہوگا کہ خود کوئی چیز پیدا نہ کرو بلکہ دوسرے لوگوں کی صنعت وحرفت پر چھین جھپٹ کر اور "گن ڈپلومیسی" کی قیمت پر سب کچھ حاصل کرلو۔

اگر تم اس پھسلواں ڈھلان پر یوں ہی آگے بڑھتے رہے تو پھر ساری دنیا کے لوگ فیصلہ کرلیں گے کہ پہاڑ پر بسا ہوا تمہارا شہر ایک گندی بستی ہے اور تمہاری جمہوریت ایک دھوکا۔ وہ سمجھیں گے کہ تم نے قانون کا احترام چھوڑ دیا ہے۔ وہ سمجھیں گے کہ تم نے اپنا آشیانہ خود ہی برباد کر ڈالا ہے۔"

مارگریٹ ایٹ ووڈ کا یہ خط اگر جارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن اور ابراہم لنکن پڑھ لیں تو وہ شاید خودکشی کرنا چاہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ عالم بالا میں خودکشی نہیں کی جاسکتی۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.