ان دنوں کئی حوالوں سے مجھے پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس جناب جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس کی یاد بار بار آتی ہے۔ ہندوستان کے شہر آگرہ میں 8 مئی 1903 کو پیدا ہونے والا غیر معمولی ذہانت اور علم کا حامل یہ قانون دان اور فلسفی 21 دسمبر 1991 کو 88 برس کی عمر میں لاہور میں اس دار فانی سے کوچ کرگیا۔
کارنیلیس نے الہ آباد اور کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، انڈین سول سروس کا امتحان پاس کیا اور اپنے کیرئیر کا آغاز اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر کیا۔ بعد ازاں انھوں نے عدالتی کیریئر اختیارکر لیا اور اپنی منفرد ذہانت اور محنت سے بڑی شہرت اور نام کمایا، کئی کتابیں تصنیف کیں اور تحریک پاکستان میں سرگرم کارکن کی حیثیت سے جدوجہد بھی کی۔
تقسیم سے قبل 1946 میں انھیں لاہور ہائی کورٹ کا ایسوسی ایٹ جج مقرر کیا گیا لیکن پاکستان کی تشکیل کے بعد انھوں نے اپنے آبائی وطن میں رہنے کے بجائے اس ملک کی جانب کوچ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے قیام کے لیے انھوں نے بڑی جدوجہد کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب نو تخلیق ملک پاکستان کو ہر شعبہ زندگی میں تعلیم یافتہ افراد اور ماہرین کی شدید ضرورت تھی۔
وہ مسلمان نہیں تھے لیکن مسلمانوں کے لیے حاصل کیے جانے والے ملک کی خدمت کے لیے انھوں نے رضاکارانہ نقل مکانی کی۔ ذرا اندازہ کریں کہ ہندوستان کتنی فرقہ وارانہ کشیدگی کے ماحول میں تقسیم ہوا تھا۔ تقسیم کے بعد ہونے والی خوں ریز نقل مکانی کے دوران ہندو، مسلم اور سکھوں نے ایک دوسرے کا کس قدر بہیمانہ قتل عام کیا تھا۔
تاہم، یہ اس دورکی قیادت بالخصوص جناح صاحب کا کمال تھا کہ انھوں نے اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک میں مذہبی رواداری کی عملی مثالیں قائم کیں۔ انھوں نے جوگندرناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون مقرر کیا۔ اے۔ آر۔ کارنیلیس نے پاکستان کا انتخاب کیا تھا، یہاں آنے کے بعد انھیں وزیر قانون کا سیکریٹری قانون بنا دیا گیا۔ آج ہم کو پاکستان میں جو اعلیٰ عدالتی اور زیریں عدالتی نظام نظر آتا ہے۔
اس کو قائم کرنے میں جسٹس کارنیلیس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل نے ان کی صلاحیتیوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان کے بہترین مشوروں پر عمل کرتے ہوئے ملک میں ایک موثر قانونی و عدالتی نظام قائم کیا۔
جسٹس اے آرکارنیلیس کو 1960میں پاکستان کا چیف جسٹس مقررکیا گیا۔ اب تک اس معزز عہدے پر جتنے بھی لوگوں نے فرائض سر انجام دیے ہیں ان میں جن چند لوگوں کو غیر معمولی عزت اور احترام حاصل ہوا ہے ان میں جسٹس کارنیلیس کا نام بھی شامل ہے۔ انھوں نے پاکستان کو صحیح معنوں میں مذہبی امتیاز اور انتہا پسندی سے پاک ریاست بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
انھیں اندازہ تھا کہ مذہبی انتہا پسندی نو آزاد ملک کے مستقبل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ان کا زیادہ زور اس بات پر تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور ریاست کے تمام شہریوں کو اپنے عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی فراہم کی جائے۔ یہ تمام کام وہ انسان کررہا تھا جس کا تعلق ان مسلم اکثریتی صوبوں سے نہیں تھا جہاں پاکستان بنا تھا۔ وہ مسلمان نہیں عیسائی تھے اور اینگلو انڈین خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کسی غریب خاندان کا ایک ایسا تعلیم یافتہ نوجوان تھا جو اپنے شاندار مستقبل کی تلاش میں پاکستان آگیا تھا۔ ان کے والدین رومن کیتھولک برادری میں بہت معزز مقام رکھتے تھے۔ ان کے والد میتھ میٹکس کے پروفیسر تھے۔ ان کی خاندانی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمبرج جیسی یونیورسٹی میں بھیجا گیا تھا۔
وہ ہندوستان کی سول سروس کا حصہ تھے۔ اپنی قابلیت اور خاندانی اثرورسوخ کی بنیاد پر وہ ہندوستان میں بھی اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتے تھے لیکن وہ ایک فلسفی اور خواب دیکھنے والے انسان تھے لہٰذا انھوں نے انسانی وسائل سے محروم ایک نو آزاد ملک، پاکستان جانے اور اس کے قانونی نظام کو اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کے مشکل کام کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور اس میں سرخرو ہوئے۔
جسٹس اے آر کارنیلیس ایک سیکولر قانون دان اور دانشور تھے۔ برصغیر کی تاریخ کا یہ وہ سنہرا دور تھا جب دانشوروں پر مذہبی، مسلکی، نسلی یا لسانی تنگ نظری کا غلبہ نہیں تھا۔ روا داری، برداشت اور تحمل سے ایک دوسرے کا نقطہ نظر سنا اور مخالف کی رائے کا احترام کیا جاتا تھا۔
یہ ہمارے ملک کا ایک بڑا المیہ تھا کہ ہماری عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ فوجی و تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے سیکولر فکر کے حامل لوگوں نے چھوٹے چھوٹے مفاد کی خاطر اپنے اصولوں کو ترک کرکے تنگ نظری اختیار کر لی، جس کی وجہ سے ملک میں قانون کی بلا امتیاز حکمرانی قائم نہ ہوسکی اور آمریت نے مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ لیے۔ اس حوالے سے جسٹس منیر کی مثال ہی کافی ہوگی۔
وہ ایک آزاد فکر رکھنے والے کھلے ذہن کے جج تھے۔ ان کی مرتب کردہ منیر رپورٹ اعلیٰ سیکولر اقدار کی شاندار عکاسی کرتی ہے لیکن اسے ایک المیہ کے سوا اور کیا کہا جائے کہ انھوں نے " نظریہ ضرورت " ایجاد کیا اور اس کے تحت گورنر جنرل غلام محمد سے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کو جائز اقدام قرار دیا۔
اس وقت کی فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) جب اس غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کو جائز قرار دے رہی تھی تو جسٹس اے۔ آر کارنیلیس وہ واحد جج تھے جنھوں نے جسٹس منیر کے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ جسٹس منیر کے اس فیصلے کے بعد ہر آنے والے مہم جو آمر کے لیے راستہ ہموار ہوگیا اور اعلیٰ عدلیہ نے پے در پے ان کے حق میں فیصلے دینے شروع کر دیے۔
کیا اس کو محض حسن اتفاق کہا جائے گا کہ مولوی تمیز الدین مقدمے میں جس سندھ ہائی کورٹ نے غلام محمد کے اقدام کو کالعدم قرار دیا تھا اس کے سربراہ جسٹس جارج کانسٹینٹائن تھے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے والی فیڈرل کورٹ میں جس واحد جج نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا وہ اے۔ آر۔ کارنیلیس تھے۔ مسلم ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے دو غیر مسلم ججوں نے عدل، انصاف اور قانون کی حکمرانی کا پرچم بلند رکھا اور جذبہ ایمانی سے سرشار ججوں نے آمرانہ طاقتوں کے ہاتھوں پر بیعت کر لی۔
جن ملکوں کی اعلیٰ عدلیہ نے آزادی کے حصول اور جمہوری عمل کے آغاز کے فوراً بعد سے آئین و قانون کی بالادستی کے لیے تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنا تاریخی کردار اداکیا وہ ملک دنیا کے مضبوط جمہوری ملک بن چکے ہیں۔ اس حوالے سے امریکا کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔
آج سے تقریباً 225 سال قبل اس کی سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس جون جے نے جنھیں صدر جارج واشنگٹن نے اس عہدے پر فائزکیا تھا، اپنا منصب سنبھالتے ہی یہ مثال قائم کر دی تھی کہ سپریم کورٹ قانون سازی کے بارے میں رائے نہیں دے گی یعنی وہ قانون سازی کے عمل میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ وہ صرف ان معاملات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی جو اس کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ اسی طرح امریکی سپریم کورٹ میں سب سے زیادہ مدت تک چیف جسٹس رہنے کا اعزاز رکھنے والے جج جون مارشل نے 218 سال پہلے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔
انھیں امریکا کی سپریم کورٹ کا سب سے با اثر جج تصور کیا جاتا ہے جنھوں نے سپریم کورٹ کو حکومت سے آزاد طاقتور ادارے کے طور پر منظم کیا جو ریاست کا تیسرا مضبوط ستون بن گیا۔ انھوں نے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے مثالی فیصلے کیے۔ امریکا میں ایسا اس لیے ہوسکا کہ حکومتوں نے عدلیہ کو غلام بنانے پر اصرار نہیں کیا اور اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی انصاف کے اصولوں کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ ہمارے یہاں یہ نہیں ہوسکا۔ حکمرانوں نے ابتدا سے ہی عدلیہ کو اپنے تابع کرلیا اور جج ان کی مزاحمت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
کاش ہمارے ملک کا ہر ادارہ یہ طے کر لے کہ خواہ کچھ بھی ہو آئین اور قانون سے انحراف کی راہ اختیار نہیں کی جائے گی تاکہ جسٹس اے آر کارنیلیس کا اپنے آبائی وطن میں بہترین مستقبل کو چھوڑ کر پاکستان آنے اور یہاں کسی شاندار گھر یا کوٹھی کے بجائے 40 سال تک لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں زندگی گزارنے کا فیصلہ غلط ثابت نہ ہو۔