آج آٹھ مارچ، خواتین کا عالمی دن ہے۔ پرسوں صبح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا یہ بیان پڑھ کر بوجھل دل کو بڑی تقویت ملی کہ آج جب 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کے ختم ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں، ہمارے معاشرے میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو عورتوں کو خود سے کم تر تصور کرتے ہیں اور ان کے خلاف گفتگو کرتے وقت تہذیب کی ہر حد عبور کرجاتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے عورت مارچ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس مارچ کی مخالفت کرنے والے پرانی دنیا میں رہتے ہیں لیکن اب ان کا دور ختم ہوچکا ہے۔
اب وہ وقت ہے کہ جب عورت سب کچھ کرے گی، وہ مارچ بھی کرے گی، ڈاکٹر بھی بنے گی، فوج میں بھی جائے گی اور وزیر اعظم بھی بنے گی۔ کوئی مولانا، کوئی سیاستدان یا اینکر اس کا راستہ نہیں روک سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ چند لوگوں کو بلاول بھٹو کی یہ باتیں پسند نہ آئیں لیکن کسی بھی قسم کی سیاسی مصلحت یا دباؤ سے بالاتر ہوکرایک حقیقی رہنما ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے بینظیر کے بے مثال بیٹے نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس میں وہ سیاسی عزم اور جرات موجود ہے جو کسی سیاستدان کو ایک مدبر میں تبدیل کرنے کی اولین شرط ہوتی ہے۔ اس موقع پر میں تحریک پاکستان میں عورتوں کے کردار اور آج سے 80 سال قبل بانیٔ پاکستان کے خیالات پیش کرنا چاہوں گی۔
اس کا ہر گز یہ مقصد نہ نکالا جائے کہ میں نوجوان بلاول کا موازنہ کسی بھی طور جناح صاحب سے کررہی ہوں۔ ان کا ذکر کرنے کی وجہ اس لیے محسوس ہوئی کہ اپنے آج کے حکمرانوں، سیاستدانوں، دانشوروں اور علماء کو یہ باور کرایا جائے کہ جس جناح کے قصیدے آپ رات دن پڑھتے ہیں اور خود کو ان کے نقش قدم پر چلنے والا قرار دیتے ہیں، عورتوں کے حقوق کے بارے میں کیا خیالات رکھتے تھے اور یہ کہ تخلیق پاکستان کی تحریک میں عورتوں نے کتنا غیر معمولی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آگیا تو آزادی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں نے عورتوں کو مساوی حقوق طلب کرنے پر انتہائی تضحیک آمیز رویہ کا نشانہ بنایا۔
اس وقت مجھے وہ تمام لڑکیاں اور عورتیں یاد آرہی ہیں جو حصولِ پاکستان کی تحریک میں سرگرم تھیں اور جنھوں نے اپنے حقوق کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی آزادی کے لیے صدیوں پرانی روایات کو ترک کیا تھا اور سڑکوں پر نکلی تھیں۔ لاہور کی وہ تین گم نام برقعہ پوش لڑکیاں جنھوں نے 14 فروری 1946 کو لاہور جیل پر مسلم لیگ کا پرچم نصب کیا تھا۔
16 جون 1946 کو متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اور خاکسار عورتوں کے جلوس کی قیادت کرنے والی گیارہ سالہ سعیدہ بانو جو اس میں شرکت کے لیے دِلّی سے لاہور آئی تھی، جس کی پُرجوش تقریروں نے دِلّی سے لاہور تک اسے عورتوں کے سیاسی جلسوں اور جلوسوں کی ہیروئن بنادیا تھا۔ طبقئہ اعلیٰ کی بیگم اعزاز رسول، بیگم ایم اصفہانی، بیگم صدیق علی خاں، بیگم اختر، بیگم قاضی عیسیٰ، لیڈی مراتب علی، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم شاہ نواز، لیڈی عبدالقادر، لیڈی ہارون، شائستہ اکرام اللہ، فاطمہ بیگم، نورالصباح بیگم، مس قریشی اور ان کے علاوہ ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی وہ تمام نامور اور گمنام لڑکیاں اور عورتیں جنھوں نے مسلم لیگ کے مطالبئہ پاکستان کی حمایت میں دن رات ایک کردیے تھے، لاٹھیاں کھائی تھیں، حوالات میں بند ہوئی تھیں، جن کی یہ حمایت غیر مشروط تھی، جنھوں نے مسلم لیگ کے کسی بھی رہنما سے یہ سوال نہیں کیا تھاکہ پاکستان بن گیا تو کیا ہم عورتوں کو بھی کچھ حقوق ملیں گے؟
ان ہی عورتوں کو متحرک کرنے اور تحریکِ پاکستان میں شامل کرنے کے لیے جناح صاحب نے 1942 سے انھیں بہ طور خاص مخاطب کرنا شروع کردیا تھا، عورتوں کی ایک سب کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس کا مقصد ان کی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی بہتری کے لیے تجاویز مرتب کرنا تھا۔ اس کمیٹی میں یوپی، بہار، پنجاب، بمبئی، سی پی، آسام، سندھ، بلوچستان، دِلّی، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور مدراس سے تعلق رکھنے والی خواتین کے نام شامل کیے گئے تھے۔
تحریکِ پاکستان کے لیے عورتوں کی حمایت کس قدر اہم تھی اور ان کا اس وقت کے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونا مسلم لیگ کی قیادت کے لیے کتنی اہمیت رکھتا تھا، اس کا اندازہ جناح صاحب کی 1944کی اس تقریر سے لگایا جاسکتا ہے جو انھوں نے علی گڑھ میں کی تھی اور جس میں کہا تھا:
"یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے کہ ہماری عورتیں گھروں کی چار دیواری میں قیدیوں کی سی زندگی گزاریں۔ ہماری عورتیں جن شرم ناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آپ اپنی عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں کامریڈ کی طرح ساتھ لے کر چلیں۔"
مسلمان عورتیں پاکستان کی حمایت میں جس حد تک آگے گئیں، اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ پشاور جہاں آج اکیسویں صدی میں بھی عورتیں برقعے یا چادر میں باہر نکلتی ہیں، وہاں سیکڑوں عورتوں نے اپریل 1947میں نقاب یا حجاب کے بغیر جلوس نکالا تھا۔ یہ بھی پٹھان عورتیں تھیں جنھوں نے ان ہی دنوں "پاکستان براڈ کاسٹنگ اسٹیشن" کے نام سے ایک خفیہ ریڈیو اسٹیشن قائم کیا تھا جس کا کھوج 14 اگست 1947تک نہیں لگایا جاسکا۔
ایک طرف روشن خیال محمد علی جناح تھے لیکن دوسری طرف تبدیلی سے خائف قدامت پرست بھی تھے جو عورتوں کی تعلیم اور انھیں مساوی حقوق دیے جانے کے خلاف تھے۔ ان میں ہمارے مشہور شاعر جناب اکبر الہٰ آبادی بھی شامل تھے۔ اکبر الٰہ آبادی ایک عمدہ شاعر اور کٹر ماضی پرست تھے۔ انھیں مسلمان مردوں کی جدید تعلیم پر بھی اعتراض تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ اس کی افادیت کے قائل ہوگئے تھے۔ مگر "تعلیمِ نسواں " اور "پردہ" وہ معاملات تھے جن کے بارے میں انھوں نے آخری سانس تک اپنی رائے نہ بدلی اور ہندوستانی عورت کی راہ میں زبان کی کدال سے خندقیں کھودتے رہے۔ ان کے یہ اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں کہ:
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بی بیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
یاد رہے کہ ان کے یہ اشعار اس وقت کی یادگار ہیں جب دس لاکھ میں سے شاید ایک ہندوستانی عورت نے پردہ ترک کیا تھا۔
تعلیم نسواں کے بارے میں کہتے ہیں :
ہمارے ملک میں ہوتا ہے کیا تعلیمِ نسواں سے
بہ جُز اس کے کہ باوا اور بھی گھبرائیں اماں سے
اکبر الٰہ آبادی کا خیال تھا کہ تعلیم نسواں کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ باورچی خانوں میں تالا پڑجائے گا اور عورتوں کو کھانے پکانے سے کوئی دلچسپی نہیں رہے گی، چنانچہ تعلیم نسواں پر شعر کی چھری یوں چلاتے ہیں :
اُن سے بی بی نے فقط اسکول ہی کی بات کی
یہ نہ بتلایا کہاں رکھی ہے روٹی رات کی
اکبر برٹش راج کے ملازم رہے، جج ہوئے، سرکار سے خان بہادر کا خطاب پایا، بیٹے کو ولایت بھیج کر پڑھوایا، وہ ڈپٹی کلکٹر ہوا۔ ذاتی زندگی میں مغربی اثرات کو قبول کرنے کے باوجود انھوں نے انیسویں صدی کی آخری دہائیوں اور بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بھی اس زندان میں نئی روشنی کا اجالا پسند نہیں کیا جس میں ان کی ہم قوم عورت صدیوں سے رہتی آئی تھی۔ انھوں نے عورت کو ابتذال نہیں تو طنز کے خنجر سے ذبح کیا۔
آج مجھے یہ تمام عورتیں اور ان کی بے غرض جدوجہد یاد آتی ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ وہ تمام عورتیں اور لڑکیاں جو اس وقت حصولِ پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں سرگرم تھیں، آج اگر وہ زندہ ہیں، یا وہ جو ختم ہوچکی ہیں اگر چند گھنٹوں کے لیے زندہ ہوجائیں تو کیا ان کے ذہن میں کئی سوال نہیں اٹھیں گے؟ کیا وہ نہیں سوچتی ہوں گی کہ اسی پاکستان کے لیے انھوں نے سیکڑوں برس پرانی روایات سے بغاوت کی تھی جہاں آج کروڑوں لڑکیاں اور عورتیں ختم نہ ہونے والی آزمائش میں مبتلا ہیں اور ہر آنے والا دن اس میں اضافہ کررہا ہے۔ کیا وہ یہ نہیں پوچھ سکتیں کہ انھیں ایک ایسے پاکستان کے خواب کیوں دکھائے گئے جہاں عورت کو "کامریڈ" ہونے کا مژدہ سنایا گیا تھا اور جہاں وہ "کاری" بنادی گئی۔