Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Awam Ka Moorakh: Dr Mubarak Ali (1)

Awam Ka Moorakh: Dr Mubarak Ali (1)

کراچی میں سال کا اختتام ہو رہا تھا جب آئی ایچ ایس آر( انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ سینٹر) کی طرف سے ڈاکٹر مبارک علی کی خدمات کے اعتراف میں ایک جشن منایا گیا۔ مجھے بھی اس میں شرکت کرنی تھی لیکن اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اس میں شریک نہ ہوسکی۔ دل تڑپا کیا لیکن دل کی تڑپ سے کیا ہوتا ہے۔

ان دو دنوں میں جب یہ جشن منایا جارہا تھا، نگاہوں میں وہ مختصر کتابیں گھومتی رہیں جو 70 کی دہائی میں ڈاکٹر صاحب ذاتی کوششوں سے شایع کرتے تھے۔ سائیکلو اسٹائل کی ہوئی کتابیں جن میں معمولی گتے کا سرورق ہوتا تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ڈاکٹر صاحب نیکی کر دریا میں ڈال کے مصداق یہ کتابیں لکھ کر گودام میں رکھ والا کام کررہے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب آمریت نے لوگوں کی امیدوں کا باغ روند ڈالا تھا۔ جمہوریت کا بستر لپیٹنے اور ایک منتخب وزیر اعظم کو جھوٹے مقدمے میں پھانسی دینے کے بعد کا دور لوگوں پر آسمانی قہر کے طور پر نازل ہوا۔ خواص تو سب اچھا کی گردان کررہے تھے لیکن وہ لوگ جو عوام الناس میں سے تھے جانتے تھے کہ ان کے مصائب کا نسخہ شفا، شفاف جمہوریت میں ہے۔ یہی لوگ سبط حسن اور ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں پڑھتے اور سوچ بچار کرتے۔ ہمارے ان دو دانشوروں کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتیں، بہ طور خاص سندھ، بلوچستان اور پختونخوا کے نوجوان اپنی علمی پیاس ان کتابوں سے بجھاتے۔ آج بھی یہی عالم ہے اور اگر ہمارے یہاں نوجوانوں میں ذہنی بلوغت آئی ہے تو وہ ہمارے ان جیسے دانشوروں کے طفیل ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر جعفر احمد نے بجا طور پر یہ کہا کہ "دسمبر کی یہ سرد شام افکار تازہ کی گرمی اور بصیرت افروز خیالات کی تازگی کے حوالے سے مستقبل میں یاد رکھی جائے گی۔"

ڈاکٹر مبارک کی خدمات کے اعتراف کا خیال پاکستان سے ہزاروں میل دور کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ ہمارے دو اسکالرزڈاکٹر طاہرہ خان اور ڈاکٹر منان احمد کو اس وقت آیا جب وہ عوام کی تاریخ پر گفتگو کررہے تھے۔ خیالات کے اس تبادلے کے دوران ہمارے ان دو اساتذہ نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ پاکستانی سماج کو لبرل اور روشن خیال بنانے میں ڈاکٹر مبارک علی کا جو کردار رہا ہے، افسوس کہ اس کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ یہیں سے ان کی خدمات کا جشن منانے کا خیال بڑھتااوراپنا دائرہ وسیع کرتا رہا۔ ڈاکٹر طارق سہیل اورڈاکٹر جعفر نے اپنے ادارے آئی ایچ ایس آر کی طرف سے اس جشن کی ذمے داری اٹھائی اور یوں دسمبر 2019 میں یہ شاندار تقریب ممکن ہوسکی۔

ڈاکٹر صاحب کی خود نوشت "در در ٹھوکر کھائے" پڑھتے ہوئے ہم ان تمام مشکل حالات سے آگاہ ہوتے ہیں جو ہماری کم نظر بیورو کریسی کے ہاتھوں ڈاکٹر صاحب نے جھیلے۔ ہمیں "نگارشات" اور "تخلیقات" کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کو علم دوستی اور ادب نوازی کے جذبے سے شایع کیا اور پھر پاکستان بھرمیں پھیلا دیا۔ ان کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔ علم کے جویا ان لوگوں کا بھی شکریہ جنھوں نے ان کتابوں کو خریدا، پڑھا، ان پر غورو فکر کیا اور ان کی روشنی میں پاکستان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ آج اگر ملک میں ذہنی بیداری نظر آتی ہے تو اس کا سہرا، علی عباس جلال پوری، سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی اور ایسے ہی دوسرے دانشوروں کے سر ہے۔

ڈاکٹر مبارک نے ابتدا سے تاریخ کے اس بیانیے کو چیلنج کیا جسے ہماری مقتدر اشرافیہ کی تائید حاصل تھی۔ فرنگی کے دور میں عوام کے دلوں کو گرمانے والے بیانیے پر جس طرح ایک رومانوی سنہرے غبار کا چھڑکائو ہوا، اس نے بونوں کا قد آسمان کی بلندیوں سے ملادیا اور ہوشو شیدی، دلا بھٹی، تیتو میر اور ہمارے وہ لڑاکے جنھوں نے فرنگی یا مغل استعمار کے خلاف جنگ لڑی، وہ تاریخ کے حاشیوں سے باہر دھکیل دیے گئے۔ نصاب کی کتابوں میں چند نام بڑے اور قابل تعظیم ٹھہرے۔ انھیں نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے "عظیم" کے طور پر پیش کیاجاتا رہا۔ ڈاکٹر مبارک نے اس سرکاری اور نیم سرکاری بیانیے کے خلاف جرأت اور پامردی سے عوام کی تاریخ اور اس تاریخ کے سورمائوں کی زندگیاں، ان پر گزرنے والے شداید اور سرکار کے ہاتھوں ان کی بے توقیری اور تذلیل کی تفصیل اپنی کتابوں میں پیش کی۔ لوگوں پر اس بات کو آشکار کیا کہ ان کے حقیقی ہیرو کون تھے اور کون ہیں۔

اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے وہ راتوں کو اپنی آنکھوں کا تیل جلاتے رہے اور دن میں کسب معاش کی کوشش کرتے رہے۔ یہ مشکل دن ان سے زیادہ ان کی شریک حیات ذکیہ کے لیے صبر آزما اورکٹھن تھے۔ ان کی بیٹیوں نے کسی بھی مرحلے پر باپ سے کوئی شکایت نہیں کی۔ ذکیہ نے معاشی پریشاں حالی کو کم کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ ڈاکٹر صاحب کی بینائی رفتہ رفتہ زائل ہوئی تو ان کی چھوٹی بیٹی نین تارا، ان کی آنکھیں بن گئی۔ وہ ان کے ساتھ شہر شہر سفر کرتی ہے، محفلوں میں انھیں لاتی اور لے جاتی ہے، اس کے علاوہ ذکیہ اور نین تارا ان کے تحریری کام میں ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ ان کے چند دوست اور ڈاکٹر جعفر جیسے مداح نہ ہوتے توڈاکٹر مبارک اپنی زندگی کے آخری حصے میں شایدسماج کے لیے وہ کچھ نہ کرپاتے جو انھوں نے کیا۔

ان کا ایک بڑا کارنامہ "تاریخ" ایسا وقیع مجلہ پابندی سے نکالنا بھی ہے۔ اس کی اشاعت میں ڈاکٹر جعفر، ڈاکٹر روبینہ سہگل، جناب اشفاق سلیم مرزا کے علاوہ پروفیسر ساجدہ وندل، پروفیسر پرویز وندل، ڈاکٹر کامران اژدر علی اور ڈاکٹر طاہرہ خان کی مسلسل شراکت رہی ہے۔

ڈاکٹر مبارک کو جشن کی اس تقریب میں کبھی مورخ عوام کہا گیا اور کسی نے انھیں عوامی مورخ کے نام سے یاد کیا۔ اس بات کو ہم اگر ڈاکٹر مبارک کی نظر سے دیکھیں تو وہ اسے "متبادل تاریخ نویسی" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔"تاریخ" کے 42 ویں شمارے میں انھوں نے بادشاہوں، فاتحوں، صوفیا، علماء کے زیر اثر تاریخ نویسی کے مرحلوں کا ذکر کیا ہے۔ انگریزوں نے اپنے مفادات کے حوالے سے تاریخ لکھوائی، پھر وہ غلاموں، چرواہوں، کسانوں، ہنرمند دست کاروں اور مزدروں کی تاریخ کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:

" جہاں تک عوامی تاریخ کو لکھنے کا سوال ہے اس پر پاکستان میں توجہ نہیں دی گئی ہے اس لیے متبادل تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں یورپ کی تاریخ نویسی سے سیکھنا چاہیے کہ جہاں مورخوں نے عوامی تاریخ لکھنے کے لیے عدالتی اور ریونیو کی دستاویزات کو استعمال کیا۔ اگر ہمارے مورخ بھی ان کی مدد سے نچلی سطح کی تاریخ کی تشکیل کریں تو اس سے تاریخ میں نہ صرف وسعت آئے گی بلکہ نئے پہلوئوں کا اضافہ ہوگا۔ اس کی مدد سے ہم جاگیرداروں کے نظام کو کچھ سمجھ سکیں گے اور کسانوں کے ساتھ ساتھ چرواہوں اور گائوں کے دستکاروں کے کردار اور تاریخ میں ان کے حصہ پر روشنی ڈال سکیں گے۔ ایک اور اہم دستاویزی خزانہ خفیہ ایجنٹس کی رپورٹیں ہیں۔ عہد برطانیہ میں وہ تحریکوں اور اشخاص کا ریکارڈ رکھتے تھے کہ جو ان کے لیے خطرناک تھے۔ ان دستاویزات سے نہ صرف ان کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ملیں گی، بلکہ ان اشخاص کے بارے میں بھی پتہ چلے گا کہ جو ان ایجنسیوں کے لیے کام کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے بہت سے محترم رہنما ان کے خفیہ ایجنٹس کے طور پر سامنے آجائیں۔"

ڈاکٹر مبارک نے اپنے طور پر متبادل تاریخ لکھی، انھوں نے تاریخ نویسی کی سیکڑوں، ہزاروں برس پرانی روایات پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے سچی تاریخ رقم کرنے کی ابتدا کی اور ان کی یہی وہ خدمات ہیں جن پر انھیں خراج تحسین ادا کرنے کے لیے آئی ایچ ایس آر نے دو روزہ جشن منایا۔ (جاری ہے)

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.