غالبؔ کہہ گئے ہیں کہ " وفاداری بہ شرطِ استواری، اصل ایمان ہے" ڈاکٹر مبارک علی نے اردو شاعری کے صاحب عالم کے اس مصرعے کو اپنا ایمان بنایا، لگ بھگ 100 کے قریب کتابیں لکھیں اور پڑھنے والوں کے ذہنوں کو منورکیا۔ ان کی کتابوں میں سے چند "مغل دربار، المیہ تاریخ، عورت اور تاریخ، بہت مقبول ہوئیں اور ان کے کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔
دسمبر 2019 میں ان کی خدمات کے اعتراف میں آئی ایچ ایس آر نے جو دو روزہ جشن منایا، وہ لوگوں کے لیے دل خوش کن تھا۔ ڈاکٹر مبارک ان لوگوں میں شمارکیے گئے جنھوں نے پاکستان کے مقتدر طبقات کے بیانیے کو چیلنج کیا۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے ان کے لیے استقبالیہ کلمات کہتے ہوئے بجا طور سے یہ کہا کہ ہم انھیں دانشوروں کی اس صف میں شامل کر سکتے ہیں جن کے بارے میں تاریخ نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ان کے باغیانہ تصورات نہ ہوتے تو پاکستان جیسے نیم قبائلی، نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ سماج میں تاریخ کا سفر آگے نہیں بڑھتا۔ انھوں نے تاریخ کو عرش سے اتارکر فرش پر لانے کا فریضہ انجام دیا۔
ان 2 دنوں میں دانشوروں نے جو پرچے پڑھے وہ مجھے دستیاب نہیں ہیں۔ لیکن چند مقالوں کے نکات جو ڈاکٹر جعفر کی عنایت سے مجھے مل سکے، وہ میں یہاں پیش کروں گی۔ میرے خیال میں یوں تو سب ہی کی کہی ہوئی باتیں اہم تھیں لیکن ڈاکٹر غافر شہزاد کا یہ کہنا بجا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ماضی و حال کے رابطہ کارکی حیثیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ناظر محمود نے کہا کہ ڈاکٹر مبارک علی کا تمام کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے 100کتابیں تحریر کیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے "تاریخ کیسے لکھی جائے" کے عنوان سے کتابچے لکھے۔ سندھ کی تاریخ سے متعلق ڈاکٹر صاحب نے بہترین تحریریں لکھی ہیں۔
ڈاکٹر طاہرہ خان نے مبارک علی صاحب کی کتاب "تاریخ اور عورت" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مبارک علی نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ "ماضی کے تاریخ دان معاشرے کے 50 فیصد حصے کے بارے میں لکھنا ہی بھول گئے" اور یہی حقیقت بھی ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ خان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب "جاگیرداری" نے تاریخ نویسی میں ایک اہم مقام بنایا ہے۔
یہ کتاب نہ صرف یورپ کے اقتصادی نظام کا تعارف پیش کرتی ہے بلکہ برصغیرکے جاگیرداری نظام کو بھی واضح کرتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ ضیاء نے کہا کہ اصل تاریخ عوام کی تاریخ ہے جس کا ثبوت ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب "عورت اور تاریخ " میں معاشرے اور معاشرتی پہلوؤں اور زیر بحث لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر سید محمد عظیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ بگاڑی ہوئی تاریخ ہے۔ ڈاکٹر ہماغفار نے اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مبارک علی کی آواز منفرد ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کے ساتھ بہت سی نا انصافیاں کی گئی ہیں۔ ان کو علمی اداروں سے الگ کیا گیا۔ غیر ملکی ایجنٹ کہا گیا۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے یہ نکتہ اٹھایا کہ ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ اور جغرافیہ کا رشتہ واضح کیا اورکہا کہ ہماری تاریخ نویسی پر کچھ لوگوں کا غلبہ رہا جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ لکھتے وقت ہم جن مسائل سے دوچار رہے وہ یہ تھے کہ آیا پاکستان کی تاریخ، جغرافیہ کے اندر رہ کر لکھنی چاہیے یا نہیں اور کیا اس تاریخ سے ہندوستان کی تاریخ کا تعلق ہو گا، پھر 1971 کے بعد یہ سوال اٹھا کہ اب کیا پاکستان کی تاریخ میں بنگال بھی شامل ہو گا یا نہیں۔
ڈاکٹر منان احمد کا یہ کہنا تھا کہ سندھ کی تاریخ کے لیے ڈاکٹر مبارک علی صاحب کی بے حد خدمات ہیں۔ تاریخ نویسی کے لیے ڈاکٹر مبارک علی کے پیش کردہ تمام نظریات بشمول جغرافیہ نظریہ تاریخ اور عوامی نظریہ تاریخ تمام نظریے درست ہیں، اگر آج کے تاریخ دان پاکستان کی صحیح تاریخ لکھنا چاہتے ہیں تو انھیں 1971سے قبل کی تاریخ پر بھی نظر ڈالنی ہو گی۔
احمد سلیم کا پنجابی عوامی تاریخ کے بارے میں کہنا تھا کہ ہماری شاعری میں تیرہویں صدی سے انیسویں صدی میں پانچ بڑے شاعر گزرے ہیں جنھوں نے صرف صوفی شاعری ہی نہیں کی بلکہ مزاحمتی شاعری بھی لکھی۔ ان تمام شعراء کی تخلیقات آج ہماری تاریخ کا اہم ماخذ ہیں۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے "بلوچستان کی عوامی تاریخ کیسے لکھی جائے" کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ آثار قدیمہ، بلوچ دیومالا اور بلوچ ورثہ ہمیشہ لکھاریوں نے نظر اندازکیا۔ نہ صرف لکھاری بلکہ بلوچ خود بھی اس سے ناواقف رہے۔ ہمیں خبر بھی نہ ہوئی اور ہماری اصل دولت ہم سے چھین لی گئی۔ پروفیسر اعجاز قریشی کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈاکٹر مبارک علی صاحب کی پانچ کتابوں کا سندھی میں ترجمہ کیا جن میں سے ایک کتاب کا نام ہے "سندھ کی تاریخ کیسے لکھنی ہے" تقسیم سے قبل سندھ کے علاقے میں سکھ، یہودی، احمدی، ہندو اور مسلمان رہتے تھے، یہاں ہاری تحریک 1930میں شروع ہوئی۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ میں چلنے والی عوامی تحریکوں کے بارے میں بھی لکھا جانا چاہیے۔
ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے محمود شام کا کہنا تھا کہ صرف ماضی بلوچستان کا نہیں بلکہ مستقبل بھی بلوچستان کا ہے، سندھ نے تحریک پاکستان میں بہت قربانیاں دی ہیں لیکن سندھ کو جمہوریت کے ثمرات سے کچھ نہیں ملا۔ ڈاکٹر مبارک علی ان چند آوازوں میں سے ایک ہیں جو حق کے لیے بلند ہوئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ معاشی حالات، ماحول اور معاشرہ عوام کے خیالات متعین کرتا ہے۔ طبقاتی تجزیے سے لکھی جانے والی تاریخ ہی دراصل عوامی تاریخ ہوتی ہے۔
ڈاکٹر منان احمد نے کہا کہ میں عہد وسطی کا مورخ ہوں، اس حیثیت سے میرے چند سوالات یہ ہیں کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی تاریخ ہے جو 1857 یا 1947 سے شروع نہ ہو اور جس کی ابتدا 712 سے نہ ہو۔ عہد وسطیٰ کے اندر پاکستان کی کیا تاریخ ہے اور ہم اس کوکس طرح پڑھیں؟ ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پڑھائی جانے والی تاریخ کے بھی مختلف ادوار رہے۔ 1947 کے بعد ہمارے ہاں یہ رجحان آیا کہ ریاست کی تاریخ زیادہ پرانی ہونی چاہیے نہ کہ قوم کی تاریخ۔ اس سے قبل یہ رجحان تھا کہ قوم کی تاریخ پرانی ہو ریاست کی نہیں۔ انور شاہین نے ڈاکٹر مبارک علی کی تاریخ نویسی پر اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر علی رضا نے کہا کہ تاریخ نویسی ہمیشہ پاکستان میں متنازعہ رہی ہے۔ 60 اور 70 کی دہائی میں اہم سوال کلچر کا تھا۔ کلچر تمام انقلابی تحریکوں کے لیے اہم رہا ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر مبارک علی کی خدمات کو سراہا جنھوں نے مخالف حالات میں بھی اپنا مشن جاری رکھا۔ امر سندھو کا کہنا تھا کہ تاریخ حافظہ یا یادداشت کا نام ہے، تاریخ کا حافظہ بہت اہم ہے۔
یہ حافظہ ہی ماضی، حال اور مستقبل کا رابطہ جوڑتا ہے۔ حافظے کے بغیر تاریخ پاگل پن کا شکار ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں جو معاشرے وجود میں آتے ہیں وہ آج ہم تجربہ کر رہے ہیں۔ تاریخ کو عام آدمی تک ڈاکٹر مبارک علی نے پہنچایا ہمارے کسی اور اسکالر یا ادارے نے یہ کام نہیں کیا۔ ڈاکٹر خضر انصاری نے بڑے پتے کی بات کہی کہ تاریخ نویسی کی بھی تاریخ ہوتی ہے۔ کون تھا، کہاں سے آیا تھا اورکہاں بیٹھ کر اس نے تاریخ لکھی۔ جیمز مل کبھی ہندوستان نہ آیا لیکن اس نے ہندوستان کی تاریخ لکھ دی۔ چچ نامہ کا مختلف تاریخ دان حوالہ دیتے ہیں لیکن ان کی تشریح بھی مختلف ہوتی ہے۔ آرکایوز دراصل قومی خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر سارہ انصاری کاکہنا تھا کہ تاریخ میں تشریح بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں تاریخ نویس کا متفق یا متفق نہ ہونا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ عوام کو تاریخ میں اپنا موضوع بنانے میں ڈاکٹر مبارک علی نے اہم کردار ادا کیا۔
کانفرنس کے اختتام پر ڈاکٹر مبارک علی نے ایک مقالہ پیش کیا جس کا عنوان تھا "تاریخ یاد رکھتی ہے" انگریزوں نے ہندوستان کے لوگوں سے اپنی حمایت میں کتابیں لکھوائیں جس میں انگریزوں کو مظلوم قرار دیا گیا۔ خاص طور پر غدر یا بغاوت کے واقعے میں لیکن 100 یا 150 سال بعد جب 1857 کی تاریخ لکھی گئی تو وہ بالکل ہی الٹ تھی، اب ان کے ماخذ مختلف تھے۔
ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم باب دلت لوگ بھی ہیں جنھیں ایک وقت میں شہروں کے اندرآنے کی اجازت نہ تھی۔ پاکستان میں ہم نے ایک کتاب "اچھوت لوگوں کا ادب" کے نام سے لکھی۔ دلت لوگوں کو غیر انسان سمجھ کر مذہب اور تاریخ سے الگ کر دیا گیا تھا۔ مگر اب انھیں تاریخ میں واپس لایا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ انقلاب لانے والے صرف پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ انقلاب ہمیشہ نیچے سے آتا ہے۔ جس کے لیے جوش، ولولہ اور جذبہ ہونا ضروری ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر مبارک علی ایسے تاریخ داں نہ ہوتے تو کیا ہم ایوب گردی اور ضیاء شاہی کے مظالم سے آگاہ ہو سکتے تھے اور کیا مشرقی پاکستان اور محترمہ فاطمہ جناح کی جمہوریت کے لیے جدوجہد ہمارے لیے اہم اور محترم ہو سکتی تھی اور کیا اپنے عوام کی سچی تاریخ ہم تک پہنچ سکتی تھی؟ اس کارنامے کے لیے ڈاکٹر مبارک علی کو جتنی بھی مبارکباد دی جائے وہ کم ہے اور اس کے ساتھ ہی آئی ایچ ایس آر کو بھی دلی مبارکباد۔