Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Awara Gard (1)

Awara Gard (1)

راج کپور کی فلم "آوارہ "میں جب مفلس و قلاش ہیرو تان اڑاتا ہے کہ "ہم بگڑے دل شہزادے۔ راج سنگھا سن پر جابیٹھیں، جب جب کریں ارادے "تو اس جیسے کروڑوں لوگوں کا دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔

برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اس جیسے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں امید کی کرن جاگ جاتی ہے اور وہ چار آنے کے بھنے ہوئے چنے کھاکر اور کسی سرکاری نل سے چُلو بھر پانی پی کر نئے سرے سے زندگی کی کٹھنائیوں سے لڑنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔

اسی طرح اسرار الحق مجاز کی نظم کے یہ مصرعے "شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں، جگمگاتی جاگتی سڑکوں پر آوارہ پھروں، اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں "دلوں کو اداس بھی کرتے ہیں اور زندگی سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔

اس کردار کو ہم نے اسکرین پر چار لی چپلن کے روپ میں دیکھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسکول میں چھوٹی سی اسکرین پر چارلی سے پہلی ملاقات ہوئی۔ جب یہ معلوم ہوا کہ ایک پیریڈ کی چھٹی اس لیے ہورہی ہے کہ اس میں فلم دکھائی جائے گی۔ ہم میں سے بیشتر لڑکیاں فلم دیکھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی تھیں کیونکہ یہ وہ فلمیں ہوتی تھیں جن میں ہمارے "محبوب ڈکٹیٹر "مسکراتے ہوئے، پودے لگاتے ہوئے اور عوام میں گھلتے ملتے ہوئے دکھائی دیتے تھے، یا پھر تپ دق سے بچاؤ کی پبلسٹی فلمیں ہوتی تھیں۔

میرا خیال تھا کہ ہمارے "محبوب ڈکٹیٹر "وہ تپ دق ہیں جو سارے ملک کو لگے ہوئے ہیں لیکن ان خیالات کا بلند آواز میں اظہار لڑکیوں کو ناراض کرتا تھا جو وردی اور وجاہت پر فدا تھیں۔ مغربی پاکستان میں لوگ فاقوں مررہے ہیں تو ہم سے مطلب، مشرقی پاکستان اگر سیلاب میں ڈوب رہا ہے تو ہمیں کیا۔ اسکول میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس روز ایک ایسی فلم دکھائی گئی جو "خاموش"تھی لیکن جس کے ہیرو کی حرکتیں ہنسا ہنسا کر بے دم کررہی تھیں۔ یہ چارلی چپلن کی کوئی فلم تھی جس میں ہمیں وہ آوارہ گرد، نظر آیا جس نے راج کپور سے "آوارہ "ایسی فلم بنوائی اور مجاز سے ایک شاہ کار نظم لکھوائی۔

چارلی وہ شخص تھا جو غربت کی گہرائی سے نکلا اور جس نے ساری دنیا کے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔ ہماری نئی نسل کے اور اس کے درمیا ن لگ بھگ پون صدی کا فاصلہ ہے لیکن آج بھی لاکھوں لوگ اسے یاد کرتے ہیں۔

وہ اس وقت پیدا ہوا جب انیسویں صدی دم توڑ رہی تھی۔ وہ فن کار ماں باپ کا بیٹا تھا لیکن ان کے فن نے انھیں اور ان کے بچوں کو مفلسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ چارلی کی ماں کا خواب تھا کہ اس کے بچے پڑھ لکھ جائیں تاکہ فاقہ کشی ان کا مقدر نہ ہو۔ وہ انھیں پیٹ بھر کھانا نہیں دے سکتی تھی، بھلا اسکول کیسے بھیجتی۔ ماں نے اس مسئلے کا حل اس طرح نکالا کہ وہ اپنے دو بیٹوں کو ایک ایسے ادارے میں داخل کرا آئی جہاں ان کی رہائش کا بندوبست تھا۔ کدو اور بند گوبھی کا شوربہ اور ڈبل روٹی کے سوکھے ہوئے ٹکڑے ان کے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے اور سخت گیر استاد اور استانیاں انھیں حرف شناس بناتے تھے۔

یہ ایک اداس کردینے والی کہانی ہے لیکن چارلی خواب دیکھتا تھا، فقیر بچوں کے لیے بنے ہوئے اس اسکول سے وہ فرار ہوگیا اور اس نے پناہ تھیٹر کے ادارے میں لی۔ یہ وہ دن تھے جب تھیٹر میں بچوں کی بھی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ اداکار ماں باپ کا بچہ تھا، ٹھوکر یں کھاتا اور بدکلامی سہتا ہوا وہ اسٹیج کی پہلی سیڑھی پر چڑھا اور پھر چڑھتا ہی چلا گیا۔ یہ وہ دن تھے جب لوگ اپنے غموں کو بھلانے کے لیے تھیٹر کا رخ کرتے تھے یا فلم دیکھتے تھے۔ بولتی فلموں کا دور ابھی بہت دور تھا۔"خاموش" فلمیں بنتی تھیں اور لوگ ان ہی سے اپنا غم غلط کرتے تھے۔

مزاحیہ اداکار انھیں ہنساتے تھے یہی وجہ تھی کہ چارلی نے آغاز سے ہی مزاحیہ اداکاری اختیار کی۔ نو دس بر س کی عمر میں اس نے مزاحیہ اداکاری کے ایسے جوہر دکھائے کہ وہ تھیٹر منڈلی اور پھر فلم ڈائریکٹروں کی نظر میں آگیا۔ جب اس سے کہا گیا کہ وہ اپنا کوئی مخصوص انداز اپنائے تو بہت سوچ بچار کے بعد اس بچے نے جس کے ابھی دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے تھے اپنے لیے ایک "آوارہ گرد"کا کردار اختیار کیا۔ یہ وہ کردار تھا جوساری دنیا میں اس کی پہچان بن گیا۔

ڈھیلی پتلون، تنگ اور اٹنگا کوٹ، سر پر چھوٹی ٹوپی اور پیروں میں دو سائز بڑا جوتا، ہاتھ میں ایک چھڑی اور اوپری ہونٹ پر ایک چھوٹی سی مونچھ جسے دیکھ کر خیال آئے کہ شاید دو مکھیاں بیٹھ گئی ہیں۔ خاموش فلموں کا زمانہ تھا، اس حلیے میں وہ جب لوگوں کے سامنے آیا اور اس نے اداکاری کے جوہر دکھائے تو لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔

ایسے ہی تو وہ خود بھی تھے۔ کسی کی ٹوپی چھوٹی تھی اور پتلون اٹنگا یا دو سائز بڑا، یہی حال ان کے جوتوں کا تھا۔ عوام کی اکثریت بدحال تھی اور پردۂ سیمیں پر نظر آنے والا ہیرو بھی ان ہی جیسا تھا۔ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا اور بٹ ماری کرتا ہوا۔ خاموش فلموں کا دور تھا اس لیے بات سمجھنے اور سمجھانے میں کوئی مشکل نہ تھی۔ اشاروں ہی اشاروں میں بڑی سے بڑی بات ہوجاتی تھی یہی وجہ تھی کہ کیا جاپان اور کیا ہندوستان، کیا امریکا، انگلینڈ اور یورپ چارلی کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا ہولنا ک زمانہ لوگوں نے چارلی چپلن کے مضحک کردار کے سہارے گزارا۔ وہ خود مفلسی اور بدحالی میں گرفتار تھے، ان کا ہیرو بھی اسی مفلسی میں گرفتار تھا اور اس کا مذاق اڑاتا تھا۔

چارلی نے "دی کڈ "بنائی۔ وہ کوڑے کے ڈھیر سے ایک بچہ اٹھاتا ہے۔ نامطلوب، لاوارث بچہ۔ وہ اس نا مطلوب بچے کو گھر لے جاتا ہے۔ اس پر جی جان سے نثار ہوتا ہے۔ چارلی کے ساتھ وہ بچہ کسی گلاب کی طرح کھل جاتا ہے اور شرارتیں کرتا پھرتا ہے۔ پھر سوشل سیکیورٹی والے آتے ہیں اور اسے لے جاتے ہیں۔ باپ اور بیٹے کا ایک دوسرے سے یوں جدا کیا جانا دیکھنے والوں کے دل ٹکڑے کردیتا ہے لیکن آخر کار باپ بیٹے ملتے ہیں اور دنیا کو دکھادیتے ہیں کہ جیت آخر کار ہمت والوں کی ہوتی ہے۔

چارلی نے یوں تو بہت سی فلمیں بنائیں لیکن "گولڈ رش"اور "دی گریٹ ڈکٹیٹر"اس کی نہایت مقبول فلموں میں سے تھیں۔"دی گریٹ ڈکٹیٹر "میں اس نے نازی جرمنی کے ڈکٹیٹر کا نقشہ کھینچا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے ایک بڑے حصے میں ہٹلر کا طوطی بول رہا تھا اور اس کی فوجیں یورپ کے ملکوں کو یکے بعد دیگرے فتح کرتی جاتی تھیں۔ دنیا کے لوگ جو اس کی ہیبت سے کانپ رہے تھے، وہ جب چارلی کو ایک ڈکٹیٹر کے روپ میں دیکھتے تو ہنستے ہنستے ان کا برا حال ہوجاتا اور ان کے دل سے اس کا خوف نکل جاتا۔

اس کی فلم "گولڈ رش "کا شمار آج بھی کلاسک میں ہوتا ہے۔ یہ 1925ء میں بنی تھی اور اس میں چارلی نے ایک بار پھر اپنا یہ فلسفہ درست ثابت کیا تھا کہ المیہ اور طربیہ ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں ہوتے۔ یہ ان تارکین وطن کا قصہ ہے جو سونا کمانے کی ہوس میں ایک سونے کی کان میں کھدائی کرتے ہیں، کان بیٹھ جاتی ہے اور سیکڑوں اس حادثے میں ختم ہوجاتے ہیں۔

انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کا یہ قصہ ہمیں رلاتا بھی ہے اور ہنساتا بھی ہے۔ بھوک کان میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اپنے ہی ساتھیوں کی لاشیں کھانے پر مجبور کرتی ہے۔ اسی فلم کا ایک سین وہ بھی ہے جس میں چارلی چپلن اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہمیں اپنا موکیشن جوتا کتُر کتُر کر کھاتا نظر آتا ہے۔ چپلن آخر وقت تک یہی کہتا رہا کہ یہ فلم اس کی زندگی کا سب سے بڑا کام ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اسی حوالے سے یاد کیا جائے۔

(جاری ہے)

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.