چارلی نے اپنے بچپن کے بارے میں لکھا ہے کہ میں زندگی میں کسی بحران کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔
ہم ایک مسلسل بحران میں گھرے رہتے تھے، اس کی ہمارے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ باپ عادی شرابی تھا اور وہ ماں کی کوششوں کے باوجود شراب کے دریا کو تیر کرپار نہ کرسکا۔ ماں غربت سے، بچوں کے بارے میں احساس ذمے داری اور ان کی بھوک سے لڑتی رہی جس کا نتیجہ اس کے ذہنی عدم توازن کی صورت میں نکلا۔ خود کو پالنے کا بوجھ چارلی کے شانوں پر آپڑا۔
اپنے لڑکپن میں وہ امریکا گیا اور ایک مزاحیہ اداکار کے طور پر اس کی شہرت پر لگا کر اڑی اور وہ راتوں رات "اسٹار"بن گیا۔ اس کی آمدنی میں بھی دن دونی رات چوگنی ترقی ہوئی یہاں تک کہ اس نے اپنی کئی فلموں میں کام کرنے کے لیے دس لاکھ ڈالر (آج کے دو کروڑ ڈالر)کا مطالبہ کیا جو رد وکد کے بعد مان لیا گیا۔
زندگی اس کے لیے محنت سے عبارت تھی۔ وہ سمجھتا تھا اور کہتا تھا کہ صرف محنت ہی مجھے یا کسی کو بھی ترقی کی سیڑھیاں چڑھا سکتی ہے۔ وہ دیوانوں کی طرح محنت کرتا اور دنیا میں اس کا نام لوگوں کے لیے محبت کی علامت بن گیا۔
امریکا میں اس کے رنگین پوسٹر، مجسمے اور اس کی ٹوپی اور چھڑی کے سووینیر ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوتے۔ کچھ اداکار وں نے اس کا بہروپ بھر کر دور دراز امریکی قصبوں میں اس کی نقالی شروع کر دی۔ یہ وبا اس طرح پھیلی کہ چارلی کو ایسے اداکاروں اور ان کی کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی۔
یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا اس پر اعتراضات ہوئے کہ اس نے جبری لام بند ی میں کیوں حصہ نہ لیا۔ یہ وہ معاملہ تھاجس کا سامنا برٹرینڈرسل اور اس جیسے جنگ مخالف نوجوان دانشوروں کو بھی کرنا پڑا تھا۔ چارلی کا کہنا تھا کہ وہ تو اپنے نام کا اندراج کرانے کے لیے گیا تھا لیکن اسے بلایا ہی نہیں گیا۔ شاید اس کی پست قامتی اس کی راہ میں رکاوٹ بنی ہو۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک امریکی انتظامیہ کو اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ" جنگ مخالف "ہے۔ چارلی جنگ کو ایک فضول کام سمجھتا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران اس سے کہاگیا کہ وہ جنگ مخالف فلمیں نہ بنائے لیکن اس کے لیے جنگ کی حمایت میں فلمیں بنانا ممکن نہ تھا۔ اس نے جنگ کے موضوع پر وہی فلمیں بنائیں جو اس کے ضمیر کی آواز تھیں۔ امریکا دنیا کے سیاسی افق پر ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت تھا۔ اس کے لیے ایک مزاحیہ اداکار کی یہ حکم عدولی ناقابل برداشت تھی۔ یوں بھی میکارتھی صرف امریکا کی ہی نہیں دنیا کی سیاست کو نئے سرے سے لکھ رہا تھا۔
ادھر چارلی تھا جو ایک روشن خیال انسان تھا۔ اس کے لیے انسانیت سب سے بڑا مذہب تھی لیکن حکومتوں اور چرچ کو یہ بات ناپسند تھی۔ اسی لیے اس کے خیالات پر رفتہ رفتہ گرفت شروع ہوئی۔ وہ اپنی جنم بھومی انگلستان سے امریکا آگیا تھا جہاں اسے عزت، دولت اور شہرت سب ہی کچھ ملی۔ 40ء اور 50ء کی دہائی میں میکار تھی ازم کو عروج حاصل ہوا۔
آزاد خیال رکھنے والے یا سوشل ازم کی توصیف کرنے والوں کے لیے زندگی بہت مشکل ہوگئی۔ چارلی چپلن کے ساتھ امریکی سرکار اچھوتوں کا سا رویہ اختیار کرنے لگی۔ اس نے ایسی فلمیں بنائیں جن میں انسانوں کے دکھ سکھ کی بات کی گئی تھی لیکن مسٹر میکار تھی کے خیال میں امریکا انسانوں کے لیے جنت تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا میں بڑے بڑے صحافیوں، ادیبوں اور اداکاروں کے لیے زمین سخت تھی اور آسمان دور۔
اسی دوران بہت سے لوگ جیل میں ڈالے گئے، کچھ پر مقدمے چلے اور انھوں نے نئے سرے سے سرکار کی وفاداری کا حلف اٹھایا، کچھ لوگ جلا وطن کیے گئے۔ جولیس اور ایتھل روزن برگ جوڑے کو سزائے موت دی گئی۔ اسی جوڑے کی ہلاکت پر فیض صاحب نے اپنی مشہور نظم، ہم جوتا ریک راہوں میں مارے گئے، دار کی خشک ٹہنی پر وارے گئے، لکھی تھی۔
بات چارلی چپلن کی ہورہی تھی، وہ امریکی سرکار کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار نہ تھا۔ اپنی بیوی اور ضروری سازوسامان کے ساتھ اس نے امریکا چھوڑا اور یورپ کا رخ کیا۔ زندگی کے آخری برس اس نے سوئٹزرلینڈ میں گزارے۔
70کی دہائی میں امریکا ویتنام کی جنگ ہار چکا تھا۔ میکار تھی ازم کو خود اس کے وطن میں شکست ہوچکی تھی۔ چارلی کا فلمی کیریئر 75برس پر پھیلا ہوا تھا۔ ایسے میں یہ 1972 تھا جب امریکی فلمی صنعت نے اسے ایک خصوصی اکیڈمی ایوارڈ دینے کے لیے امریکا مدعو کیا۔ یہ ایوارڈ چارلی چپلن کو ان خدمات کے اعتراف میں دیا گیا جن کے ذریعے اس نے فلم کو بیسویں صدی کا آرٹ بنادیا تھا۔
اس تقریب کے بارے میں ایک نامہ نگار نے لکھا کہ اس روز ہالی ووڈ کے بڑے اداکار اور امریکی ادیبوں اور دانشوروں کی "بالائی "تقریب میں موجود تھی، وہ 20بر س بعد امریکا لوٹا تھا۔ اسے خراج تحسین ادا کرنے والوں کے آنسو ان کے چہروں پر بہہ رہے تھے۔ ا ن لوگوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ وہ اس کی تعظیم میں کھڑے ہوئے اور 12منٹ تک کھڑے رہے اور ان کی ہتھیلیوں سے داد کے جھرنے پھوٹتے رہے۔ وہ بہت بوڑھا ہوگیا تھا اسے یاد کی بھول بھلیوں سے شکریے کا ایک سادہ سا جملہ ڈھونڈنے اور ادا کرنے میں مشکل ہورہی تھی۔ اس برطانوی "آوارہ گرد"نے دنیا کی عظیم طاقت کو شکست دے دی تھی۔ یہ سچ ثابت کردکھایا تھا کہ "ہم بگڑے دل شہزادے، راج سنگھاسن پر جابیٹھیں جب جب کریں ارادے"۔ (جناب عبدالحمید نے اس بات کی نشان دہی کی کہ یہ گانا "آوارہ "کا نہیں "شری چار سو بیس "کا ہے۔)
مو ت سے دو برس پہلے اس کی جنم بھومی برطانیہ نے اسے "سر "کے خطاب سے نوازا۔ وہ یہ خطاب لینے بکنگھم پیلس گیا تو وہیل چیئر پر تھا۔ وہاں بھی اس کی تعظیم و توقیر کا عجیب عالم تھا۔ وہ بچہ جسے اس کی ماں نے فقیروں کے اسکول میں داخل کرادیا تھا کہ وہ چار لفظ لکھنا پڑھنا سیکھ لے۔ اس کے لیے برطانوی شاہی خاندان اور اشرافیہ چشم براہ تھے۔ وہ شاہی کے سامنے روایتی طورپر اپنے گھٹنے خم نہ کرسکا اور شاہی کو اس کے سامنے جھک کر "سر "کااعزاز دینا پڑا۔
امریکا یا برطانیہ کی انتظامیہ نے زندگی میں اس کے ساتھ جو سلوک کیا، اس کا داغ چارلی کے دل سے کبھی نہیں گیا۔ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے لوگوں کی نظروں میں وہ ان کا ہیرو تھا، وہ اسے سر آنکھوں پر بٹھا تے لیکن امریکی حکومت اس کے ساتھ اچھوتوں کا سلوک کرتی۔ ان کے خیال میں وہ "غدار"تھا۔"غیر محب وطن " تھا۔ کمیونسٹ تھا۔ جنگ مخالف تھا۔ امریکی حکومت کا بس چلتا تو وہ اسے کسی بدنام زمانہ جیل میں ڈاکوؤں، قاتلوں، شورہ پشتوں کے ساتھ رکھتی اور پھر اس کی پیٹھ میں گولیاں مار کر اسے "بھگوڑا"قرار دیتی جس نے جیل توڑ کر فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔ عوام کا ہیرو، رسوائے زمانہ قرار دیا جاتا اوراس سے سفاک انتظامیہ کی جان چھوٹ جاتی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ وہ نہ برطانیہ گیا، نہ امریکا کا رخ کیا۔
وہ کہیں نہیں رکا، وہ سوئٹزر لینڈ گیا جہاں اس نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے آخری برس گزارے۔ وہ 25دسمبر1977 کو نیند میں ہی رخصت ہوا۔ اس کی زندگی کا سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ یہی مارچ 1978 کے دن تھے جب اس کا تابوت چرالیا گیا۔ تلاش بسیار کے بعد وہ دو افراد پکڑے گئے جنھوں نے تابوت کھود کر نکالا تھا اور ایک قریبی گاؤں میں دفن کردیا تھا۔ وہ اس کی بیوہ سے بھاری رقم مانگ رہے تھے۔ رقم تو کیا ملتی، دومہینے کی جدوجہد کے بعد اس کا تابوت چرانے والے پکڑے گئے۔ تابوت اس کی قبر میں واپس رکھ دیا گیا اور یوں "آوارہ گرد"واپس گھر آگیا۔