Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bayaniye Badal Rahe Hain

Bayaniye Badal Rahe Hain

مجھے جب تھوڑی بہت انگریزی پڑھنی آگئی تو والد نے مجھے " انکل ٹامس کیبن" پڑھائی۔ انیسویں صدی میں لکھا جانے والا ناول جو اخباروں میں قسط وارشائع ہوا اور جب کتابی شکل میں سامنے آیا تو چند دنوں کے اندر تین لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوگیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا کی شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان غلامی کے مسئلے پر ہولناک خانہ جنگی ہو رہی تھی۔

یہ وہ جنگ تھی جو ابراہم لنکن نے جیتی اور امریکی سیاہ فام غلاموں کو آزادی تحفے میں دی۔ اس کے باوجود امریکا میں سیاہ فام افراد سے نفرت اور انھیں حقارت سے دیکھنا سفید فاموں کا روزمرہ تھا۔ " انکل ٹامس کیبن" نے غلامی اور سفید فاموں کے ہاتھوں بد ترین مظالم کا نشانہ بننے والے سیاہ فاموں کی روداد ذہن پر مرتسم کر دی۔

یہی وجہ ہے کہ جب 1993ء میں پہلی سیاہ فام امریکی خاتون ٹونی موریسن کو ادب کے نوبیل انعام سے نواز گیا تو یقین نہ آیا۔ یہ بات بھی ناقابل یقین تھی کہ موریسن کے والدین غلام تھے اور وہ اپنے خاندان کا دوسرا فرد تھیں جوکالج اور یونیورسٹی تک پہنچیں۔

آج ہم جس سیاسی، سماجی، تہذیبی اور تخلیقی انتشار سے گزر رہے ہیں، اس میں ٹونی موریسن جیسی استقامت رکھنے والی اور قلم کوکسی ماہر نیزہ باز کے انداز سے استعمال کرنے والی ادیب ایک مینارۂ نور بن جاتی ہیں۔ طوفانی لہروں کے درمیان ہچکولے کھاتی ہوئی کشتیوں اور جہازوں کو راستہ دکھاتا ہوا مینارۂ نور۔ مجھ ایسے لوگ ان سے ہمت اور استقامت کے سبق سیکھتے ہیں۔

ان کے تقریباً تمام ناول اور تحریریں غلامی کے بارے میں ہیں۔ اس بارے میں انھوں نے موت سے کچھ عرصہ قبل ٹری گروس کو ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا " مجھے ہمیشہ سے شبہ تھا کہ مجھ میں اتنی جذباتی استقامت نہیں کہ میں اس دنیا میں تین چار سال سے زیادہ رہ سکوں گی، چاہے اسے سمجھنے کے لیے کتنا ہی زیادہ وقت درکارکیوں نہ ہو، تو میرے خیال میں یہ میں نے اس طرح کیا کہ وقت کو مختصر ٹکڑوں میں تقسیم کرکے۔ کیونکہ اگر آپ غلامی کے بارے میں کتاب لکھیں تو آپ ابتدا میں ہی لاپتہ ہوجائیں گے، کیوں کہ یہ بہت طویل اور مہیب ہے اور آپ کو تب معلوم ہو گا کہ دو سو سال کتنے طویل ہوتے ہیں۔ پانچ نہیں، دس نہیں، بلکہ دو سوسال، لہٰذا آپ کو ایک کھونٹے یا سہارے کی ضرورت ہوگی اور یہ کھونٹا کرداروں کا وہ گروہ ہے جن سے آپ اتنی محبت کرتے ہیں۔ لیکن آپ اپنے آپ کو بتا نہیں سکتے۔ یا میں اپنے آپ کو بتا نہیں سکتی کہ میں غلامی کے بارے میں کتاب لکھ رہی ہوں کیوں کہ میں اس میں ڈوب جاتی ہوں۔ "

ٹونی کے بارے میں ایک تحریر ہمارے سعید نقوی کی ہے جو 2009 میں ان کے روبرو ہوئے۔ اس ملاقات کا حال انھوں نے "دنیا زاد" میں یوں بیان کیا ہے۔

"ٹونی موریسن لکھنے کے لیے قلم کی جگہ نشتر استعمال کرتی تھیں۔ دو ٹوک، نوکیلا، جوشیلا، بے پرواہ۔ انھوں نے امریکا میں سیاہ فاموں کی معاشرت، تہذیب، ثقافت اور اقتصادیات کو اپنا موضوع بنایا۔ ان کی ناولیں امریکا میں سیاہ فاموں کی غلامی کی تاریخ ہیں۔ وہ خود غلام گھرانے میں پیدا ہوئیں، لہٰذا یہ تاریخ سنی سنائی نہیں، آپ بیتی ہے۔ Beloved میں ناول کی مرکزی کردار سیٹھی اپنے بچوں کو دوبارہ غلامی میں جانے سے روکنے کے لیے انھیں مارنے کی کوشش کرتی ہے۔ تین بچے تو بچ جاتے ہیں لیکن سب سے چھوٹی اس کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتی ہے۔ یہ لرزہ خیز بیانیہ ٹونی موریسن کی تحریر کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ صدیوں کی بے انصافی قلم کی نوک میں سمٹ آئی ہے۔ "

غلامی صرف سیاہ فام ہی نہیں جھیلتے، ہم جو بہ ظاہر سانولے، گندم گوں اور سرخ وسفید ہیں، ہم بھی اپنے مقتدرطبقات کے غلام ہیں۔ انھوں نے ہمارے ذہنوں کو جس طور اپنے قبضے میں کیا ہے، جس طرح ہم پر اپنی برتری کی دھاک بٹھائی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ان کے بیانیے کے سامنے سرنگوں رہتے ہیں۔ اس وقت ہم جس ہیجان خیز دور سے گزر رہے ہیں، جمہوریت جس سفلی انداز میں بزکشی کا کھیل بن گئی ہے، اس نے بڑے بڑوں کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔ ایسے میں ٹونی موریسن اور ایسے ہی دوسرے باغی لکھنے والیاں اور لکھنے والے ہمارے لیے چراغ راہ ہیں۔

ٹونی نے صرف ناول اور بچوں کی کہانیاں ہی نہیں لکھیں، انھوں نے سیاہ فاموں کی تین صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ بھی مرتب کی جو باتصویر تھی اور جس میں سیاہ فاموں پر گزرنے والی ابتلا کی تاریخ اخباری تراشوں، پرانی تصویروں اور خطوط کے ذریعے مرتب کی۔ اس کتاب کو انھوں نے "سیاہ کتاب" کا نام دیا۔ اسی میں انھوں نے انیسویں صدی کی ایک مفرور غلام لڑکی مارگریٹ گارنر کا قصہ لکھا کہ جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ اپنے تعاقب کرنے والوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجائے گی تو اس نے اپنی شیر خوار بچی کو اپنے ہاتھوں ہلاک کر دیا۔ وہ خود غلام تھی اور اپنی بچی کی خاطر اس نے راہ فرار اختیار کی تھی، اپنی شیر خوار بچی کو وہ بس اسی طرح غلامی سے آزاد کرسکتی تھی کہ اسے قتل کر دے۔

کوئی ماں اپنی بچی کو اس طرح بھی آزادی کا تحفہ دے سکتی ہے؟ ہم اس بارے میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس "سیاہ کتاب" کے شائع ہونے کے دس برس بعد ٹونی نے اس اندوہ ناک واقعے کو ایک ناول کے رنگ میں لکھا۔ انھوں نے ایک جگہ بجا طور ایک یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ سیاہ فاموں پرگزشتہ صدیوں میں جوکچھ گزری۔ وہ واقعات اتنے سنسنی خیز اور اتنے ناقابل یقین ہیں کہ ان کی تفہیم بہت مشکل ہے۔ اسی مرحلے پر ٹونی کہتی ہیں کہ غلامی کے بارے میں زیادہ ترکہانیاں غلاموں کو بیماری کے طور پر دکھاتی ہیں، اس بیمار ماحول کو نہیں جس کی وہ پیداوار تھے۔

نوبیل انعام کے لیے ان کا منتخب کیا جانا، ان کے لیے اور تمام سیاہ فام امریکیوں کے لیے اور ہم سب کے لیے ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ اس کا سب ہی نے جشن منایا۔ وہ اوسلو گئیں اور وہاں انھوں نے خطبہ دیا۔ جس میں انھوں نے زبان کا مسئلہ اٹھایا۔ یہ وہ معاملہ ہے جس سے ہم بھی دوچار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لاپروائی، بے استعمالی، بے توجہی اور عزت کے فقدان سے زبان مرتی ہے یا فرمان کے ذریعے قتل کی جاتی ہے، تو وہ خود بھی، بلکہ تمام استعمال کرنے والے اور بنانے والے بھی، اس کی رحلت پر جواب دہ ہوتے ہیں۔ خود ان کے ملک میں بچوں نے بھی اپنی زبانوں کو چھوڑ دیا ہے اور ان کے استعمال کے بجائے گولیاں استعمال کرنے لگے ہیں۔

اپنی خاموشی کی زبان کے ادعا کے لیے، معنویت اور رہ نمائی کے لیے حتیٰ کہ اظہار محبت کے لیے بھی انھوں نے اپنی زبان کو استعمال کرنا ترک کردیا ہے۔ مگر زبان کی خود کشی صرف بچوں ہی کو پسند نہیں ہوتی۔ یہ کیفیت تو بچکانہ سربراہان حکومت اور طاقت کے تاجرں میں بھی عام ہے۔ جن کی چھوڑی ہوئی زبان ان کی اپنی بچی کھچی انسانی جبلتوں کی طرف مراجعت کی اجازت نہیں دیتی، اس لیے وہ لوگ صرف فرماں برداری کے احکامات کی بجا آوری کرنے والوں ہی سے کلام کرنے کی زحمت کرتے ہیں۔

اس بارے میں غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وہ تہذیبی، تخلیقی اور سیاسی بحران ہے جس سے دنیا کی بیشتر ترقی پذیر اقوام دو چار ہیں۔ اپنے ارد گرد دیکھیے تو صبح و شام ہم پر جس طرح مقتدر طاقتیں اپنا بیانیہ نافذ کررہی ہیں، اس نے ہمارے بیشتر لوگوں کو خلجان میں مبتلا کر دیا ہے۔

ان کی موت کے فوراً بعد 2012ء کی ایک تصویر شائع ہوئی جس میں اس وقت کے صدر امریکا براک اوباما انھیں صدارتی تمغۂ آزادی سے نواز رہے ہیں۔ سیاہ فام امریکی نژاد ایک عورت اور ایک مرد، دونوں اپنے ملک کے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے، ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں اور ان کے چہرے دمک رہے ہیں۔

یہ وہ امریکی بیانیہ ہے جو ابراہم لنکن اور ان کے ساتھیوں نے ایجاد کیا تھا، نفرت انگیز غلامی کو رد کرتے ہوئے سیاہ فاموں کو شرفِ انسانیت پر فائز کرنے کا بیانیہ۔ امریکا کے سیاہ فام ابھی وہاں تک نہیں پہنچے جس کا خواب تین سو برس پہلے دیکھا گیا تھا لیکن وہ اس طرف سفر تو کر رہے ہیں۔ ہم ابھی جمہوریت اور انصاف کے نعرے لگاتے ہوئے وقت میں منجمد کھڑے ہیں۔ ہمارے عوام کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ جس بیانیے کے سامنے جس طرح 70 برس سے سرجھکاتے آئے ہیں، آج بھی آمنا و صدقنا کہیں اور زمام حکومت ان ہی کے ہاتھ میں رہنے دیں جن سے بہتر کار سرکار کوئی نہیں جانتا۔

انھیں شاید علم نہیں کہ مشرق و مغرب میں، شمال و جنوب میں بیانیے بدل چکے اور اب بدلے ہوئے بیانیے کے سامنے پسپا ہونے میں بھلائی ہے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.