اس کا چہرہ آپ کے لیے بھی اجنبی نہ ہوگا۔ کسی نوجوان کی ٹی شرٹ پر، کافی کے کسی مگ پر، سرکار مخالف مظاہروں میں اس کے بڑے بڑے پوسٹروں پر۔ کہیں نہ کہیں آپ کی اس سے ملاقات ہوئی ہوگی۔
وہ صرف 39 برس کی عمر میں سی آئی اے کا قیدی بنا، وہ انقلاب کا استعارہ تھا، استعارے مٹا دیے جاتے ہیں، اسے بھی گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ انھیں اس کے جسد خاکی سے ڈر لگتا تھا، اسی لیے اس کا بے جان بدن اس کے ساتھیوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ اس کے دشمنوں نے اسے کسی نامعلوم مقام پر دفن کردیا۔
کسی جنگل، کسی گھاٹی، کسی کھائی میں اس کا خاموش بدن اس کے چاہنے والوں سے چھپا دیا گیا۔ اس کے چاہنے والے اسے ڈھونڈتے پھرے اور برسوں کی جدوجہد کے بعد انھوں نے اسے تلاش کرلیا۔ اسے ہوانا کے انقلاب چوک میں نہایت احترام اور اہتمام سے دفن کردیا گیا۔ اس کے ہزاروں چاہنے والوں کی موجودگی میں نکولس گولین نے اپنی وہ نظم سنائی جو اس نے اس انقلابی، اس شہید پر لکھی تھی جسے دنیا چی گویرا کے نام سے جانتی ہے اور جس کے چاہنے والے اسے صرف "چی" کے نام سے پکارتے تھے۔ نکولس نے لکھا تھا:
تم ڈوب چکے لیکن تمہاری روشنی اسی آب وتاب سے چمکتی ہے/ ایک شاندارگھوڑے پر تمہارا مجسمہ آنکھوں میں کھب جاتا ہے/ ہواؤں اور بادلوں کے درمیان/ تم خاموش نہیں ہو/ شاید انھوں نے تمہیں نذر آتش کردیا ہے/ انھوں نے تمہیں زیر زمین چھپا دیا ہے/ یا شاید کسی قبرستان میں پوشیدہ کردیا ہے/ انھوں نے تمہیں جنگل میں چھپا دیا ہے/ لیکن وہ ہمیں روک نہیں سکتے کہ ہم تمہیں ڈھونڈھ نکالیں / ہمارے کمان دار چی/ ہمارے ساتھی چی۔
کیسی پیش گوئی کرتی نظم تھی۔ چی کے چاہنے والوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور یہ اعزاز نکولس گولین کے حصے میں آیا کہ وہ اپنی اس نظم کو چی کی تدفین کے موقع پر سنائے۔ خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلائے۔
لاطینی امریکا نے کیا کمال شاعر، ادیب اور انقلابی پیدا کیے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ارجنٹائن میں پیدا ہونے والا چی گویرا تھا۔ متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہونے والا چی اپنی بنیاد اور نہاد میں دانشور تھا۔ اس کے گھر میں تین ہزارکتابیں تھیں۔ چی نے جب پڑھنا سیکھا تو وہ ان کتابوں کوندیدوں کی طرح پڑھ گیا۔ یہ ادب، تاریخ اور شاعری کی کتابیں تھیں۔ اس کے گھر میں بائیں بازوکے خیالات کا چرچا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ چی جو ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا تھا، اسے غریبوں کے مسائل اور ان کے معاملات سے گہری دلچسپی تھی۔
وہ بچپن سے ہی دمے کا مریض تھا، اس کے باوجود وہ تمام ایسے کھیلوں میں حصہ لیتا جو بدن کے زور کا تقاضہ کرتے تھے، اس کے ساتھ ہی وہ شطرنج کا ایک ذہین کھلاڑی تھا۔ شطرنج اس نے اپنے والد سے سیکھی تھی اور اس میں کئی ٹورنامنٹ جیتے۔ پابلونرودا، گارسیا لورکا اور والٹ وٹمین کا وہ عاشق تھا۔ مارکس، اینگلز، پنڈت جواہر لال نہرو، فرانز کافکا اور اناطولی فرانسس اس کے پسندیدہ ادیبوں میں سے تھے۔ اس نے مہاتما بدھ، ارسطواور برٹرینڈ رسل پر مضامین بہت کم عمری میں لکھ ڈالے اور اپنے پڑھنے والوں سے داد وصول کی۔
وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، اس نے طب کی تعلیم کے لیے کالج میں داخلہ لیا اور وہیں سے اس کی زندگی اور سوچ کا رخ بدلنا شروع ہوا۔ اس نے سائیکل اور پھر موٹرسائیکل پر اپنے ملک کا سفرکیا جو نو مہینوں پر محیط تھا، اس کے بعد اس نے کالج سے چھٹی لے کرموٹر سائیکل پر ایک اور لمبا سفر کیا۔ یہ سفر 5000 میل پر پھیلا ہوا تھا۔ اس سفر کے دوران وہ لاطینی امریکا کے مختلف علاقوں کی غربت کا چشم دید گواہ بنا۔ دریائے امیزون کے کنارے جذامیوں کی ایک بستی میں اس نے رضاکارانہ کام کیا۔ چلی میں اس نے کان کنوں کی حالت زار دیکھی اور وہ برافروختہ ہوگیا۔ وہ دنیا کے مشہور پہاڑ ماچو پیچو تک گیا۔
دوردراز علاقوں میں پھیلی ہوئی ناقابل یقین غربت نے اسے اپنی بنیادوں سے ہلاکر رکھ دیا۔ اس نے لکھا کہ "میں نے جیسا بھائی چارہ اور انسان دوستی جذامیوں کی بستی میں دیکھی وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔ " اس نے موٹر سائیکل پر ہزاروں میل کے اس سفر کی یاد داشتیں لکھیں جو نیو یارک ٹائمز میں شایع ہوئیں اور فوراً ہی ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔
لاطینی امریکا کے اس سفر نے اسے غربت کے اس ذائقے سے آشنا کیا جسے وہ پڑھ کر نہیں جان سکتا تھا۔ یہ لاطینی امریکا پر ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بالادستی کا وہ نوآبادیاتی نظام تھا، جس کے چنگل میں لاطینی امریکا کے مختلف ملک پھڑپھڑاتے تھے۔ یہ دونوں سفر جو اس نے سائیکل اور موٹر سائیکل پرکیے، ان کے دوران وہ چلی، پیرو، ایکوا ڈور، کولمبیا، وینزویلااور پاناما کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے گزرا۔ اس دوران اس پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ یہ کہنے کو ملک ہیں لیکن دراصل یہ ایک ہی براعظم کے حصے ہیں اور جب تک یہ مشترک جدوجہد نہ کریں اس وقت تک اس میں رہنے والوں کو غربت، جہالت اور پسماندگی سے نجات نہیں مل سکتی۔
دنیا اس پر منکشف ہوچکی تھی۔ اسے یقین ہوگیا کہ اگر وہ طب کی تعلیم مکمل کرلے اور کسی شہر میں لوگوں کا علاج کرنے بیٹھ جائے تب بھی وہ ان لاکھوں غریبوں کی بھوک، بیماری، غربت اور ذلت کا مداوا نہیں کرسکتا جو لاطینی امریکا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد ہی "چی" نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑی اور سیاست کے میدان میں اترا۔ اب اس کے خیال میں لوگوں کی نجات مسلح جدوجہد کے سوا کسی طرح ممکن نہیں تھی۔
اس میدان میں "چی" نے اس تیزی سے سفرکیا کہ ٹائم میگزین نے اسے بیسویں صدی کے 100 سب سے بااثر اشخاص کی فہرست میں رکھا اور میری لینڈ انسٹیٹیوٹ کالج آف آرٹ میں اس کی جو تصویر کھینچی گئی وہ دنیا کی مشہور ترین تصویر قرار پائی۔ اس کی یہ تصویر دنیا کے تمام براعظموں میں آج بھی انقلابیوں کے سینوں پر سجی ہوئی نظر آتی ہے اور باغیانہ جلوس جب سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے نکلتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں اس کی وہی تصویر ہوتی ہے۔
1953 میں وہ ایک بار پھر سفر پر نکلا۔ اس مرتبہ بولیویا، پیرو، ایکواڈور، پناما، کواسٹاریکا، نکارا گوا، ہونڈراس اور ال سلوا ڈور اس کی منزل تھے۔ یہ وہ ملک تھے جو بھوک، بیماری اور غربت کی چکی میں پس رہے تھے۔ ان سے گزرنا، ان لوگوں کے دکھ دیکھنا اور محسوس کرنا کہ انسان کن پستیوں میں اتر سکتا ہے، چی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ یہ ان لوگوں کی گرفت میں تڑپتے تھے جو ان کے وسائل پر قابض تھے اور ان کاخون چوس رہے تھے۔
گوئٹے مالا میں ہی اس کا تعلق کیوبا کے ان جلاوطنوں سے ہوا جن میں کیوبا کا فیڈل کاسترو سب سے مشہور تھا۔ گوئٹے مالا میں جہاں ایک عوام دوست حکومت مستحکم ہو رہی تھی، وہاں امریکن اسلحہ پہنچا اور وہ لوگ جو دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے اس سلحے کے زور پر عوام دوست حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
اس کے بعد چی کی زندگی ایک جہد مسلسل بن گئی۔ وہ غریبوں کی زندگی بدلنے کے لیے جان پر کھیلنے کے لیے تیار تھا۔ اس کی تفصیلی ملاقات جلا وطن کاسٹرو سے ہوئی اور اسی ملاقات کا نتیجہ تھا کہ چی کاسٹرو کا انقلابی ساتھی بن گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ مسلح جدوجہد کے بغیر غریبوں کی زندگی نہیں بدلی جاسکتی۔ اسی یقین کے ساتھ چی نے ایک نئی دنیا تخلیق کرنے کے عزم کے ساتھ خونیں انقلاب کی راہ پر قدم رکھا اور دنیا بھر کے انقلابی نوجوانوں کی آنکھ کا تارا بن گیا۔
(جاری ہے)