Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Corona, Khawateen Wuzraye Azam

    Corona, Khawateen Wuzraye Azam

    تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے ملکوں پر ہمیشہ مردوں کی حکمرانی رہی ہے۔ جن خواتین کو حکمرانی کا موقع ملا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ تاہم، اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ خاتون حکمرانوں نے مرد حکمرانوں کے مقابلے میں کہیں بہتر انداز میں حکومت کی، انھوں نے اپنی رعایا اور شہریوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنانے کی بجائے ان کے لیے فلاحی کام کرنے کو ترجیح دی۔

    اس وقت کورونا کی وبا تباہی کی المناک داستانیں رقم کررہی ہے۔ کرہ ارض پر موجود 200 سے زیادہ ملک اس مشکل میں مبتلا ہیں کہ اس بیماری کو پھیلنے سے کس طرح روکا اور اپنے شہریوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جائے۔ اس تناظر میں اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جن ملکوں کی سربراہِ حکومت خواتین ہیں ان ملکوں نے اس مہلک وبا کا اب تک زیادہ بہتر طور پر مقابلہ کیا ہے۔

    اس وقت جرمنی، نیوزی لینڈ، بیلجئیم، فن لینڈ، آئس لینڈ اور ڈنمارک میں موجود حکومتوں کی سربراہ خواتین ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے جرمنی کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ انجیلا مرکل وفاقی جمہوریہ جرمنی کی چانسلر ہیں۔ وہ 2005 سے برسر اقتدار ہیں اور عوام نے ان کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے لگاتار چار مرتبہ اس منصب کے لیے منتخب کیا ہے۔ انھیں جرمنی کی تاریخ کی پہلی خاتون چانسلر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جرمنی یورپ کی پہلی اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ اس کی آبادی 8 کروڑ سے زیادہ ہے۔ اگر روس کو یورپ میں شامل نہ کیا جائے تو جرمنی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح کورونا وائرس نے جرمنی پر بھرپور حملہ کیا ہے۔

    یہاں اب تک ایک لاکھ پینتیس ہزار سے زیادہ لوگ اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں جب کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار ہزار تک محدود ہے۔ جب کہ اٹلی، اسپین، فرانس اور برطانیہ میں اس وبا میں مبتلا اور ہلاک شدگان کی تعداد جرمنی کے مقابلے میں ڈرامائی طور پر کہیں زیادہ ہے۔ برطانیہ سمیت دیگر ملکوں کو ووہان میں وائرس کے نمودار ہونے کے بعد تین ماہ کا وقت ملا تھا لیکن وہ اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکے اس کے برعکس جرمنی نے فوری ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ انجیلا مرکل نے مصلحت سے کام نہیں لیا بلکہ کھل کر لوگوں کو بتادیا کہ جرمنی کی 60 سے 70 فیصد آبادی اس جان لیوا وائرس کا شکار ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت ضایع کیے بغیر ہم سب کو مل کر اس وبا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ لوگوں میں علامات ظاہر ہونے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ ٹیسٹ کی جارحانہ پالیسی اختیار کرکے ان لوگوں کا پتہ لگایا جائے جن کے اندر یہ وائرس چھپا بیٹھا ہے۔

    انھوں نے مختصر وقت میں 14لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ مکمل کرلیے جب کہ برطانیہ کے بورس جانسن کی حکومت بہ مشکل 3 لاکھ کا ہدف عبور کرپائی۔ انجیلا مرکل نے دوسروں کی طرح وبا کے پھیلنے کا انتظار نہیں کیا بلکہ پیشگی اقدامات کے ذریعے دستیاب وقت کا بہترین استعمال کیا۔ ان کی حکومت نے ہلکی علامتیں رکھنے والوں کے بھی ٹیسٹ لیے۔ متاثرہ افراد کودوسروں سے الگ رکھا اور ان کا علاج کرایا۔ ان کی حکومت کا نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ کورونا وائرس کے بھرپور حملے سے پہلے ہی ملک میں 100 سے زیادہ لیبارٹریاں قائم کردی گئیں۔

    انجیلا مرکل کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جینڈا آرڈرن کا ذکر ضروری ہے۔ نیوزی لینڈ بحرالکاہل کے جنوب مغرب میں واقع 600 چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل ملک ہے اور اس کی آبادی تقریباً نصف کروڑ ہے۔ نیوزی لینڈ برطانیہ کی نوآبادی تھا جسے ہماری طرح 1947ء میں آزادی حاصل ہوئی۔ اس ملک کی منتخب وزیر اعظم کا نام جینڈا آرڈرن ہے۔ اس ملک کا شمار دنیا کے ان معدوے چند ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کورونا پر قابو پالیا گیا ہے۔ چند دنوں پہلے تک یہاں کورونا کے باعث صرف چار اموات واقع ہوئی تھیں۔ اس وقت وزیر اعظم جینڈا کاروبار زندگی دوبارہ کھولنے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہیں۔ جینڈا نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک پرخلوص سیاسی رہنما مشکل ترین فیصلے کرنے سے بھی نہیں گبھراتاہے۔ 21مارچ تک امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن اپنے اپنے ملکوں میں لاک ڈاؤن کرنے کی زبردست مزاحمت کررہے تھے۔

    یہ دونوں رہنما اپنے عوام کو یہ پیغام نہیں دے سکے تھے کہ انھیں اس وبا کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔ عین اس وقت جینڈا نے اعلان کیا کہ کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کا یہی بہترین وقت ہے۔ نیوزی لینڈ میں ہرسال 40 لاکھ سیاح آتے ہیں۔ 28 فروری کو پہلے مریض کی تشخیص ہوئی، حکومت نے چند دنوں بعد اعلان کردیا کہ ملک میں آنے والے ہر سیاح کو 14 دن الگ تھلک رہنا ہوگا۔ اس کے بعد سیاحوں کی آمدورفت روک دی گئی اور سرحدوں کو بند کردیا گیا۔ اسکول و کالج سمیت تمام ادارے بند کردیے گئے اور لوگوں کو سختی سے گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں ملک میں صرف گیارہ سو سے کچھ زیادہ لوگ کورونا سے متاثر ہوئے اور صرف ایک مرض ہلاک ہوا۔ وزیر اعظم جینڈا آرڈرن کے بروقت اقدامات سے ایک بڑی تباہی ٹل گئی۔

    کورونا کے خلاف بیلجیئم کی سوفی ویملز کی کارکردگی بھی غیر معمولی ہے۔ بیلجیئم کی آبادی ایک کروڑ 14 لاکھ ہے، اس ملک میں یورپی یونین اور نیٹو کے صدر دفاتر ہیں۔ وزیر اعظم سوفی ویملز ملک کی 189 سالہ تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہیں۔ ملک میں کورونا میں مبتلا پہلے مریض کی تصدیق 4 فروری کو ہوئی تھی جو چین کے شہر ووہان سے برسلز آیا تھا۔ دیگر یورپی ملکوں کے مقابلے میں بیلجیئم کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں زیادہ کامیاب ثابت ہوا۔ جہاں 30 ہزار لوگ متاثر جب کہ چارہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ بروقت اقدامات نہ ہوتے تو یہ تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔ اب ذکر ہوجائے دنیا کی سب سے کم عمر خاتون وزیر اعظم ثنا مرین کا جو 55 لاکھ آبادی والے ملک فن لینڈ کی سربراہ حکومت ہیں۔

    یہاں تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 3 ہزار تک محدود ہے۔ آئس لینڈ کی وزیر اعظم کیٹرن اور ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹے فریڈلے رکسن نے بھی بڑے بڑے یورپی ملکوں کے وزرائے اعظم کی نسبت کورونا کو روکنے کے لیے زیادہ بروقت، تیز رفتار اور سخت فیصلے کیے ہیں۔

    آج نہیں تو کل نہ جانے کتنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس وبا پر بھی قابو پالیا جائے گا۔ جب زندگی معمول پر آجائے گی تو تاریخ ضرور پرکھے گی کہ وہ کون حکمران تھے جن کے نزدیک اپنے شہریوں کی زندگی ہر مفاد سے بالا تھی۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی خاتون وزرائے اعظم کا نام اس فہرست میں ضرور شامل ہوگا۔

    About Zahida Hina

    Zahida Hina

    Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

    Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

    Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.