Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Corona Ko Harane Walay Bahadur Buzurg

    Corona Ko Harane Walay Bahadur Buzurg

    عمر بڑھنے کے ساتھ جسم کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہونے لگتا ہے، صحت کا خاص خیال نہ رکھا جائے تو بیماریاں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن ملکوں میں صحت کا نظام بہت بہتر ہے، حکومتیں اپنے شہریوں کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے کثیر سرمایہ خرچ کرتی ہیں اور جہاں کے شہری صحت اور بیماریوں کے حوالے سے کافی شعور اور آگاہی رکھتے ہیں اور ایک فعال و صحت مند طرز زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں وہاں بڑی عمر کے لوگ بھی خطرناک وباؤں سے بچ نکلتے ہیں۔

    کورونا وبا کے دوران بھی اس کی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی خاتون کونی ٹٹچن کی عمر اس وقت 106 سال ہے۔ برطانیہ پر جب کورونا وائرس نے شدید حملہ کیا تو کونی بھی اس کا شکار ہوگئیں۔ بہت کم لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اس مہلک وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوسکیں گی کیونکہ بڑی عمر کے زیادہ تر مریض زندگی کی بازی ہار رہے تھے۔ کورونا کی تصدیق ہونے کے بعد انھیں اسپتال میں داخل کرادیا گیا۔ جہاں وہ ایک دو نہیں بلکہ تین ہفتوں تک اس مہلک وائرس کا مسلسل مقابلہ کرتی رہیں اور بالآخراسے ہرانے میں کامیاب ہوگئیں۔

    ان کی صحت یابی اسپتال کے عملے کی بھی فتح تھی، انھوں نے ایک قطار بناکر تالیاں بجاتے ہوئے آٹھ بچوں کی پڑدادی اور نانی کو اپنے اسپتال سے رخصت کیا۔ وہ غالباً آج کی تاریخ تک کورونا وائرس پر فتح پانے والی دوسری سب سے عمر رسیدہ مریض ہیں۔ کونی کی نواسی ایلکس جونز کا کہنا ہے کہ میری نانی ہر مشکل سے باہر نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ اس کی نانی عملاً ایک فعال زندگی گزارتی ہیں۔ انھیں رقص کرنا پسند ہے، وہ سائیکل چلاتی ہیں اور گالف کھیلتی ہیں اور میکڈونلڈکھانے کا شوق بھی رکھتی ہیں۔ کورونا میں مبتلا ہونے سے چند ماہ پہلے ہی ان کی کمر کا آپریشن ہوا تھا اور وہ صرف 30 دنوں کے اندر دوبارہ چلنے لگی تھیں۔

    یہ بہادر، پر اعتماد اور 106 سال کی عمر رکھنے والی خاتون 1913ء میں پیدا ہوئیں جب اسپینش فلو 1918 نے دنیا میں تباہی مچائی تھی اور کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے اور اس وقت اس وائرس کی کوئی ویکسین بھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت بھی کونی اس وبا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔

    تاہم، اس وقت کورونا کو شکست دینے والی دنیا کی معمر ترین خاتون کارنیلیا راس ہیں جن کی عمر 107 سال ہے۔ اپنی 107 ویں سالگرہ منانے کے دوسرے دن وہ اپنے نرسنگ ہوم کے دیگر رہائشیوں کے ساتھ چرچ گئیں اور واپسی پر ان میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی۔ ان کے ساتھ کے دیگر 40 افراد اس وائرس کا شکار ہوئے۔ جن میں سے 12 اب زندہ نہیں ہیں۔ ان کی بھانجی کہتی ہیں کہ ہمیں ان کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ کورنیلیا راس، دوائیں نہیں کھاتیں، خوب چہل قدم کرتی ہیں۔ اس موقع پر اٹلی کی معمر ترین خاتون اڈا زینو سو کا ذکر بھی ضروری ہے۔ وہ شمالی اٹلی میں واقع ایک کیئر ہوم میں برسوں سے رہتی تھیں۔

    17 مارچ کو جب ان کا ٹیسٹ کیا گیا تو اس کا نتیجہ مثبت آیا۔ انھیں بخار ہوگیا اوروہ سانس لینے میں تکلیف محسوس کرنے لگیں۔ ان کے ساتھ اسی کیئر ہوم کے دیگر مریض بھی اسپتال داخل کرائے گئے، ان میں سے 20 افراد زندہ نہیں بچ سکے جب کہ کئی معمر لوگ جن میں سے ایک 102 سالہ خاتون اور ایک 101 سالہ مرد کے علاوہ 90 سال سے زیادہ عمر کے کئی لوگ بھی شامل تھے، زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

    کورونا کی عالمی وبا سے متاثر ہونے والے معمر ترین افراد میں کسی 90 برس کے بزرگ جوڑے کے ایک ساتھ اس مرض میں مبتلا ہونے اور زندہ بچ جانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ اس حوالے سے ہندوستان کی ریاست کیرالہ سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک 93 سالہ بزرگ مرد اور 88 سالہ بزرگ خاتون جن کی شادی 1947 میں ہوئی تھی وہ دونوں ایک ساتھ اس مہلک بیماری میں مبتلا ہوگئے۔

    انھیں انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھا گیا، ڈاکٹروں کو ان کے بارے میں کافی تشویش تھی اور وہ کچھ مایوس نظر آتے تھے۔ لیکن 93سالہ تھامس ابراہم اور ان کی بیوی 88 سالہ مرییاما نے اس وائرس کے خلاف مثالی مزاحمت کی۔ پہلے ان دونوں کو الگ الگ وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ لیکن جب بھی کوئی نرس مرییاما کے پاس جاتی تو وہ اس سے ابراہم کی خیریت دریافت کرتی اور جب کوئی نرس ابراہم کے پاس آتی تو وہ اس سے مرییاما کے بارے میں دریافت کرتے۔ یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا تھا۔

    یہ صورتحال دیکھ کر ڈاکٹروں نے انھیں دو بستروں پر مشتمل آئی سی یو میں ایک ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان دونوں بزرگوں نے کورونا کو اپنے اوپرحاوی نہیں ہونے دیا اور آخر کار وہ اس وائرس کو اپنے اندر سے ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کورونا وائرس ان کی زندگیاں نہیں لے سکا بلکہ انھوں نے اس وائرس کو اپنے اندر زندہ نہیں رہنے دیا۔ ابراہم کا سب سے چھوٹا بیٹا مونسی ابراہم، اس کی بیوی ریمنے مونسی اور ان کا بیٹا رجو اٹلی میں رہتے ہیں۔ وہ فروری کے اختتامی دنوں میں اپنے والدین سے ملنے کیرالہ آئے تھے جس سے ان کے خاندان کے 6 افراد اس وائرس کا شکار ہوگئے۔ ابراہم کا کہنا ہے کہ ہم اگر اس عمر میں کورونا جیسے مہلک وائرس سے زندہ بچ سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ہم زندگی کی کئی اننگ اور کھیلیں گے۔

    کورونا وائرس بزرگوں اور زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے نوجوانوں کی بہ نست زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس وائرس میں مبتلا ہر بزرگ زندگی کی بازی ہار سکتا ہے۔ ترکی کی ایک 98 سال سے زیادہ عمر کی خاتون، چین کی 103 سالہ خاتون یا ایران کی 100 سال سے زیادہ عمر کی خاتون اور مرد مریض ہوں یا دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والے امریکا کے 104 سالہ ولیم بل، برازیل کی 97 سالہ اور جنوبی کوریا کی 93 سالہ خاتون ہوں یہ اور ان جیسے بہت سے بزرگ افراد یہ ثابت کررہے ہیں کہ اگر حوصلوں کو بلند رکھا جائے۔

    زندہ رہنے کی امنگ دل میں موجود ہو، حکومتیں اپنے شہریوں بالخصوص بزرگ شہریوں کا خیال رکھتی ہوں اور صحت کی اعلیٰ اور جدید سہولتیں دستیاب ہوں تو بزرگ افرادبھی بڑی کامیابی سے کورونا کو شکست دے سکتے ہیں۔ بزرگ افراد میں زندہ رہنے کا حوصلہ اور جینے کی امنگ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ یہ محسوس کریں کہ انھیں حکومت یا اپنوں کی طرف سے ایک بوجھ نہیں بلکہ ایک اثاثہ سمجھا جاتا اوران کے ساتھ محبت بھرا بہتر سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

    About Zahida Hina

    Zahida Hina

    Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

    Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

    Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.