Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Fakhruddin G. Ebrahim Ka Pegham

Fakhruddin G. Ebrahim Ka Pegham

ہمارے یہاں کیسے کیسے بونوں کے پیروں میں جھوٹی تعریف و توصیف کے بانس باندھ کر ان کا قامت آسمان تک بلندکیا جاتا ہے لیکن سچے دانشوروں اور جمہوریت کی جنگ میں سینہ سپر رہنے والوں کو اس طرح نظر اندازکیا جاتا ہے، جیسے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ ہمارے ایک ایسے ہی شاندار قانون داں اور جمہوریت کے لیے سینہ سپر رہنے والے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم تھے جو چند دنوں پہلے ایک طویل بیماری کے بعد اس جہان سے گزر گئے۔

اپنے چاہنے والوں کے لیے وہ " فخرو بھائی" تھے۔ سادہ لباس پہننے والے اور اپنی شخصیت کی نمائش نہ کرنے والے فخرو بھائی، آپ کے برابر سے گزر جائیں تو آپ کوگمان بھی نہیں گزرے گا کہ یہ شخص کسی دفتر میں معمولی ملازمت کرنے والے سے زیادہ کچھ ہو سکتا ہے۔ سوتی بش شرٹ اور عموماً مکھن زین کی پینٹ اور کھلے ہوئے سینڈل پہننے والا یہ شخص قانون کی حکمرانی کے لیے بڑے سے بڑا نقصان اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے جمہوری دروبست لپیٹ کر مارشل لاء لگا دیا تھا اور وہ ہر شخص کے دل میں اپنا خوف نافذ اور راسخ کرنا چاہتے تھے۔

جنرل کو سب سے زیادہ خطرہ ملک کی عدلیہ سے تھا۔ اسی لیے انھوں نے اعلیٰ عدلیہ کے پر قینچنے کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس کو ہدایت کی کہ وہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں سے پی سی او کے تحت نیا حلف اٹھانے کے لیے کہیں، اس موقع پر صرف دو جج ایسے تھے جنھوں نے دو ٹوک الفاظ میں ایسا کرنے سے انکار کیا۔ یہ دو حضرات جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اور جسٹس دوراب پٹیل تھے۔ دونوں اپنے دوسرے ساتھیوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے چھوڑ کر اپنے گھروں کو گئے اور عام پاکستانیوں کی نظر میں ان کے درجات بلند ہو گئے۔

1990کے دن تھے، اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان کشمکش اور کشاکش کا معاملہ خون سے لکھا جا رہا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب مرنجان مرنج جناب (ر) فخر الدین جی ابراہیم سندھ کے گورنر اور نرم گفتار جناب شعبان میرانی وزیر اعلیٰ تھے۔ ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ سندھی اور اردو کے نمایندہ ادیبوں کو بلایا جائے اور امن کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ اس ملاقات کی صدارت کے لیے وزیر اعظم بینظیر بھٹو اسلام آباد سے کراچی آئیں۔ ان کے چہرے پر تابانی کے ساتھ ہی تلخی بھی تھی۔ سندھ ان کا اپنا صوبہ، کراچی ان کی جنم بھومی اور یہاں وہ سب کچھ ہو رہا تھا جو افسوسناک ہونے کے ساتھ ہی ان کی حکومت کے لیے سنگین مسئلہ بھی بن سکتا تھا۔

وہ پہلا موقع تھا جب میں نے جسٹس صاحب کو روبرو دیکھا۔ سادہ مزاج اور کھری بات کرنے والے فخر الدین جی ابراہیم کو سب ہی "فخرو بھائی" کہتے تھے اور آج بھی ان کی دیانتداری کی داد دیتے نہیں تھکتے۔ پھر ان سے متعدد ملاقاتیں رہیں اور ہمیشہ ان کو غمِ دو جہاں میں غرق پایا۔ وہ 1928میں گجرات کے شہر احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ مہاتما گاندھی کی پیروی میں عدم تشدد کا فلسفہ اختیار کیا۔ پاکستان آئے اور پھر اپنی ساری زندگی جمہوری اور آئینی جدوجہد میں گزار دی۔ ان کا ایمان رہا کہ ملک کے جو حالات ہیں، ان میں کوئی خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ ان کا پیغام تھاکہ یہاں رہنے والے ہر عاقل و بالغ فرد کو جمہوریت اور انصاف کے لیے لڑنا چاہیے۔ ایسے زمانوں میں خاموش رہنا گناہ ہے اور کوئی بھی باضمیر فرد اس گناہ کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔

وہ پاکستان کے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون رہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور جج حضرات کو پی سی اوکے تحت حلف اٹھانے کا حکم دیا گیا تو یہ جسٹس دوراب پٹیل اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم تھے جنھوں نے اس حلف کو لینے سے انکار کر دیا۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کا ان سطروں میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ 2013میں وہ حکومت اور اپوزیشن کے نامزد کردہ چیف الیکشن کمشنر ہوئے اور تیز دھوپ میں کراچی کی گنجان آباد گلیوں میں دو فوجیوں کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے نظر آئے، یہ دو فوجی ان کی "حفاظت" پر مامور تھے۔ گھروں پر دستک دیتے ہوئے اور باہر نکلنے والے چھوٹے بچوں اور بڑوں سے بات کرتے ہوئے۔

85 برس کے فخرو بھائی کراچی کی تیز گرمی میں گنجان علاقوں میں پیدل چل رہے تھے۔ انھیں نہ کسی دہشتگرد کی گولی کا خوف تھا اور نہ یہ پریشانی کہ ان کے قریب ریموٹ کنٹرول سے چلنے والا کوئی بم پھٹ سکتا ہے یا کوئی خود کش دھماکا ہو سکتا ہے۔ وہ کراچی کی گلیوں میں کسی درویش کی شان سے چلتے رہے۔ ایک بے دھڑک با ضمیرانسان۔ وہ ایک ایسے درویش تھے جسے دو ٹوک بات کرنے سے نہ اعلیٰ ترین عہدیدار روک سکتا تھا اور نہ کسی اعلیٰ عہدے سے محرومی کا خوف۔

الیکشن سے چند دنوں پہلے فخرو بھائی نے صدر آصف علی زرداری کو مشورہ دیا کہ اپنے منصب کا احترام کرتے ہوئے وہ آیندہ عام انتخابات کے دوران خود کو انتخابی مہم سے دور رکھیں کیونکہ میں نے ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ اگر صدر، وزیر اعظم، وزراء اعلی ٰیاگورنروں نے انتخابی مہم میں کوئی کردار ادا کیا تو اسے روکنے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں اور امیداواروں کے لیے یکساں ماحول کی فراہمی یقینی بنانا چاہتے تھے۔ الیکشن سے قبل میڈیا پر اشتہاری مہم پر ہونے والے اخراجات، ٹرانسپورٹ اور موجودہ حکمرانوں کی طرف سے ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہندوستان میں ووٹر خود اپنے ذرایع سے پولنگ اسٹیشن پہنچ سکتے ہیں اور امیدواروں کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی اجازت نہیں تو ہمارے ووٹر ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ انھوں نے میڈیا کو مشورہ دیا کہ وہ غیر جانبدار رہے اور اگر جمہوریت کے پھلنے پھولنے کی خواہش رکھتا ہے تو اسے کسی بھی سیاسی جماعت کے پلڑے میں اپنا وزن نہیں ڈالنا چاہیے۔

وہ ایک بے مثال اور باضمیر دانشور تھے اور ہر بات کو قانون کے ترازو میں تولتے تھے۔ ہمارے یہاں اقلیتوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ انھوں نے عاصمہ جہانگیر، دوراب پٹیل اور آئی اے رحمان ایسے انسان دوست اور باضمیر انسانوں کے ساتھ مل کر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد ڈالی اور اپنی سی کوشش کی کہ وہ لوگ جو عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر اکثریت کے غیظ و غضب کا شکار رہتے ہیں، ان کی داد رسی کی جا سکے۔

یہ بھی وہی تھے جنھوں نے سی پی ایل سی کی بنیاد رکھی۔ وہ اٹارنی جنرل ہوئے، وزیر قانون رہے، سندھ کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بڑے سے بڑا عہدہ ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنا، جب اور جہاں انھوں نے یہ محسوس کیا کہ بات ان کے ضمیر پر آرہی ہے، انھوں نے فوراً استعفیٰ دیا اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ گھر کو گئے۔ ہم جب ان کے بارے میں بات کرتے تھے تو ان کی تعریف و توصیف کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ فخرو بھائی نے عہدہ قبول تو کر لیا ہے لیکن اس عہدے سے مستعفی ہونے کا خط بھی جیب میں لیے پھرتے ہیں۔

ہمارے یہاں جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، جسٹس دوراب پٹیل اور جسٹس کارنیلیس جیسے چند منصف مزاج اور کھرے قانون دان اور بھی پیدا ہوتے تو یقیناً پاکستان پر جو برے دن گزرے ان میں شاید کچھ کمی ہوتی۔

فخرو بھائی نے اس ملک کے نادار اور بے آسرا مزدوروں اورکچلے ہوئے طبقات کے حق کے لیے لڑائی لڑی۔ وہ ہمارے ان چند نادر روزگار لوگوں میں سے تھے جنھیں کوئی بھی آمر یا جمہوریت کا دعویدار سیاستدان خرید نہ سکا۔ وہ 91 برس کی عمر میں ہم سے رخصت ہوئے تو نیک نامی کی دولت سے مالا مال تھے۔

لیکن فخرو بھائی آپ ہمیں تو غریب کر گئے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.