تاریخ کے انداز نرالے ہیں۔ ایک وہ دور تھا جب آبادی کے اعتبار سے چھوٹی اقوام زبردست عسکری قوت کی بنیاد پر اپنے سے کہیں بڑی اقوام کو محکوم بنا لیا کرتی تھیں۔ ان چھوٹی بیرونی اقوام نے ہندوستان پر 800 سال سے زیادہ خوب جم کر حکومت کی۔
قابض اقوام آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کی آبادی کا عشر وعشیر بھی نہیں تھیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ غیر معمولی حجم والے اس ملک کو مٹھی بھر منگولوں نے فتح کرلیا۔ چنگیز خان تباہی پھیلاتا ہوا بغداد تک جا پہنچا۔ عسکری طاقت کے ذریعے عظیم تہذیبوں کی مالک اقوام پر غلبہ تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ فتح عارضی ثابت ہوتی ہے۔ بہت جلد عظیم تہذیبیں ان حملہ آور طاقت ور اقوام کو نگل جاتی ہیں جو فوجی طور پر برتر لیکن تہذیبی لحاظ سے کہیں کم تر ہوتی ہیں۔
قبلائی خان نے چین کو غلام بنایا لیکن اس کا ایسا اسیر ہوا کہ واپس منگولیا نہیں گیا، اسی طرح مغل ہندوستان آئے، اس کے سحر میں اتنے گرفتار ہوئے کہ وہیں کے ہوکر رہ گئے اور واپس اپنے وطن نہیں گئے جہاں سے وہ بڑے طمطراق سے ہندوستان آئے تھے۔ غالباً اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو ملک عظیم تہذیبوں کے مالک ہوتے ہیں ان میں داخل ہونے کے ایک نہیں کئی راستے ہوئے ہیں لیکن وہاں سے باہر نکلنے کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا۔
نو آبادیاتی دور میں برطانیہ نے دنیا کے بہت سے ملکوں کو فتح کرکے انھیں اپنا غلام بنایا اور ان اقوام کو اپنے رنگ میں رنگ لیا جو تہذیبی حوالے سے زیادہ امیر نہیں تھیں، لیکن ہندوستان میں برطانیہ کو اس نوعیت کی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اس نے اسلحے اور باردو کی طاقت پر برصغیر پر قبضہ کیا۔ تاہم، اسے اس خطے کی تہذیب نے اپنے جال میں ایسا جکڑا کہ وہ اب تک اس سے آزاد نہیں ہوسکا ہے۔
نو آبادیاتی دورانجام کو پہنچا۔ محکوم اقوام نے آزادی کا ذائقہ چکھا، سرد جنگ کے زمانے میں انھیں تلخ تجربات سے گزرنا پڑا لیکن بالآخر جمہوریت کو بالادستی حاصل ہونے لگی۔ آج دنیا کے زیادہ تر ملک جمہوری نظام کے تجربے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بہت کم ملک ایسے ہیں جہاں شخصی، فوجی آمریتیں یا بادشادہتیں قائم ہیں لیکن برما اور عرب ملکوں سے جو خبریں آرہی ہیں ان سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب وہاں بھی آمرانہ حکومتوں کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔
جمہوریت میں لاکھ خرابیاں ہوں گی لیکن اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں آباد تمام شہریوں کو رنگ، نسل، قوم، مذہب یا مسلک کی تفریق سے بالاتر ہوکر مساوی حقوق دیتی ہے۔ آج تاریخ کا سفر اس مرحلے میں داخل ہوگیا ہے جہاں جمہوریت ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔ بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر تمام شہریوں کو بلاتفریق یکساں حقوق دینے کے سماجی اور معاشی ثمرات آج خود ہمارے خطے کے بہت سے ملکوں میں صاف نظر آتے ہیں۔
جمہوریت بھی ارتقا کے اصولوں کے مطابق آگے بڑھتی ہے۔ جب یہ نظام اختیار کیا جانے لگا تو اس کے کئی منفی پہلو بھی سامنے آئے۔ کثیر قومی ملکوں میں یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ جس قومیت کو عددی طور پر دوسروں پر برتری حاصل تھی اس نے جمہوریت کے ذریعے آمرانہ طور طریقے اختیار کرنے شروع کردیے اور اقلیتی قومیتوں پر بالادستی حاصل کرلی۔ اس مسئلے کا حل دو ایوانی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے ذریعے نکالنے کی سعی کی گئی جو بڑی حد تک کامیاب اور کارگر ثابت ہوئی۔
ایواں زیریں (قومی اسمبلی) کے لیے نمایندوں کا براہ راست انتخاب کیا جانے لگا جب کہ ایوان بالا (سینٹ) میں صوبوں یا وفاقی اکائیوں کو مساوی نمایندگی دی گئی اور صوبوں کے ذریعے اس ایوان کے نمایندوں کا انتخاب کیا جانے لگا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کسی کثیر قومی ملک میں اگر کوئی صوبہ یا قوم اکثریت میں ہونے کا غلط اور من مانا فائدہ اٹھانا چاہے تو اسے ایسا کرنے سے روکا جاسکے۔ ملکوں کواس تجربے کا بے پناہ فائدہ حاصل ہوا۔ کثیر قومی ملکوں میں اس سے سیاسی استحکام پیدا ہوا اور انھیں کسی بڑے خطرے یا خانہ جنگی سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔
ہمارا ملک بے پناہ مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں خوب صورت تنوع موجود ہے لیکن اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جائے کہ ہم نے استعمار سے آزادی کا وہ فائدہ نہیں اٹھایا جو ہر صورت اٹھایا جانا چاہیے تھا۔ اولین تقاضا یہ تھا کہ ملک میں حقیقی معنوں میں ایک وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام قائم کیا جاتا جو نہیں کیا گیا اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے۔ اس زمینی اور تاریخی حقیقت کو قبول کرنے سے انکار بھی کیا گیا نو تخلیق پاکستان میں ایک نہیں بلکہ کئی قومیتیں آباد ہیں۔
مسلمان اکثریتی صوبوں میں بنگالی، سندھی، پنجابی، بلوچی اور پختون مسلمان رہتے تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ان تمام قومیتوں کی تہذیب اور شناخت کو راتوں رات آمرانہ طرز عمل کے ذریعے ختم کردیا جائے؟ کثرت یعنی تنوع کو جبر اور استبداد کے ذریعے وحدت میں تبدیل کرنے کا غیر فطری اور خطرناک اقدام کیا گیا۔ تنوع کو ختم کرنے کے لیے آمریت ضروری ہے کیوں کہ جمہوریت کثرت، تنوع اور رنگارنگی کو نہ صرف تسلیم کرتی ہے بلکہ اسے مثبت انداز میں فروغ بھی دیتی ہے۔ 1958 کا مارشل لاء طاقت کے ذریعے کثرت کو وحدت میں بدلنے کی ناکام کوشش تھی۔
جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان 12 سال تک ملک پر حکمران رہے اور ملک کو دو لخت کرکے دنیا سے رخصت ہوئے۔ کیا قباحت تھی اگر بنگالی کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کرنے میں تاخیر نہ کی جاتی، کیا عذاب نازل ہوجاتا جو ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام قائم کرکے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دے دی جاتی؟ یہ دانش مندانہ فیصلہ کرلیا جاتا تو انسانی تاریخ میں یہ مظہر بھی وقوع پذیر نہ ہوتا کہ ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی انتہائی مایوس اور دل شکستہ ہوکر اپنی راہیں الگ کرلیتی۔
سوال یہ ہے کہ ہم نے مذکورہ بالا تلخ تجربے سے کیا سیکھا؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ 1973 کا آئین ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنے کی ایک جرات مندانہ کوشش تھی۔ ابھی اس آئین کے تحت موجودہ پاکستان میں آباد وفاقی اکائیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کے سفر کا آغاز ہی کیا تھا کہ جنرل ضیاالحق نے آئین معطل کرکے ملک میں موجود قومیتی تنوع کو جبراً ختم کرکے اسے وحدت میں بدلنے کی روش کا دوبارہ آغاز کردیا۔
جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے آمرانہ نظام نے وفاقی اکائیوں کو دوبارہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا، شدت پسند خیالات کو فروغ ملا، مرکز مضبوط اور وفاق کمزور ہونے لگا۔ جب حالات سنگین رخ اختیا کرنے لگے تو 2008 میں مجبور ہوکر انتخابات کرائے گئے۔ دو جمہوری حکومتیں اقتدار میں آئیں، ان کے پاس اختیارات کم تھے لیکن اس کے باوجود ان دونوں جمہوری حکومتوں کے 10 سالہ دور کا سب سے بڑا کارنامہ 18 ویں ترمیم تھی جس کے ذریعے صوبوں کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوگئے۔ صوبائی خود مختاری پنجاب کی بھی ضرورت تھی لہٰذا ملک کے چھوٹے صوبوں کے ساتھ پنجاب نے بھی اس کا خوب فائدہ اٹھایا جس کا اندازہ وہاں ہونے والی ترقی سے لگایاجاسکتا ہے۔
یہ احساس فروغ پارہا ہے کہ بعض حلقے 18 ویں ترمیم والے موجودہ وفاقی پارلیمانی نظام سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ آج دنیامیں جمہوری نظام اختیارات کے زیادہ سے زیادہ عدم ارتکاز کی جانب بڑھ رہا ہے۔ طاقت اور اختیارکو ایک جگہ مرتکز کرنے کے ہولناک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اس غلط تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسی کوئی تباہ کن تجویز کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہے۔