Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Gul Makai Se Zindagi Tamasha Tak

Gul Makai Se Zindagi Tamasha Tak

وہ جب اسے اپنے تئیں ہلاک کر رہے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ بارود بھری جن گولیوں کو اس کے بدن میں اتار رہے ہیں تو دراصل بدی کو ختم کر رہے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ جسے وہ بدی کا نمایندہ سمجھ رہے ہیں، وہ دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کا استعارہ بن کر ابھرے گی۔

اپنے حسابوں انھوں نے جسے قتل کر دیا ہے وہ لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی خود مختاری کے لیے جدوجہد کا ایک بڑا نام بن جائے گی۔ دنیا میں وہ جہاں بھی جائے گی۔ اس کی جی داری کی داستانیں اس سے پہلے پہنچیں گی۔ وہ بہ طور خاص نوجوان مسلمان لڑکیوں کے لیے رول ماڈل بن جائے گی۔

ملالہ کی کہانی کا آغاز سوات کے ان دنوں سے ہوتا ہے جب انتہا پسندوں نے اس علاقے کو بندوق کی نال سے فتح کر لیا تھا اور وہاں رہنے والے پُر امن لوگوں کو ان کے گھروں سے کھدیڑکر نکال دیا تھا۔ ملالہ کے والدین اور بھائی بہن نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس المناک صورتحال سے لڑنے کی ملالہ نے یہ سبیل نکالی کہ وہ " گل مکئی" کے فرضی نام سے ڈائری لکھنے لگی۔ یہ اس کے خاندان اور اس کے ساتھ رہنے والوں کی آزمائشوں کا قصہ تھا۔" گل مکئی" کی ڈائری بی بی سی اردو سروس کے ہاتھ لگی اور وہاں سے نشر ہوئی، کسی کو یقین نہ آیا کہ یہ ڈائری نو دس برس کی بچی نے لکھی ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد گل مکئی کے پردے میں چھپی ہوئی ملالہ یوسف زئی لوگوں کے سامنے آگئی۔

مقامی صحافیوں نے بی بی سی کے لیے اس کے انٹرویو کیے۔ بلاگ پر اس کی ڈائری کے جملے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ایسے علاقے میں امن کا اور بچوں کی تعلیم کے حق کا استعارہ بن گئی جہاں ہر طرف دہشتگرد دندناتے پھرتے تھے۔ وہ ملک میں اور ملک سے باہر مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے بلائی گئی۔ اسے مختلف اعزازات دیے گئے اور جب سوات کے حالات بہتر ہوئے اور سواتیوں کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوئی تو ملالہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر کو آئی، اس کی سہیلیاں بھی لوٹ آئی تھیں۔ اسکول پھر سے آباد ہوئے۔ بچوں کی چہکار سے علاقہ گونج اٹھا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے نا قابل برداشت تھی جو سوات سے لے کر سرگودھا تک اپنی شریعت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ملالہ کو دھمکیاں دیں لیکن جب اس نے ان کی ایک نہ سنی تو اسے اور اس کی ساتھی لڑکیوں کو اسکول سے واپس آتے ہوئے خون میں نہلا دیا گیا۔

ملالہ کی زندگی آج کیا مغرب اور کیا مشرق سب ہی کو معلوم ہے۔ لوگوں کو یہ بھی یاد ہے کہ ملالہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں ہمارے کئی جید علما نے اور سونامی کی طرح آنے اور چھا جانے والے رہنما نے کیسے کیسے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش نہ کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ خدا جانے یہ واقعی طالبان ہیں بھی یا کچھ لوگ انھیں بد نام کرنے کے لیے ان کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ وہ ایسا کہنے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ ملالہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں نے نہ صرف اس حملے کی ذمے داری فوراً ہی قبول کرلی تھی بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ہمیں جب بھی موقع ملا ہم اسے قتل کرکے رہیں گے۔

ملالہ نے موت کا جس دلیری سے سامنا کیا، وہ اس کے اندر لڑنے کی بے پناہ صلاحیت کا اشارہ ہے۔ اس کو فرسٹ ایڈ مہیا کرنے والے ڈاکٹروں اور اس وقت کے صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کو داد دینی چاہیے جنھوں نے انتہا پسندوں کے خوف اور دبائو میں آئے بغیر ملالہ کو ممکنہ حد تک بہترین طبی سہولتیں فراہم کیں۔ ایئر ایمبولینس کا اہتمام کیا، اسے متحدہ عرب امارات بھجوایا جہاں سے حکومت برطانیہ نے ملالہ کے دماغ کے نہایت نازک اور پیچیدہ آپریشنوں اور علاج کی ذمے داری اٹھائی۔ ان تمام افراد اور اداروں کی ستائش کے لیے لفظ نہیں ملتے۔

اس پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں نے اس کی حتمی موت کا پروانہ لکھ دیا تھا لیکن وہ موت کے پنجے سے جس طرح نکل کر آئی، وہ یقیناً کسی معجزے سے کم نہیں۔ آج وہ پاکستان کے لیے باعث افتخار ہے۔ اسے جو اعزازات اور انعامات دیے گئے ان کی فہرست روزانہ طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اسے امن کا نوبل انعام دیا گیا جس کے بعد وہ دنیا بھر میں مشہور ہوگئی۔ اس نے اقوام متحدہ میں نوجوانوں کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور اپنے ہر جملے پر داد وصول کرتی رہی۔ اس کا شمار دنیا کے با اثر ترین نوجوانوں میں کیا جاتا ہے۔

نوجوانوں کی اسمبلی میں اس نے کہا تھا کہ میں دنیا کی ہر بچی اور بچے کے تعلیمی حق کے لیے آواز بلند کرتی رہوں گی۔ میں تمام انتہا پسندوں اور طالبان کی بچیوں اور بچوں کے لیے بھی تعلیم کے حق کی طلب گار ہوں۔ اسی روز اس نے کہا تھا کہ ہم سوات میں تھے اور ہم نے بندوق والوں کو دیکھا تب ہم نے قلم اور کتاب کی طاقت کو جانا۔ ہم یہ بھی سمجھ گئے کہ انتہا پسندوں کو تعلیم سے اور خاص طور پر لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم سے کیوں خوف آتا ہے۔

برطانیہ میں اس کا علاج اس اسپتال میں ہوا جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران محاذ جنگ پر شدید زخمی ہونے والے فوجیوں کے آپریشن ہوتے تھے اور ان کا علاج ہوتا تھا۔ ملالہ کی کھوپڑی کا پچھلا حصہ مصنوعی ہے، مہینوں تک اس کی اسپیچ تھراپی ہوتی رہی ہے۔ اس نے شدید جسمانی تکالیف سہی ہیں لیکن دنیا نے بھی اس پر دادو دہش کی بارش کی ہے۔ وہ پاکستان کے لیے مایۂ افتخار ہے۔

انتہا پسندوں کو ملالہ سے کس قدر خوف آتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ایچ ای امجد خان نے اس کی زندگی پر ایک فلم بنائی جس کا نام " گل مکئی" تھا۔ یہ فلم 9جنوری2019 کو ریلیز ہونی تھی لیکن اس سے پہلے ہی امجد خان کو انتہا پسندوں کی طرف سے دھمکیاں ملنے لگیں اور یہ کہا جانے لگا کہ اگر یہ فلم ریلیز کی گئی تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ سال گزر گیا لیکن یہ فلم ابھی تک سینما گھروں میں پیش نہیں کی جا سکی ہے، تاہم اقوام متحدہ کی طرف سے اسے لندن میں دکھایا گیا۔ امجد خان کا کہنا ہے کہ جب یہ فلم دکھائی جا رہی تھی تو ملالہ کے والد اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں امجد خان سے کہا کہ " آپ نے ہم پرگزرنے والے دہشت ناک دنوں کو ہمارے لیے پھر سے زندہ کر دیا ہے۔" فلم دیکھتے ہوئے ملالہ کے لیے بھی اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔

اس فلم کی تیاری میں بڑے مشکل مرحلے گزرے۔ امجد خان نے ایک بنگلہ دیشی لڑکی فاطمہ کو ملالہ کا کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کیا لیکن انتہا پسندوں نے بنگلہ دیش میں اس لڑکی کا جینا حرام کر دیا۔ وہ اس کے گھر پر سنگ باری کرتے اور اسے قتل کی دھمکیاں ملتیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فاطمہ نے ملالہ کا کردار ادا کرنے سے انکارکر دیا۔ فاطمہ کے بعد ریم شیخ نے اس کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری۔ امجد خان کا کہنا ہے کہ ریم شیخ نے خود کو ملالہ کے کردار میں یوں سمویا کہ حیرت ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریم شیخ اور امجد خان کب موت کی ان دھمکیوں کا دبنگ انداز میں سامنا کرتے ہیں اور سینما گھر کے مالکان بھی جان پر کھیل کر "گل مکئی" کو اپنے سینما گھروں میں دکھانے کی اجازت دیتے ہیں۔

ہمارا سماج چند انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ کبھی وہ " گل مکئی" کو دکھانے پر قتل کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں اور کبھی سرمد کھوسٹ کی فلم " زندگی تماشا " کی جان کو آجاتے ہیں۔ تعداد میں یہ لوگ مٹھی بھر ہیں لیکن دوسری طرف وہ لوگ لاکھوں کروڑوں میں ہیں جو کھلے ذہن کے ساتھ ان فلموں یا ڈراموں کو دیکھناچاہتے ہیں۔ ان کے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسے کیوں نہ دیکھیں اور اپنے آزاد ذہن کے ساتھ ان معاملات پر غورکیوں نہ کریں۔ جنھوں نے ہمارے سماج کو یرغمال اور زندگی کو واقعی ایک تماشا بنا رکھا ہے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.