ان سے پہلی ملاقات سبط حسن صاحب کے لان پر ہوئی تھی۔ مختصر قد کے ایک منکسر المزاج آدمی۔ یہ ابن عبدالرحمان تھے جو ساری دنیا میں آئی اے رحمان کے نام سے مشہور تھے۔
انھوں نے علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی، پاکستان آئے تو صحافت سے وابستہ ہوئے اور پھر یہ وابستگی انھیں ایک ایسے خار زار میں لے گئی جس کے کانٹے روز بہ روز نوکیلے اور زہریلے ہوتے گئے۔
رحمان صاحب خود کو گنگا جمنی تہذیب کا نمایندہ کہتے تھے۔ ان کی رواداری اور انکساری انھیں ایک من موہنی شخصیت بنا دیتی تھی۔ وہ حسن پور، ہریانہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ بٹوارا ہوا تو پاکستان آگئے۔ یہاں سے ان کی وہ زندگی شروع ہوئی جو بہت سے لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئی۔
آج پاکستان بھر میں ان کے کتنے ہی دوست، شاگرد اور چاہنے والے پھیلے ہوئے ہیں، وہ ان کی جدوجہد اور ان کی زندگی پر رشک کرتے ہیں۔ ان کی چھتر چھایا میں کتنے ہی لوگوں نے اپنے قامت نکالے۔ رحمان صاحب سب کو مسکرا کر دیکھتے رہے، ان کی ہمت افزائی کرتے رہے۔ ان کے لیے خوش دلی سے توصیفی کلمات کہتے رہے۔ وہ لوگ جو ان جیسا بننا چاہتے تھے، ان میں وہ ہمت نہیں تھی کہ آمروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکیں اور سچ بول سکیں۔
انھوں نے جنرل ایوب کی آمریت کا دور گزارا، جنرل ضیا الحق کے زمانۂ اقتدار میں وہ بے نوا پاکستانیوں کی آواز بن گئے اور جنرل مشرف کی آمریت بھی انھوں نے سر اٹھاکر گزاری اور اپنے بعد والوں کو یہ سبق دیا کہ آمر بغل میں کتے دبا کر آئے یا شیروانی پہن کر، وہ ہوتا آمرہی ہے اور اپنے بوٹوں سے انسانی حقوق کو روندتا چلا جاتا ہے۔
انھوں نے پاکستانی اقلیتوں اور عورتوں کے لیے ہر لمحہ آواز بلند کی، ان کا قلم کبھی ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے نہیں جھجکا، وہ پاکستان، ہندوستان کے درمیان بہتر اور بہترین تعلقات کے خواہاں تھے۔ زندگی کے آخری تیس برس ان کے اسی جدوجہد میں گزرے۔ انھوں نے ہندوستانی دانشور اور صحافی کلدیپ نائیر کی رخصت پر ایک کالم A Champion of Peace لکھا۔ یہ کالم 2 ستمبر 2018 کو روزنامہ "ڈان" میں شایع ہوا۔ رحمان صاحب کی رخصت کے بعد اس کالم کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے بعض حقائق کو چھوڑ کر وہ اپنا ہی وفاتیہ لکھ رہے ہیں۔
رحمان صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو یہ جانتے تھے کہ خطے سے غربت، بیروزگاری اور جہالت کا خاتمہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب پاکستان اور ہندوستان مشترک طور پر امن کو اپنا نصب العین بنائیں اور خطیر رقم غیر ترقیاتی شعبوں پر خرچ کرنے کے بجائے عام لوگوں کی بہبود پر خرچ کریں۔ ان ہی خوابوں کی تعبیر کے لیے انھوں نے پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیماکریسی بنائی جس میں ان کے بہت سے ہم خیال شریک تھے۔ 1990 سے عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے ساتھ انھوں نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی جو آج بین الاقوامی سطح پر ایک مؤقر ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی ناوقت موت کے بعد یہ رحمان صاحب اور حنا جیلانی تھے جنھوں نے اس ادارے کی سربراہی کی۔
ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے انھیں خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے بجا طور پر کہا کہ وہ جمہوریت، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے وکیل تھے اور آمروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔
رحمان صاحب کم عمر بچوں سے مشقت لینے کے سخت خلاف تھے، انھوں نے ان بچوں کے حق کے لیے آواز بار بار اٹھائی تھی جو خطرناک ماحول میں کام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ٹی بی کا شکار ہوجاتے ہیں اور آخر کار نہایت اذیت ناک زندگی اور موت ان کا مقدر ہوتی ہے۔
پاکستان میں فاشزم کا معاملہ بہت زیر بحث رہا اور رہتا ہے۔ رحمان صاحب نے اس موضوع پر کھل کر لکھا کہ "یورپین فاشسٹ ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ مثلاً جرمن نازی کفایت شعاری پر عمل کرتے تھے جب کہ اطالوی فاشسٹ فضول خرچ تھے۔ جرمن نازی اقربا پروری کے خلاف تھے لیکن مسولینی کی کابینہ میں اس کے دوست اور عزیز بھرے ہوئے تھے۔
جرمن دنیا کی بڑی طاقتوں سے دنیا کی سیاست میں اپنے حصے کا طلب گار تھا جب کہ اطالوی فاشسٹوں نے اپنی فوجی طاقت کے مظاہرے کے لیے افریقا کی ایک غریب اور کم حیثیت مملکت ایتھوپیا کو اپنا نشانہ بنایا اور اس کو زیر کرکے اپنی فوجی طاقت کو ثابت کردیا۔ ان دونوں فاشسٹ حکومتوں میں یہ رویہ مشترک تھا کہ وہ عظیم الشان جلسوں، جلوسوں میں یقین رکھتے تھے اور دونوں فاشسٹ رہنما اس میں عظیم دانش کا منبع اور مرد آہن ہونے کا مظاہرہ کرتے تھے۔
فاشسٹ رہنمائوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ قانون کی قسم کھاتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ان کے قوانین کتنے غلط ہیں۔ اپنے پہلے مرحلے میں وہ گلی کے غنڈوں پر بھروسہ کرتے ہیں جو ان کے سیاسی مخالفین کا جینا حرام کردیتے ہیں لیکن جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو وہ اختلاف رائے کو عوام اور ریاست کے تحفظ کے نام پر کچلتے ہیں۔
بعداز نو آبادیاتی دنیا میں، نو آزاد مملکتوں میں سے کئی نے یہ چلن اختیار کیا۔ اگر آج آپ کو کوئی سیاسی رہنما پرانے قوانین کی قسم کھاتا ہوا اور ایک Cult Figure کے طور پر ابھرتا ہوا نظر آئے تو جان لیجیے کہ وہ عنقریب فاشزم کی راہ اختیار کرنے والا ہے۔"
رحمان صاحب نے یہ سطریں 31 دسمبر 2020 کو لکھی تھیں۔ اب یہ سمجھنے والوں پر ہے کہ ان کے اشارے کس طرف تھے اور وہ ہمیں کیا بتارہے تھے۔
پاکستان میں ہزارہ جس طرح بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور تھر کے رہنے والوں پر جو ستم ٹوٹتے ہیں، ان سے ہم میں سے اکثر واقف ہیں۔ رحمان صاحب ان لوگوں کے بارے میں کھل کر لکھتے اور پاکستانی سماج کو اکساتے کہ وہ ان بے آسرا لوگوں کے انسانی حقوق کے بار ے میں سوچیں اور اپنی آواز بلند کریں۔ ان کے کئی کالم ہمیں ان لوگوں کے بارے میں ملتے ہیں جن میں وہ صحرا کی پیاس اور وہاں کھلنے والے پھولوں کی خوشبو کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
انھوں نے ہمیشہ قیدیوں اور بہ طور خاص موت کے قیدیوں کے بارے میں آواز بلند کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی انسان ہیں اور ان کے بھی حقوق ہیں، وہ چونکہ اپنے حقوق کے بارے میں آواز بلند کرنے کے قابل نہیں، اس لیے ہم جو آزاد ہیں، ہمیں ان کی زندگی کے بارے میں سوچنا چاہیے اور ان کے جینے کے حق کے بارے میں آواز بلند کرنی چاہیے۔
وہ عموماً انگریزی میں لکھتے تھے، انگریزی بولتے تھے، مغربی لباس پہنتے تھے لیکن اندر سے وہ ایک صوفی تھے۔ کسی تکیے پر نہیں بیٹھے اور نہ انھوں نے کوئی درگاہ آباد کی لیکن اس عہد میں ان سا بڑا صوفی کون ہوگا جو نوے برس تک زندہ رہا اور جس کا دل ان کے لیے دھڑکتا رہا جن کے پیر ننگے تھے، جن کا لباس بوسیدہ تھا اور جن کے معدے اور انتڑیوں میں بھوک رہتی تھی۔