برطانیہ جن چار علاقوں پر مشتمل ہے اس میں اسکاٹ لینڈ بھی شامل ہے۔ اپنی خوبصورت آبشاروں، جھیلوں، پہاڑوں اور سرسبز وادیوں، پھولوں اور جنگلی حیات کے باعث اس کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہاں نصف کروڑ سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ جن کی غالب اکثریت سفید فام ہے۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہماری زندگی کی کئی نہایت اہم چیزیں یہاں بنائی گئی تھیں۔ ٹرین کا آغاز 1824 میں یہیں سے ہوا تھا۔ ٹیلی فون کی ایجاد بھی 1875 میں اسکاٹ لینڈ سے ہوئی تھی۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں ٹیلی وژن کا آغاز بھی سب سے پہلے 1925 میں یہی سے ہوا تھا۔ دنیا کا مقبول ترین کھیل فٹ بال کی تاریخ کا پہلا باضابطہ میچ اسکاٹ لینڈ میں منعقد ہوا تھا۔ گالف کا آغاز یہاں سے تو نہیں ہوا تھا البتہ جدید گالف کا کھیل یہیں سے شروع ہوا تھا۔ اسکاٹ لینڈ میں گھنے جنگل یا پیڑ نہیں پائے جاتے، اسی وجہ سے یہاں کے زیادہ تر گھر پتھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ دنیا کا قدیم تر درخت بھی اسکاٹ لینڈ میں موجود ہے جو لگ بھگ پانچ ہزار سال پرانا ہے۔
اس دلچسپ حقیقت کا ذکر بھی ضروری ہے کہ دنیا کی سب سے مختصر اور چند کلومیٹر کی ہونے والی پرواز بھی اسکاٹ لینڈ سے ہوتی ہے جس کا دورانیہ صرف 47 سیکنڈ ہے۔ اسکاٹ لینڈ فنون لطیفہ اور علم و سائنس کے حوالے سے بھی منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس وقت اسکاٹ لینڈ کے ذکر کا ایک خصوصی حوالہ ہے۔
کورونا وائرس کا خوف پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور پاکستان سمیت ہر ملک تاریخ کی اس مہلک ترین وبا سے خود کو بچانے میں مصروف ہے۔ اس وقت مجھے اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر گلاسگو یاد آرہا ہے۔ اس شہر کی ایک غریب بستی میں 1930 میں ایک بچی کا جنم ہوا۔ اس کے والدین بہت غریب تھے، گھر کا گزر اوقات بڑی مشکل سے ہوتا تھا۔ اس بچی کے والدین بس ڈرائیور تھے۔ انھوں نے اپنی بچی کو تعلیم دلانے کی کوشش کی لیکن مالی پریشانیوں اور مجبوریوں کی وجہ سے یہ لڑکی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکی اور اسے مجبوراً تعلیم ترک کرنی پڑی۔ اسے وائرولوجی کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا۔ یہ وہ علم ہے جس میں وائرس سے پیدا ہونے والے امراض کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
بچی چاہتی تھی کہ وہ وائرلوجی کی ماہر بن جائے۔ غربت اس کے آڑے آئی اور وہ اپنے پسندیدہ شعبے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہی۔ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے ملازمت کرنی پڑی اور اس نے 16 سال کی عمر میں گلاسگو کی ایک لیب میں بطور ٹیکنیشن کام کرنا شروع کردیا۔ جس کے عوض اسے ہر ہفتے 25 شلنگ ادا کیے جاتے تھے۔
اپنے شہر کی لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے اس کے اندر وائرس کے بارے میں جاننے کا زیادہ سے زیادہ شوق پیدا ہوا۔ وہ اپنی زندگی دوسرے لوگوں کی طرح گلاسگو اور اسکاٹ لینڈ میں ہی ملازمت کرتے ہوئے گزار سکتی تھی لیکن اس کے شوق نے اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ امیر اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتی جس کی وجہ سے وہ پیشہ وارانہ طور پر کوئی بڑا کیرئیر شروع نہیں کرسکے گی۔ یہ جانتے ہوئے بھی اس نے گلاسگو ہی نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ چھوڑ کر لندن جانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ 1954 میں لندن پہنچی۔ لندن میں وہ وینزویلا کے ایک آرٹسٹ ایزک المیڈا کے عشق میں گرفتار ہوگئی اور اس سے شادی کرلی جس سے اس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ جون المیڈا برطانیہ سے نقل مکانی کرکے کینیڈا چلی گئی۔ اگرچہ اس نے اپنے شعبے میں اعلیٰ تعلیم اور ڈگری حاصل نہیں کی تھی لیکن اس کی ذہانت اور غیر معمولی مہارت کی وجہ سے اسے انٹاریو انسٹیٹیوٹ آف کینسر ریسرچ میں ملازمت کی پیش کش کی گئی جو اس نے بخوشی قبول کرلی۔
اس انسٹیٹیوٹ میں اس نے الیکٹرون مائیکرو اسکوپی کے ٹیکنیشن کے طور پر کام کا آغاز کیا۔ جہاں جون المیڈا کو الیکٹرون خرد بینوں میں نئے فنی طریقہ کار متعارف کرانے کے مواقع ملے جس سے الیکٹرون مائیکرو اسکوپی کے ذریعے مریضوں میں وائرل انفیکشن کی تشخیص ممکن ہوسکی۔ اس دوران اس کے تحقیقی مقالے معتبر طبی جرائد میں شائع ہونے لگے اور پذیرائی ملنے لگی۔
جون المیڈا کی غیر معمولی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر برطانیہ نے اسے وطن واپس لانے کے لیے ترغیبات دیں اور وہ 1964 میں برطانیہ آگئی اور سینٹ تھامس اسپتال کے میڈیکل اسکول میں کام کرنا شروع کردیا۔ یہاں ڈاکٹر ڈیوڈ ٹائریل اور ان کی ٹیم فلو کے ایک نمونے کا تجزیہ کررہی تھی جسے "B814″ کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن اسے اس وائرس کی تیاری میں کامیابی نہیں مل رہی تھی، تمام روایتی ذرائع ناکام ہوچکے تھے اور محققین کا خیال تھا کہ یہ کوئی نیا وائرس آگیا ہے۔ ڈاکٹر ٹائریل (Tyrell) نے سوچا کہ کیوں نہ المیڈا کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ جون المیڈا نے ڈاکٹر ٹائریل کی امیدوں اور توقعات سے بڑھ کر نتائج دیے اور المیڈا نے اس وائرس کی ایک صاف تصویر تخلیق کرلی اور اس نئے وائرس پر مقالہ لکھا جسے جائزہ کاروں نے تسلیم نہیں کیا۔ تاہم، بعد ازاں المیڈا کی تحقیق کو مان لیا گیا۔
جون المیڈا الیکٹرانک خوردبین کے ذریعے سرمئی رنگ کے کانٹے دار گول اور انتہائی باریک وائرس کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی پہلی انسان تھیں۔ اس کی شکل سورج کے گرد نظر آنے والے روشنی کے ہالے جیسی ہے لہٰذا اسے کورونا کا نام دیا گیا۔ المیٹڈا کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کورونا وائرس کا پورا ایک خاندان دنیا میں موجود ہے جس میں 50 کے قریب وائرس شامل ہیں، لیکن ان میں سے محض 4 یا 5 ہی انسانوں کو ہلاک کرنے کی خطرناک صلاحیت رکھتے ہیں۔ کورونا خاندان کا جدید وائرس کووڈ 19 کہلاتا ہے۔ جو اس وقت پوری دنیا میں قیامت خیز تباہی پھیلا رہا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے محل نہیں ہوگا کہ جون المیڈا نے لندن کے جس سینٹ تھامس اسپتال کی تجربہ گاہمیں کورونا وائرس دریافت کیا تھا۔ آج اسی وائرس کے خاندان کے نئے وائرس میں مبتلا ہوکر برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی اسی اسپتال سے اپنا علاج کرایا ہے۔
جون المیڈا کا انتقال 2007 میں ہوا، اس وقت اس کی عمر 77 سال تھی۔ وہ اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک غیرمعمولی سائنسدان اور وائرس امیجنگ کی بانیوں میں تھیں۔ وہ انسان میں کورونا دریافت کرنے اور اسے دیکھنے والی پہلی سائنسدان تھیں۔ آج ان کو دنیا سے گئے 13 سال گزر چکے ہیں۔ نصف صدی پہلے انھوں نے وائرلوجی یعنی وائرس سے متعلق علوم میں جو انقلابی اور اہم ترین دریافتیں کی تھیں، انسان نے اسے بھلائے رکھا۔ آج نئے کورونا وائرس کووڈ 19 نے دنیا کو انھیں یاد کرنے پر مجبور کردیا ہے اور ان کا تحقیقی کام اس وقت بھی کام آرہا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہمیں اپنے محسن عام دنوں میں نہیں بلکہ مشکل کی گھڑی میں یاد آتے ہیں۔