قدرتی آفات ہوں، جان لیوا وبائیں یا بیماریاں ہوں، معاشی حالات کی خرابی، سیاسی بحران، دو ملکوں کے درمیان جنگ یا کسی بھی وجہ سے پیدا ہونے والی خانہ جنگی، سب کا بدترین نشانہ کمزور اور غریب طبقات بنتے ہیں۔
ان محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا، گھر والوں کو دو وقت کا کھانا کھلانے کے غذا نہیں ہوتی اور بیمار پڑ جائیں تو ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتے۔ ڈاکٹر کے پاس کسی سے قرض لے کر چلے بھی جائیں تو اس کی فیس ادا کرنے کے بعد اتنے پیسے نہیں بچتے کہ اس کی تجویز کردہ دوائیں خرید سکیں۔ معمولی سی بیماری بھی ایک غریب انسان کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
ذرا اندازہ لگائیں کئی لاکھ معصوم بچے ہر سال ڈائریا سے اس لیے مر جاتے ہیں کہ انھیں او آر ایس کے چند ساشے بھی دستیاب نہیں ہوتے۔ غریب جنگ میں پھنس جائیں تو جان بچا کر بھاگنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ زلزلہ اور سیلاب آ جائے تو ان کے خاندان کے خاندان سڑکوں پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں تا کہ حکومت یا کسی خیراتی ادارے کی جانب سے انھیں کھانا اور سر چھپانے کے لیے کوئی خیمہ میسر آ سکے۔
اس پس منظر میں غور تو کریں کہ کورونا ان کمزور اور کم وسیلہ انسانوں پر کیا عذاب ڈھا رہا ہو گا۔ وہ باہر نکلیں تو جان جاتی ہے، نہ نکلیں تو بھوک جان لیتی ہے اور حکومتیں ایک حد سے زیادہ کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، ترقی یافتہ ملک تو اپنے لوگوں کی کچھ مدد کرتے بھی ہیں لیکن غریب ملک جو سیاسی چپقلش اور مختلف نوعیت کے تضادات کا شکار ہوتے ہیں، وہ اپنے لوگوں کو قدرتی آفات اور وبائوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
دنیا میں کورونا کی وبا کا شکار اگر غریب افراد سب سے زیادہ ہو رہے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ تاہم، یہ وبا جس بڑے پیمانے پر لوگوں کی معاشی و سماجی زندگی تباہ و برباد کر رہی ہے، اس کا اندازہ بہت کم ماہرین کو تھا۔ عالمی بینک کا تجزیہ ہے کہ یہ وبا اسی سال کم سے کم 4 کروڑ 90 لاکھ لوگوں کو انتہائی غربت کے جہنم میں پھینک دے گی۔ یہ وبا ان لوگوں کو بھی انتہائی غربت میں دھکیل رہی ہے جو پہلے اتنے غریب نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں کہہ لیں کہ یہ " نئے غریب" ہیں، ان میں سے 2 کروڑ 30 لاکھ لوگوں کا تعلق سب صحارا افریقا سے اور 1 کروڑ 60 لاکھ افراد کا تعلق ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا سے ہے۔
غریب ملکوں کے زیادہ تر لوگ دیہات میں آباد ہیں، کورونا سے نسبتاً ان کو خطرہ کم ہے لیکن اس کے باوجود یہ وبا ان میں غربت پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ دیہاتوں کے لوگ شہروں میں نوکریاں کرتے ہیں۔ جب وہاں سے آنے والی ترسیلات میں کمی ہوتی ہے یا وہ بند ہو جاتی ہیں تو دیہات میں رہنے و الے ان کے والدین اور رشتہ دار مالی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر انتہائی غربت کے شکار لوگوں کی مدد محض ایک ڈالر روزانہ کے حساب سے کی جائے تو 30 دنوں کے اس کام کے لیے 20 ارب ڈالر یا 665 ملین ڈالر روزانہ کی ضرورت ہے۔
ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ورلڈ بینک کے بارے میں بہت منفی رائے پائی جاتی ہے، جو کتنی درست اور کس حد تک غلط ہے اس پر بحث ہمارا موضوع نہیں ہے۔ تاہم، یہ حقیقت ہے کہ یہ ادارہ آیندہ 15 ماہ میں 160 ارب ڈالر، وسیع تر معاشی پروگرام پر خرچ کرے گا۔ اس ادارے کو بجا طور پر یہ خدشہ ہے کہ کہیں اس وبا کے نتیجے میں بھیانک عالمی کساد بازاری نہ پیدا ہو جائے لہٰذا اس نے حکومتوں اور نجی کمپنیوں کو بلاتاخیر مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ یہ وبا دنیا کے غریب ترین اور معاشی طورپر کمزور ممالک کو سخت متاثر کر رہی ہے۔ اس لیے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے یہ عالمی ادارہ 65 ملکوں میں صحت کی سہولیات کو فوری طور پر بہتر بنانے کے اقدامات کر رہا ہے۔
پاکستان اور اس جیسے دیگر بہت سے کم آمدنی والے ملکوں کے لیے غیر ملکی ترسیلات بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی تقریباً 24ارب ڈالر اپنے خاندان والوں کو ہر سال بھیجتے ہیں، اس سرمائے سے فائدہ اٹھانے والوں میں زیادہ تر غریب اور نچلے متوسط طبقے کے افراد شامل ہیں۔ کورونا کی وبا سے بیرون ملک کام کرنے والے لاکھوں پاکستانی بیروزگار ہو چکے ہیں اور وہ وطن واپس آنے پر مجبور ہیں۔ انھیں وطن واپس لانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی کارکنوں کے بیروزگار ہونے سے لاکھوں گھرانوں کی آمدنی میں غیر معمولی کمی ہو جائے گی اور حکومت کو بھی زر مبادلہ کی کمی کا سامنا ہو گا۔
عالمی سطح پر اندازہ لگایا گیا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ملکوں کی غیر ملکی ترسیلات میں 19.7 فیصد کی کمی ہو جائے گی۔ جس سے غریب خاندانوں کے لیے زندگی گزارنی مشکل ہو جائے گی۔ ان ترسیلات کا بڑا حصہ کھانے پینے اور دیگر مصنوعات اور خدمات کے حصول کے لیے خرچ کیا جاتا ہے، اس کی طلب میں کمی سے معیشت کے یہ شعبے بھی بحران کا شکار ہو جائیں گے۔
پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے۔ اس خطے میں غیر ملکی ترسیلات میں 22 فیصد کی بھاری کمی ہونے کا امکان ہے جس کے بعد یہ رقم صرف 109 ارب ڈالر تک محدود ہو جائے گی۔ جنوبی ایشیا کے زیادہ تر لوگ امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور خلیج کے عرب ملکوں میں کام کرتے ہیں جن کی معیشتیں سخت متاثر ہوئی ہیں۔ اس لیے مستقبل میں یہاں سے کم زرمبادلہ پاکستان آئے گا اور ہمارے ملک میں "نئے غریبوں " کا ایک بڑا طبقہ پیدا ہو جائے گا۔
کورونا وائرس شکار کرتے وقت یقیناً لوگوں کے طبقے اور حسب نسب کو نہیں دیکھتا لیکن کم آمدنی والے علاقوں میں لوگوں کے زیادہ مرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ صحت پر زیادہ پیسہ خرچ نہیں کر سکتے، کم تر معیار زندگی اور گنجان علاقوں میں رہنے کے باعث ان کے لیے اس وائرس سے خود کو محفوظ رکھنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ امریکا اور یورپ جیسے ملکوں میں یہ طبقہ کورونا کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ یہ لوگوں کا وہ طبقہ ہے جو امریکا جیسے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت اور اعلیٰ ترین صحت کے نظام اور جدید ترین دوائوں کے باوجود زیادہ بڑی تعداد میں کورونا سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
یہ سب جانتے ہیں کہ سیاہ فام افریقین امریکی معاشی پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس وبا میں ان کی ہلاکتوں کی شرح بھی دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔ سیاہ فام امریکی، امریکا کی کل آبادی کا صرف 13 فیصد ہیں لیکن کورونا سے ہلاک ہونے والوں میں 33 فیصد یہ لوگ ہیں۔ وسکانسن میں صرف 6.7 فیصد سیاہ فام امریکی رہتے ہیں لیکن اس وائرس سے مرنے والوں کی 36 فیصد تعداد سیاہ فاموں پر مشتمل ہے، جب کہ جارجیا میں 90 فیصد مرنے والے افریقین امریکی ہیں۔ یہی صورتحال دوسرے شہروں کی بھی ہے۔ امریکا میں سب سے زیادہ اموات جن 13 بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں سیاہ فام لوگوں کی اکثریت ان میں سے 8بیماریوں کا شکار رہتی ہے جس سے ان کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اوروہ کورونا سے جلد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
کورونا وائرس امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں کرتا لیکن ہم انسانوں کو امیر اور غریب بناتے ہیں، لہٰذا جب کورونا جیسی کوئی وبا آتی ہے تو حکومتیں خود قربانی دینے کے بجائے غریبوں کو وبائوں کے حوالے کر دیتی ہیں، وہ زندہ رہیں یا مر جائیں، وہ جانیں اور وبا جانے۔ شاید اسی لیے کہا گیا ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات