اردو ہی نہیں عالمی ادب کے ایک منفرد افسانہ نگار سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912ء کو امرتسر میں آباد ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارے میں جس قدر لکھا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی دوسرے افسانہ نگار کے بارے میں لکھا گیا ہو گا۔ اس موقع پر مجھے ایک گمنام ادیب حسن عباس کا لکھا ہوا خاکہ یاد آتا ہے وہ 1930ء کی دہائی میں زندگی کرنے والے منٹو کا تعارف کچھ اس طرح کراتے ہیں۔
ایک دبلے پتلے چھریرے بدن کے لڑکے نے مسلم ہائی اسکول امرتسر میں ایک اودھم سا مچا رکھا تھا۔ اس کے ہم جماعت اسے ٹومی کہہ کر پکارتے تو اس کی کشتی نما آنکھوں میں کھٹی میٹھی شرارتیں جھلکیاں لیتی نظر آتیں۔ گورا چٹا رنگ، ذرا کھلتی ہوئی پیشانی، کتابی چہرہ، باچھیں کھلی ہوئی سی، ناک کی پھنگی پرتل کا نشان وہ اکثر سفید پتلون نما پاجامہ قمیص یا کھدر کا کرتا پہنے اپنی نئی سائیکل اور مووی کیمرہ لیے اسکول کے آس پاس پھرتا رہتا۔ وہ اسکول کے متعلق نت نئی خبریں ایجاد کرتا اور موٹے موٹے شلجم کے ٹکڑوں پر کاپنگ پینسل سے لکھے ہوئے الٹے حروف کو کسی محلول کی مدد سے کاغذ کے پرزوں پر چھاپ کر علی الصبح نوٹس بورڈ پر چسپاں کردیتا۔ موقع پاتا تو ایک پرزہ ہیڈ ماسٹر کی جیب میں بھی ڈال دیتا۔
اس کی حرکتوں سے اسکول کی چار دیواری میں اکثر ایک ہنگامہ سا برپا رہتا۔ ایک اتفاقی ملاقات میں ہم دونوں باتوں باتوں میں آپس میں گھل مل گئے اور میں محض اس کی خاطر اپنا اسکول تبدیل کرکے اس کا ہم جماعت بن گیا… اسے ہالی ووڈ کی اداکارہ گریٹا گاربو اور خاص کر مارلیم ڈیٹرش سے ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے والہانہ عقیدت تھی۔ اس کا سیلو لائڈ کی ان طلسمی صورتوں سے لگاؤ کچھ دیر پا ثابت نہ ہوا اور اشتراکی ادیب باری علیگ کی رفاقت کی وجہ سے وہ دفعتہ ادب کی طرف متوجہ ہوا اور ایک بوسیدہ کوچ پر لیٹے لیٹے اس نے دنوں میں وکٹر ہیوگو، فلابیئر، موپساں، ترگنیف، میکسم گورکی، دوستو فسکی، چیخوف اور دوسرے شہرہ آفاق مفکروں کی تخلیقات کا بخوبی مطالعہ کرلیا۔ منٹو آسکر وائلڈ سے سخت متاثر تھا۔
اس نے اپنا پہلا طبع زاد افسانہ ’تماشا، لکھا جو جلیا نوالہ باغ کے خونی حادثے سے متعلق تھا۔ ہم دونوں نے مل کر آسکر وائلڈ کے انقلاب روس سے متعلق مشہور ڈرامے ’ویرا، کا ترجمہ شایع کیا اور امرتسر کے بازاروں میں شہ سرخیوں سے بڑے بڑے پوسٹر لگادیے: "زاریت کے تابوت میں آخری کیل"… ظالم حکمرانوں کا عبرت ناک انجام"
یہ وہ زمانہ تھا جب بنگال میں دہشت پسندوں کی سرگرمیاں بڑے زوروں پر تھیں۔ بھگت سنگھ، دت اور چوہدری شیر جنگ اسی تحریک کے کرتا دھرتا تھے۔ پنجاب اسمبلی میں بم کے اچانک دھماکے نے صورت حال کو اور بھی بگاڑ دیا تھا۔ ہمارے پوسٹر کے منظر عام پر آتے ہی سی۔ آئی۔ ڈی فوراً حرکت میں آ گئی اور ہماری تلاش میں منٹو کے گھر کا رخ کیا۔ اتفاق سے ان دنوں اس کے بہنوئی خواجہ عبدالحمید انسپکٹر پولیس رخصت پر آئے ہوئے تھے اور ا سی کوچے میں رہائش پذیر تھے۔ وہ پولیس والوں سے ہماری ’دہشت پسندی، کا ماجرا سن کر بے اختیار ہنس دیے اور کہا کہ "یہ محض چند سر پھرے نوجوانوں کا ٹولہ ہے جو یونہی خون کی گرمی کی وجہ سے ذرا سنسنی خیز ہو گیا ہے ورنہ سب کے سب سو فیصد بے ضرر ہیں "۔ انھوں نے ہمارے آیندہ کے چال چلن کی پوری ذمے داری لی۔
حسن عباس صفیہ سے منٹو کی شادی کا احوال کچھ یوں بیان کرتے ہیں : کہ انھی دنوں اس کی والدہ جو بمبئی آکر اپنی لڑکی کے پاس قیام پذیر تھیں، اپنے چہیتے بیٹے کو اس غلیظ کھولی میں ملنے آئیں تو اس کی حالت دیکھ کر ان کی مامتا پگھل کر آنکھوں میں امڈ آئی۔ انھوں نے ڈبڈباتی ہوئی نظروں سے اپنے لاڈلے کو دیکھا اور نجانے کیا سوچ کر ایک نہایت معزز کشمیری گھرانے میں اس کی شادی کا بندوبست کردیا۔ چند دنوں میں نکاح کی رسم ادا کردی گئی۔ لیکن رخصتی تقریباً دس مہینے بعد عمل میں آئی۔
تقسیم پر لکھتے ہوئے ہمارے بیشتر افسانہ نگار سنبھل سنبھل کر قلم اٹھاتے تھے کہ کہیں ان پر ہندو یا مسلمان ہونے کا الزام نہ لگ جائے۔ اس کے برعکس منٹو کو اس کی ذرا سے بھی پروا نہ تھی کہ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے گی۔ وہ ظلم و ناانصافی کو کسی مذہب یا زبان سے جوڑ کر نہیں دیکھتے تھے۔ دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں پر وہ خدا سے براہ راست جھگڑتے تھے۔ ایسے میں وہ کسی ہندو، مسلمان یا سکھ کو کیسے بخش دیتے۔ وہ انسانیت کا نوحہ لکھ رہے تھے۔ تب ہی انھوں نے لکھا :"یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ ٹریجڈی اصل یہ ہے کہ مرنے والے کسی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ ہندو مذہب مر گیا لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کرکے ہندوئوں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے، مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جا سکتے ہیں۔"
وہ پسے ہوئے اور پچھڑے ہوئے طبقات کے ادیب تھے۔ اسی لیے عورتیں ان کی تحریروں کا خاص موضوع بنیں۔ انھوں نے کھولیوں اور کوٹھریوں میں رہنے اور پیٹ پالنے کے لیے دھندا کرنے والی عورتوں کے کیسے یادگار کردار لکھے۔ جب انھوں نے طوائفوں کی کہانیاں لکھیں تو یہ اشرافیہ سے وابستہ ڈیرہ دارنیوں کے رنگین اور دل لبھانے والے قصے نہ تھے۔ ان کی طوائفیں میلی کچیلی، جوئوں سے بھرے ہوئے بالوں والی، لیر لیر کپڑوں میں خستہ حالی کا نمونہ تھیں۔ ایک روپے اور آٹھ آنے میں ایک رات کے لیے بک جانے والیوں کا درد جس طرح منٹو نے محسوس کیا اور لکھا اردو ادب میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔
بٹوارے کے وقت تمام مذاہب کی بے بس اور بے زبان عورت پر جو گزری اس پر منٹو نے اتنی سچائی اور سفاکی سے کہانیاں لکھیں کہ ان میں مسلمانوں، ہندوئوں اور سکھوں کو اپنی اپنی وحشت اور بربریت کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ ’کھول دو، ٹھنڈا گو شت، وہ لڑکی، موذیل، سہائے، رام کھلاون، گورمکھ سنگھ کی وصیت، ایسی کہانیاں ہیں جو ہمارے اجتماعی ضمیر سے کتنے سوال کرتی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ آج ہم جس سنگین اخلاقی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی بحران سے دوچار ہیں، ہم پر جس طرح انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا حملہ ہوا ہے۔ اس فضا میں منٹو کی تحریروں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ وہ محض ایک افسانہ نگار نہیں ایک وژنری تھے۔ انھوں نے جنوری 1948ء سے جنوری 1955ء کے دوران پاکستان کو جس طرح سمجھا تھا، ریاست کا قبلہ جس طرف درست ہو چکا تھا، اسے وہ کتنی گہری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، اس کا اندازہ ان کی تحریروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی تحریر "اللہ کا بڑا فضل ہے" پڑھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مستقبل بینی کی کمال صلاحیت رکھتے تھے۔ اس مضمون میں انھوں نے نقشہ کھینچا ہے کہ موسیقی، مصوری، صحافت، سائنس، ہر شعبے سے مملکت خداداد کو نجات ہو چکی ہے اور عوام چین کی بانسری بجاتے ہیں۔
منٹو کی نظر عالمی سیاست پر بڑی گہری تھی جس کا اندازہ چچا سام کے نام لکھے ان کے خطوط سے ہوتا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں۔ آپ کو دنیا کی اس سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے، اور کیوں نہ ہو اس لیے کہ یہاں کا مُلا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔ کیا یہ اشارہ اس نیابتی جنگ کی طرف نہیں جو منٹو کی رخصت کے دہائیوں بعد ہم نے سوویت یونین کے خلاف لڑی۔ میں آپ کا پاکستانی بھتیجا ہوں مگر آپ کی سب رمزیں خوب سمجھتا ہوں۔
منٹو ہماری حکمران اشرافیہ کے نزدیک راندۂ درگاہ تھے۔ ان کے افسانوں پر فحاشی کے مقدمے چلے۔ وہ 10 اور 20 روپے میں افسانے لکھتے ہوئے، دیسی شراب پیتے ہوئے ختم ہوئے۔ دوسری طرف ہماری اشرافیہ تھی جسے دنیا کی تمام سہولتیں حاصل تھیں اور خارجہ تعلقات کے بارے میں جن کی بصیرت کی دھوم تھی۔ یہ کیسے ہوا کہ ایک معتوب اور مرتے ہوئے ادیب کو وہ خطرات نظر آئے جن سے ہم دوچارہونے والے تھے لیکن اعلیٰ تراش خراش کے امریکی سوٹ پہننے والے ان تمام معاملات سے غافل رہے جن کی فصل ہم آج کاٹ رہے ہیں۔